Saturday, 14 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zubair Hafeez
  4. Tareekh, Siasat Aur Islam

Tareekh, Siasat Aur Islam

تاریخ، سیاست اور اسلام

ہمیں لگتا ہے اقتدار نرم گرم صوفیوں کی روحانی خانقاہ کا نام ہے جہاں معاملات دم درود سے چلتے ہیں، یا ریاست ہومیوپیتھی کی دوکان ہے جہاں میٹھی میٹھی گولیاں پھاکنے سے معاملات حل ہو جاتے ہیں۔

اقتدارِ جبر و عدل کے توازن کا نام ہے۔ جبر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو تب بھی تخت کا دھڑن تختہ ہو جاتا ہے اور اگر عدل و ہمدردی کا ہیضہ ہو جائے تو تب بھی طاقت کھڈے لائن لگ جاتی ہے۔ عدل کے قصے نوشیرواں کی کہانیوں میں تو اچھے لگتے ہیں، جہاں شیر، ریچھ، بندر وغیرہ ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے تھے مگر حقیقت میں سخت فیصلے، جبر و تشدد بھی اقتدار کی مجبوریاں ہوتی ہیں۔

اس تمھید کا مقصد سابقہ امیر معاویہ کے متعلق میری تحریروں پر اعتراض کا جواب ہے۔ امیر شام نے جبر و ظلم سے اپنا اقتدار قائم کیا۔ لوگوں کو مروایا، خریدا۔ حضرت علی نے اصولی سیاست کی۔ مجھے سیدنا علی کے روحانی مقام کا اعتراف ہے مگر وہ درویش طبیعت کے بندے تھے۔ وہ سیاست کے بندے نہ تھے۔ نہ گورننس ان کے بس کا کام تھا۔

اس کا اندازہ یہیں سے لگا لیں۔ ان کے قریب کے لوگ ان کے خلاف ہو گے تھے مگر وہ کسی سے ڈیل نہ کر سکے۔ جو بہت بڑی سفارتی کمزوری تھی۔ نہروان میں عائشہ صدیقہ ان کے خلاف لشکر لے کر آگیں۔

ادھر ایک صوبے کا گورنر خلیفہ وقت کو صفین میں بہت ٹف ٹائم دے رہا ہے۔ ایک طرف ایک گورنر ہے دوسری طرف کئی لاکھ مربع میل کا خلیفہ اور اس کی فوج۔ وہ فوج جس نے نیل کے ساحل کو فتح کیا تھا۔ قادسیہ و یرموک میں تلوار کے جوہر دکھائے تھے۔ دوسری طرف معاویہ اور انکی فوج۔

آپ جگرا دیکھیں ایک صوبے کا گورنر اپنے فن سیاست سے جسے آپ چاہے چالبازی، جبر و مکاری کا نام دے دیں تن تنہا خود مختاری کا اعلان کرتا ہے، خلیفہ سے اسے منواتا بھی ہے۔ خلافت کا ادارہ تو حضور ﷺ کے بعد سے چلا آرہا تھا، اسے مسلمانوں میں legitimacy بھی حاصل تھی، خلیفہ کو تھالی میں رکھ کر سب کچھ ملتا تھا جو بھی خلافت کے ادارے کو چیلینج کرتا وہ سب سے پہلے مسلم عوام کی مزاحمت کا سامنا کرتا مگر امیر شام تن تنہا اس کو چیلنچ بھی کرتا ہے۔ عوام سے اپنا آپ منواتا بھی ہے۔ خلیفہ کی صفوں سے اعلی دماغ کنگھال کر اپنی طرف بھی کرتا ہے۔ سیدنا علی کے جانشین امام حسن کو بھی سفارتی میدان میں شکست دے کر اقتدار بھی حاصل کرتا ہے۔

عمرو بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ جیسے مدبران عرب بھانپ گے تھے علی سیاسی فن میں کمزور ہیں۔ مستقبل معاویہ کا ہے۔ وہ معاویہ کے ساتھ مل گے۔ سیاست کا مطلب اقتدارِ مستحکم کرنا ہوتا ہے۔ اگر "اصولی سیاست" خلافت کا ادارہ مستحکم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے، ایک صوبے کے گورنر سے عسکری و سفارتی سطح پر شکست کھا جائے تو وہ اصولی نہیں معذرت کے ساتھ کمزور سیاست ہوگی۔

سلطنتوں کے معمار نیکولا میکاولی کے پرنس کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ شاطر بھی ہوتے ہیں، عادل بھی، وقت آنے پر ظالم بھی بن جاتے ہیں، وہ اصولوں کے نام پر کمزور سیاست کرکے اپنا تخت کمزور کرنے والے نہیں ہوتے۔

آگسٹس سے لے سیزر تک، حمورابی سے لے کر سائرس اعظم تک، معاویہ سے لے کر سلطان سلیمان قانونی تک سب نے ایسی سیاست کی اور ریاست کے اندر سے سلطنتوں کو پھوڑا۔

آپ جہلم والے انجینئر کے انٹرنیشنل احادیث نمبروں کی گردان طوطے کی طرح رٹ کر کربلا کی آڑ میں لاکھ معاویہ کو بھرا بھلا کہیں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ تاریخی شخصیات پر رائے قائم کی جاسکتی ہے اچھی بھی بری بھی۔ مگر آپ ایک طرف بابوں کے دین کو کتابوں کے دین سے جدا کرنے کی دعوے کریں دوسری طرف آپ کربلا جیسے تاریخی واقعے کو دین کا حصّہ بھی بنادیں اور یہ کہیں آخرت میں کربلا کے متعلق پوچھا جائے گا۔

ایک طرف آپ بابوں کے پیچھے ڈانگیں اٹھا کر لگ جائیں اور دوسری طرف کربلا کے بابے گڑھ لیں، اہلبیت کی خودساختہ پوجا پاٹ شروع کردیں۔ یہ تو سب سے بڑھ کر بابا پرستی ہے۔ اسلامی میتھالوجی کے مطابق جبرائیل بخآری، مسلم، ترمذی کی انٹر نیشنل نمبری لے کر نہیں اترا کرتا تھا جس میں غدیر خم کے قصے ہوں، کسی نسل پر سادات کا لیبل لگا کر اس کی پوجا پاٹ شروع کردی جائے یا اس میں کربلا کی پیشین گوئیاں ہوں۔ بلکہ جبرائیل تو قرآن کے لے حضور ﷺ پر اترا تھا، پورے قرآن میں کہیں بھی کربلائی بابوں کی پوجا پاٹ کی تعلیم نہیں دی گی۔

اگر انجینیر زدہ ہو کر آپ بابوں پر چڑھ دوڑیں۔ آپ کو غوث پاک کا بابا بننا خلاف اسلام لگے، اجمیری سے لے کر بختیار کاکی تک سب بابوں کو مسمار کردیں اور خود تاریخ کے بابے گھڑتے رہیں، محدثین کو اصح بعد کتاب اللہ کے مقام پر بٹھاتے رہیں اور پھر ان کو شریعت سے ووٹ بھی ڈلوا دیں تو کیا یہ بابا پرستی نہیں۔

دوسروں کا دیکھنا آپ کو گناہ لگے اور اپنا دیکھنا ادا تو یہ دوہرا معیار ہے۔

پھر اگر بریلوی دیوبند نے بزرگوں کو بابا بنایا تو پھر آپ نے کتابوں کو بابا بنا دیا۔

Check Also

Yar Tum Kaise Manage Karte Ho?

By Syed Mehdi Bukhari