افراطِ زر
شاید ہم تاریخ سے اب تک ناآشنا ہیں۔ کئی پہلو ہیں تاریخ کے۔ کارل مارکس کے پاس تاریخ ایک لوکو موٹو انجن تھی طبقاتی جدوجہد کی۔ امیروں اور غریبوں کے درمیان تضادات کا ٹکرائو تھا۔ جس کی ایک شکل خانہ جنگی بھی کہی جا سکتی ہے۔
کارل مارکس کی سوچ میں بھی ریاست شرفاء کے مفادات کی ترجمان کے سواء اور کچھ نہ تھی۔ کسے خبر تھی کہ خود کارل مارکس کے فلسفے کی کوکھ سے پرو لتاریہ انقلاب کے نام سے بھی ایک شرفاء نے جنم لیا تھا ایک پارٹی تھی بس۔ مستقل اقتدار میں۔ وہی بیوروکریسی تھی مگر جو بھی تھا، آئین تھا۔ انسانی حقوق تھے، بیروزگار کو بیروزگاری الائونس ملتا تھا، فیصلے مگر مارکیٹ فورسزکیا کرتی تھی۔
میری عمر اس وقت سات یا آٹھ برس تھی، جب میرے والد جلا وطن ہوئے۔ کس طرح ان کی بھرپور وکالت بکھرگئی، کس طرح سے ہم متوسط طبقے سے وابستہ ایک خاندان کی حیثیت سے پیچھے چلے گئے اور پھر کس طرح میں اماں سے ڈپو بک لے کر راشن ڈپو سے چینی لینے جاتا تھا اور مجھے قطار میں کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ وہ چینی عام دکانوں پر بھی پڑی ہوتی تھی، مگر ہم شاید اتنے امیر نہ تھے۔
دو سال پہلے بھی ایک سو کے نوٹ میں بہت کچھ مل جاتا تھا۔ اب اس نوٹ سے آدھی چیزیں بھی نہیں ملتیں۔ میرا ڈرائیور اب مجھے سر جھکا کے رجوع کرتا ہے کہ میں نے اس کی تنخواہ ان دو سالوں میں اتنی نہیں بڑھائی، جتنی مہنگائی بڑھ گئی ہے کہ خود میں جتنا کماتا تھا اتنا نہیں کماتا۔ میرے بیٹوں سے لے کر میری بیوی گاڑی چلانا بخوبی جانتے ہیں اور ڈرائیورکے بغیر میرا گزارا ہو سکتا ہے۔ اس لیے وہ چپ ہے کہ کہیں تنخواہ بڑھانے کی اس کی درخواست اسے نوکری سے خارج نہ کروا دے اور مارکیٹ میں اسے اتنی آسانی سے اتنی تنخواہ پر نوکری نہیں ملے گی۔
اسی طرح بات صرف ایک ڈرائیورکی نہیں ہے، ایسے ایک کروڑ لوگ ہیں جو صرف ڈیڑھ سال میں غربت کی لکیرکے نیچے چلے گئے، جب ہم سیاسی تجربے کر رہے تھے۔ اس سے بہتر تو شوکت عزیز کا تجربہ تھا۔ کم از کم اناڑی تو نہ تھا۔ اور اب یہ مہنگائی، اور اس مہنگائی کے سامنے ہیں یہ غریب اور لاچار لوگ، مجھ جیسے متوسط طبقے کے لوگ، کارخانے میں کام کرنے والے مزدور لوگ اورکارخانے کو چلانے والے بھی۔ مگر وہ لوگ جن کو ریاست کے پاس دینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ نہ ان کے بچوں کے لیے اسکول ہیں نہ اسپتال اور جو چند جان بچانے کے لیے دوائیاں تھیں، ان کی قیمتیں بھی آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں۔
ابھی تو تصاویر آنا شروع ہوئی ہیں کہ کس طرح لوگ گدھا گاڑیوں پر اپنے پیاروں کو اسپتال پہنچاتے ہیں، اور پھر کس طرح ان کو اسپتال میں بستر نہیں ملتے اور فٹ پاتھ پر سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔
کبھی ہم نے سوچا ہے کس طرح سے دو پاکستان بنتے جا رہے ہیں۔ ایک امیروں کا، شرفاء کے مفادات کا پاکستان اور دوسرا غریبوں، مظلوم اور لاچاروں کا پاکستان، جن کی کوئی عزت نہیں ہوا کرتی، کچی بستیوں میں رہنے والے، دیہات میں پانی گھاس کے گھروں میں رہنے والے پاکستانی، بیماریوں کے جالوں میں پھنسے یہ پاکستانی!
افراط زر امیروں کے لیے نہیں صرف غریبوں کے لیے ہوا کرتی ہے اور جنھوں نے بھی آٹے کو چھپا کر خیبر پختونخوا میں ذخیرہ اندوزی کر کے افغانستان سے نکالا ہے، انھوں نے امیروں کو نہیں غریبوں کو لوٹا ہے۔ امیروں کے لیے افراط زر چودہ فیصد اور غریبوں کے لیے افراط زر پچیس فیصد۔ کیونکہ غریب کی آمدنی کا اسی فیصد کھانے کی چیزوں، بجلی وگیس کے بلوں میں چلاجاتا ہے۔
آپ اس حکومت اور اپوزیشن کے لب و لہجے کو پارلیمنٹ میں ہی دیکھ لیں۔ کہیں بھی یہ سنجیدہ نظر نہیں آتے۔ حکومت کے بڑے بڑے دعوے اور وعدے اب بھی جاری و ساری ہیں مگر وہ انجام پاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہ سال 2020 ہی تھا غالبا کہ ہمارے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ان کی پالیسیوں کا ثمر ہمیں 2020میں ملنا شروع ہو جائے گا۔ مگر جتنی افراط زر صرف جنوری کے اس مہینے میں آئی ہے اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ شاید 2020 میں پاکستان مہنگائی کے سب ریکارڈ توڑ دے گا۔
ان سے تو فرانس کی ملکہ بیوقوفی میں کم تھی، جب وہاں لوگ ڈبل روٹی کی قلت ہونے پر سڑکوں پر نکل آئے اور جب اسے وجہ بتائی گئی تو اس نے کہا کہ "یہ لوگ پھرکیک کیوں نہیں کھاتے اگر ڈبل روٹی میسر نہیں۔" جب جرمنی میں ہٹلر ازم کا جنم ہوا اس کے پیچھے بھی افراط زر کے عناصر تھے۔ اتنی خطرناک افراط زرکہ لوگ کہنے لگے، پہلے پیسے جیبوں میں لے کے جاتے تھے اور چیزیں باسکٹ میں لاتے تھے اور اب پیسے باسکٹ میں لے جاتے ہیں اور چیزیں اتنی کم ملتی ہیں کہ ان کو جیبوں میں لے کر آتے ہیں۔ اب دیکھیں چاندی ہو گئی یوٹیلیٹی اسٹورز والوں کی اب سستی اشیاء کو وہ صرف اپنوں میں بانٹیں گے۔
خان صاحب کے خیالات یہیں پورے ہو جائیں گے۔ نہ بھینس دودھ زیادہ دیں گی نہ درجنوں انڈے مرغیاں دیں گی، نہ سیلانی پورے پاکستان کے غریب لوگوں کو بریانی کھلا پائیں گی۔ یہ خیالات شو کیس میں سجا کے تو رکھے جا سکتے ہیں، مگر حقیقت میں کوئی بھی نتیجہ نہیں دے پاتے۔ اب یہ ملک افراط زرکی شدید زد میں ہے۔ یہ افراط زر اورکچھ نہیں ٹیکس کی ایک شکل ہے، ان شرفاء کے پاکستان میں۔ اپنے شرفاء جو برلا اور ٹاٹا بھی نہیں۔ یہ سرمایہ دار یا جس مارکس کی زبان میں نیشنل ہو جو ابھی نہیں، اسے گماشتہ سرمایہ دار، زمینوں پر قبضے کرنی والی مافیا اور چینی آٹا غائب کرنی والی مافیا والی شرفاء کہیے۔ ایک طرف امریکا کے مفادات اس زمین سے وابستہ، دوسری طرف خلیج کی سیاست۔ اور اس سارے تناظر میں قومی قیادت نہیں ہے کیوں کہ ہمیں چاہیے بھی نہیں۔
یقیناً یہ بحران مراد سعیدکی تقاریر سے حل نہیں ہونے والا اور نہ اس راگ سے کہ ہم کرپٹ لوگوں کو نہیں چھوڑیں گے۔ ایک طرف اینٹی کرپشن کا الاپ اور دوسری طرف ستر فیصد عوام افراط زرکی زد میں۔