ایک آئین ہی تو باقی رہا ، رہنے دیجیے
بھلا ہو ہمارے آئین بنانے والوں کا جنھوں نے اس کے بنیادی ڈھانچے میں وہی کچھ ڈالا جو تسلسل ہے، دنیا کی آئینی تاریخ کا۔ وگرنہ جو حشر ہم نے کیا ہے اپنی سیاسی تاریخ کا وہ دنیا پر بھی عیاں ہے اور ہم سب پر بھی۔
آئین بنیادی طور پر ایک عمرانی معاہدہ ہے اور یہ عمرانی معاہدہ سیاسی تحرک سے بنتا ہے۔ سب کو ساتھ لے کر چلنا اور سب سے اہم یہ کہ ہر ایک شہری کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرناجو کہ آئین کا عکس ہوتا ہے۔
آئین ایک بار ہی بنتاہے، تضادات اور کئی ٹکراؤ کے بعد، ان تضادات اور بحرانوں کے بعدجو یا تو خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کے تشکیل و مروج ہونے کے بعد کچھ ابہام رہ جاتے ہیں یا کچھ نئے مظاہر رونما ہو جاتے ہیں، پھر ایسے تمام حقائق کو آئینی ترمیم، موجودہ طریقہ کار کے ذریعے آئین کے اندر جذب کرلیتی ہے۔
سندھ کی سرزمین پر جو پہلی قیامت ٹوٹی وہ تھی ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت، جس کا غم وغصہ ایم آر ڈی کی تحریک کی شکل میں 1983 میں سامنے آیا، پھر بے نظیر کی شہادت کا غم، لیکن سندھ کے لوگوں میں کوئی مقامی یا معاشی تبدیلی نہیں آئی۔ وہی لوگ، وہی وڈیرے اور و ہی دہقان۔ جوسندھ کی مڈل کلاس ہے وہ نوکری پیشہ ہے اور ان کی بری حکمرانی کا عکس بھی اور پاکستان پیپلز پارٹی ان کی سرپرست۔ مگر پنجاب اب بدل چکا ہے آج کا پنجاب وہ پنجاب نہیں ہے جو 1970 میں بھٹو کے ساتھ تھا یا جس بیانیہ پر بھٹو ان کا رہبر بنا تھا اور وہ دیوانہ واربھٹو کے ساتھ تھے۔
بھٹو صاحب بحیثیت صدر یا وزیرِاعظم پنجاب کے ایک شہر میں، ایک جلسے میں خطاب کررہے ہیں ایک ماحول بنا کر انھوں نے لو گوں سے یہ رائے لی کہ کیا بنگلہ دیش کو ایک ملک کی حیثیت سے مان لیا جائے؟ لیکن اس جلسے کے پورے عوام جذباتی ہوگئے اور بھرپور انداز میں انھوں نے بھٹو صاحب کے اس سوال کی نفی کی۔ 1970کے بھٹو کے کردار پر جو ہماری جرح ہے وہ درست ہے مگر کیا اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم اسوقت کے زمینی حقائق کا بغور جائزہ لیں۔
مشرقی پاکستان کو کھونے کو بعدبالآخر یہ احساس جاگا کہ ملک کو ایک منظم آئین کی ضرورت ہے اور چوبیس سال کے عرصے کے بعد آئین کو ترتیب دیا، عین اسوقت جب ہندوستان کا آئین کیشوانندا کیس کے ذریعے اپنی ارتقائی منازل طے کرکے اپنے " بنیادی ڈھانچے" کی تھیوری کا تعین کررہا تھا۔ یہ وہی تھیوری تھی جس کو امریکا نے اپنے آئین کی تشکیل کے تیس سال بعد اپنے کیس ماربری ورسز میڈیسن (Marbury v.s Madison) میں متعین کی تھی۔ ہندوستان کا آئین، امریکا کے آئین کا تسلسل ہے۔ ہمارا آئین بھی انھیں شقوں پر تشکیل دیا گیا ہے۔
مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہوا اور شاید انھیں کی قربانیوں کا یہ ثمر ہے کہ ہمیں ایک منظم آئین ملا کیونکہ مشرقی پاکستان کو کھو دینے کے بعد ہم ڈر گئے کہ کہیں مستقبل قریب میں پھر ہمیں ایسے ہی کسی سانحے سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ ہم نے مکمل آئین بنایا، اس کو بناکر آئین سے انحراف بھی نہیں کیا کیونکہ ہم کر نہیں سکتے تھے مگر آئین میں بے شمار ترامیم کیں، کہیں آئین کو غیر فعال کردیا تو کہیں اس کو دوبارہ فعال بنا دیا۔ کبھی آئین کو ترامیم کے ذریعے مکمل بنایا تو کہیں ماورائے آئین تبدیلیاں کرنے کی بھی کوششیں کی گئیں اور اب تک یہ آئین پچیس کے لگ بھگ ترامیم کا سامنا کر چکا ہے۔
آج پاکستان میں جو جمہوریت اور جمہوری عمل جاری ہے وہ انڈیکس کے مطابق 10ویں نمبر پر ہے اور اس کی کلاسی فیکشن ایک "ہائبرڈ جمہوریت "کی ہے ایک ایسی جمہوریت جو انتخابات میں دھاندلی کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔ بظاہر تو یہ سب کچھ آئین کے مطابق ہے مگر اس کی روح کے منافی ہے۔
آج اسی ہائبرڈ جمہوریت کے سالاروں نے آرٹیکل 226 میں ترمیم کے لیے، پارلیمینٹ میں بل ٹیبل کیا ہے اور جس کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے سادہ اکثریت کے بل بھی یہ پاس نہ کرواسکے کیونکہ یہ سینیٹ میں اکثریت نہیں رکھتے اور جو اکثریت قومی اسمبلی میں ہے، اس سے ہم سب واقف ہیں۔
آرٹیکل 186کے تحت حکومت صدارتی ریفرنس لے کر اعلیٰ عدالت میں آئی ہے مگر کورٹ کا یہ کہنا ہے کہ یہ کام کورٹ کا نہیں بلکہ پارلیمنٹ کا ہے۔ لیکن کچھ ایسا بھی کہا جارہا ہے کہ پارلیمنٹ اس میں ترمیم نہ کرکے ہارس ٹریڈنگ کی حامی ہوگی جوکہ ہارس ٹریڈنگ کی تاریخ کو پڑھے بغیر کیا گیا اور اگر یہ پتا بھی ہو کہ کسی ممبر نے پارٹی کے کہنے پر ووٹ نہیں دیا تو کیا آرٹیکل 162یا 163کی خلاف ورزی نہ ہوگی؟
جب خفیہ رائے دہی کے ذریعے سینیٹ کے ممبر کا انتخاب کیا جائے گا۔ اس کا الیکٹوریٹ کالج اس کے ووٹرکا استحقاق ہے کہ وہ اپنی پارٹی کے مطابق اپنی مرضی سے ووٹ دیتا ہے، وگرنہ آج ٹرمپ کے مواخذے کی حمایت میں اس کی پارٹی کے کچھ لوگوں نے ووٹ نہ دیا ہوتا۔ جب حاصل بزنجو سینیٹ کی چیئرمین شپ ہار گئے تو اس وقت حکومت کیا کررہی تھی اور اب پارلیمنٹ کا اسی حکومت نے کیا حشر کیا ہے!
یہ ملک سیاسی اعتبار سے اپنی راہیں خود متعین کرے گا اگر یہ آئین کے مطابق نہیں چلے گا۔ کیا ہم اب بھی ہو ش مندی کا مظاہرہ نہیں کریں گے جب کہ ہم ایک بہت بڑے بحران کے قریب پہنچ چکے ہیں۔