اک ذرا انتظار
کوئی اتنی حیران کن کیفیت بھی نہیں کہ اپوزیشن سینیٹ میں اکثریت رکھتے ہوئے بھی حاصل بزنجو کو چیئرمین سینیٹ نہ بنوا سکی اور اس سے بھی اہم یہ ہے کہ موجودہ چیئرمین کے خلاف ان کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوگئی۔
ہم دراصل جس تناظر میں اس حقیقت کو پرکھ رہے ہیں وہ در حقیقت وسیع نہیں۔ یہ کہنا کہ اپوزیشن کے چودہ سینیٹرز نے دھوکہ دیا، جمہوریت کی تحریک کمزور ہوئی اور یہ کہ ان بے ضمیر لوگوں کو اپنی صفوں سے نکال دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔
اپوزیشن اپنی جنگ لڑے گی اور حکومت اپنا دفاع کرے گی، یہ ایک فطری عمل ہے اور اس میں ہارس ٹریڈنگ کا ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ شاید ایوان زیریں میں یہ کام بہت کامیابی سے ہوتا ہے مگر ایوان بالا میں اس انداز سے نہیں اور شاید اسی لیے یہ حیرانی ایک لحاظ سے صحیح بھی ہے۔ میرے خیال میں اپوزیشن نے اپنی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے بہت ہی آسان راستے کا انتخاب کیا۔ ابھی ایک سال بھی اس حکومت کو نہیں ہوا تھا۔
ملک کے اندر معاشی بحران نے حکمرانوں کو بہت ہی غیر مقبول کر دیا، ساتھ ہی اس بات نے بھی لوگوں کی سوچ کو اپنی طرف مائل کیا کہ خان صاحب سلیکٹیڈ نہیں بلکہ الیکٹیڈ وزیراعظم ہیں۔ اپوزیشن نے پچیس جولائی کو یوم سیاہ منایا اور اس سے پہلے ہی اس بات کا اعلان کر دیا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے گی۔ یوم سیاہ کم از کم ابتدائی قدم کے حوالے سے ناکام نہیں کہا جا سکتا اورکامیاب بھی نہیں لیکن چیئرمین سینیٹ کے معاملے میں یوں کہیے کہ اپوزیشن نے پہلے ہی اوور میں اپنی وکٹ گنوا دی۔
ہم فرض کرتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی۔ یقیینا یہ تاثر جاتا کہ خان صاحب کی حکومت کمزور ہو گئی ہے اور اس طرح اپوزیشن اپنا جال وسیع کرتی جاتی اور حکومت کو پیچھے کی طرف دھکیلتی۔
دراصل جو بات ہم سمجھ نہیں پا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ کوئی بھی تحریک ایک سال میں منظم نہیں ہوا کرتی۔ ابھی تو لوگوں سے پچھلی حکومت کی بری حکمرانی جو اسحاق ڈار کے زمانے میں پیدا ہوئی تھی، جس کے اثرات ابھی تک باقی ہیں وہ نہیں بھولی، لوگ وہ بھی نہیں بھولے کہ جنرل مشرف کے خلاف جو وکلاء کی تحریک اس کے اقتدار کے نویں سال میں ابھری تھی، اس میں بھی سیاسی کارکن و لیڈر ہر اول دستہ نہیں بلکہ وکلاء تھے۔
ہماری سیاسی قیادت بھرپور انداز میں یکجا جنرل ضیاء الحق کے خلاف ہوئی تھی، اس لیے کہ انھوں نے ایک وزیر اعظم کو پھانسی کے پھندے پر چڑھتے دیکھا، اظہار رائے پر بھرپور پابندی دیکھی، سیاسی کارکنان کو جیلوں میں اور بینظیر بھٹوکو جلاوطن دیکھا۔
عمران خان ضیاء الحق کے برعکس ہیں، وہ آمر نہیں، یہ ٹھیک ہے کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور شاید اسٹیبلشمنٹ کو بھی اپنے نقطہ نظر کے حساب سے بہترین وزیراعظم ملا ہو۔ لیکن سینیٹ میں اپوزیشن کے عدم اعتماد نے خان صاحب کو اس اعتبار سے کمزور کیا ہے کہ ان کی طاقت کو خود اپنی پارٹی یا عوام کا اعتماد حاصل نہیں۔
وہ اسمبلی میں سادہ اکثریت بھی نہیں رکھتے مگر جس طرح PMLQ بنی تھی اور اس کے اتحادی بنے تھے، کچھ اسی طرح کا ماجرا ان کی پارٹی کا بھی ہے۔ انیس بیس کے فرق کے ساتھ۔ جب ایسی پارٹیوں کا زوال ہوتا ہے تو پھر ہمیں بھی پتہ ہے کہ وہ پیپلز پارٹی یا PML_Q کی طرح اپنے آپ کو زندہ رکھنے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔
تھوڑی دیر کے لیے بھٹو کے آخری زمانے کا جائزہ لیتے ہیں۔ PNA کی تحریک چل پڑی اس لیے کہ بھٹو صاحب نے دھاندلی کروائی، اگر وہ یہ دھاندلی نہ بھی کرواتے تو بھی سادہ اکثریت سے جیت کر حکومت بنا سکتے تھے۔ قطع نظر اس کے کہ اس سکے پر امریکا نے خوب کھیلا۔ جب تحریک چلی تو، جنرل ضیاء جیسے لوگوں نے بھٹو صاحب کا اعتماد جیتا اور پھر یہی ضیاء الحق تھے جنہوں نے بھٹو کو رخصت کیا۔
خان صاحب کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ اپوزیشن کو حد سے زیادہ دیوار سے لگانا، خود سسٹم کے لیے مضر ہے۔ اور اپوزیشن کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ خان صاحب کی حکومت کوگراتے گراتے کہیں وہ پورے سسٹم کو نہ پٹری سے اتروا دیں جس طرح کہ ماضی میں ہوا ہے۔
یہ ہمارے زرداری صاحب تھے جنہوں نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے بلوچستان کی حکومت کو ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے ختم کروایا پھر سینیٹ میں PTI کے ساتھ مل کر چیئرمین لائے اور جب دباؤ بڑھ گیا تو پھر میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اب بھی کوشش میں ہیںکہ کسی طرح سندھ میں اپنی حکومت کو بچائیں اور اگر پھر سے حکومت یا اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو پہل کرنے میں کیا حرج ہے۔ کیونکہ اس مفاہمت سے ان کو سندھ میں دہقانوں سے ملنے والا ووٹ کم نہیں ہو گا، وہی وڈیرے ان کے ساتھ ہوں گے بلکہ بہت خوش بھی ہونگے۔
ہاں مگر یہ ماجرا شاید مریم نواز کے ساتھ نہیں ہے۔ اس روش میں ایک نقصان زرداری صاحب کا یہ ضرور ہوا ہے کہ وہ اپنے بیٹے بلاول کے لیے کوئی بہترین مثال چھوڑ کر نہیں جا رہے۔ جس طرح میاں صاحب اپنی بیٹی کے لیے چھوڑکے جا رہے ہیں۔
اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ابھی اپنی صفوں کو ترتیب دے، کوئی بڑا ایڈونچر کرنے سے اجتناب کریں اور آہستہ آہستہ اپنے آپ کو مضبوط کریں اور جب دیکھے کہ لوہا گرم ہے تو تب ہتھوڑا ماریں۔ جب جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو ہٹایا تھا تو اس وقت لوہا پک چکا تھا یہ ٹھیک ہے کہ ان کی معزولی کے پیچھے اور بھی بہت سے عناصر تھے مگر وہ اسلیے مشرف کے خلاف ہوئے کہ وہ اب liability تھے۔
عمران خان بحیثیت ایک شخصیت باہرکی دنیا میں اپنا اثر رکھتے ہیں، اگر ملک کی معیشت بہتر ہوئی تو وہ مقبول بھی ہو سکتے ہیں، لیکن جو لوگ ان کے ارد گرد ہیں جس طرح سے وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے مخالفین کو اور آزاد میڈیا کو دبانا چاہتے ہیں اس سے فطری انداز میں ایک تحریک ابھرتی ہے۔
حاصل بزنجو بحیثیت فرد بہت معقول شخصیت ہیں۔ ان میں ایک ٹھہراؤ ہے۔ وہ بلوچ قوم پرستی کے اس نظریے کے حق میں نہیں جو ریاست سے ٹکراؤ میں جانا چاہتا تھا۔ ان سے شورش پسند بلوچ قوم پرست بہت نالاں بھی رہے اور ان کی پارٹی کے بہت سے لیڈروں کو نشانہ بھی بنایا گیا، مگر حاصل بزنجو اپنی سوچ میں وسیع ہیں وہ سیکولر پاکستان کے حق میں اور جمہوری انداز میں حقوق منوانے کی بات کرتے ہیں۔
انھوں نے اپنے والد کا حق ادا کیا ہے وہ بھی بلوچوں کو ملک گیرسیاست میں لے کر آنا چاہتے تھے۔ ان کے چیئرمین ہونے سے کوئی واضع بڑا فرق اس لیے بھی نہیں آتا کیونکہ ایوان میں اکثریت تو ویسے بھی اپوزیشن کے پاس تھی۔ لیکن اس ناکامی کے بعد اپوزیشن کا جو دعویٰ تھا کہ سینیٹ میں اکثریت ان کے پاس ہے اس پر سوالیہ نشان آ گیا ہے۔
دوسری طرف یہاں کی جمہوری قوتوں میں غم و غصہ اس لیے بھی موجود ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک کو اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے ناکام بنایا گیا ہے۔ جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہتھکنڈے بھی جمہوریت کا حصہ ہیں کیونکہ یہ ہماری جمہوریت ہے۔ وہ جمہوریت جو ابھی عوام کو آمریت کی طرح ریلیف دینے میں ناکام ہے۔
ابھی ہماری سیاست میں میچیورٹی نہیں کیوں کہ ہماری سیاست عکاس ہے، ہمارے پسماندہ معاشرے کی۔ یہ وہ ہارس ٹریڈنگ ہے جو میاں صاحب بھی کرتے ہیں اور حال ہی میں ثناء اللہ زہری کی حکومت گرانے میں زرداری صاحب نے بھی کی۔ سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ووٹ بھی انھوں نے خریدے۔
دوسری طرف ہماری جمہوریت کی تحریک میں مذہبی کارڈ بھی استعمال ہوتا جا رہا ہے۔ کل یہ کام میاں صاحب کرتے تھے پھر یہ میاں صاحب کے خلاف بھی ہوا اور اب مولانا فضل الرحمان یہ کارڈ عمران خان کے خلاف کھیل رہے ہیں۔
آج اگر ہماری جمہوریت اتنی ہی پنپ سکی ہے تو پھر جو سینیٹ میں ہوا وہ تو ایک فطری عمل تھا۔
رہی نہ طاقت گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پے کہیے کہ آرزوکیا ہے
(غالب)