یہ فیصلے ہمارے نہیں ہوتے (پہلا حصہ)
واجد شمس الحسن بنیادی طور پر صحافی تھے، عین جوانی میں ایڈیٹر بن گئے، والد سید شمس الحسن مسلم لیگی اور قائداعظم کے دست راست تھے، یہ لوگ دہلی میں رہتے تھے، والد کا پرنٹنگ پریس تھا، مسلم لیگ کی تمام دستاویز، پوسٹرز اور اشتہارات اسی پریس سے شایع ہوتی تھیں۔
قائداعظم نے ڈان اخبار شروع کیا تو سید شمس الحسن اس کے پرنٹر اور پبلشر تھے، خاندان قیام پاکستان کے بعد کراچی آ گیا، والد انتقال تک مسلم لیگی رہے اور ملک کی اعلیٰ قیادت ہر دور میں ان کی دوست رہی، خان لیاقت علی خان روز سید شمس الحسن کے ساتھ ناشتہ کرتے تھے، واجد شمس الحسن تعلیم مکمل کرنے کے بعد صحافت میں آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے نامور صحافی بن گئے، پیشہ وارانہ ذمے داریوں کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ رابطہ ہوا اور بھٹو خاندان کے ساتھ ان کی دیرینہ دوستی شروع ہو گئی۔
بھٹو صاحب نے واجد شمس الحسن کو سگار پینا سکھایا، ان کے پاس بڑے سائز کی ماچس ہوتی تھی، انھوں نے سگار اور ماچس واجد صاحب کو پکڑائی اور کہا "یہ یاد رکھنا سگار کو لائیٹر سے نہیں ہمیشہ ماچس سے جلایا جاتا ہے" بھٹو صاحب پوری زندگی واجد صاحب کو ہر مہینے سگار کا ڈبہ بھجواتے رہے، یہ سلسلہ بھٹو صاحب کے بعد بے نظیر بھٹو نے بھی جاری رکھا، واجد شمس الحسن واحد شخص تھے جو محترمہ کے سامنے سگار پی سکتے تھے۔
بے نظیر کا کہنا تھا آپ جب سگار پیتے ہیں تو مجھے اپنے والد یاد آجاتے ہیں، میں نے اپنا پورا بچپن اس خوشبو کے ساتھ گزارا تھا، واجد صاحب بھٹو صاحب کے بعد بھی بھٹو خاندان کے ساتھ وابستہ رہے، یہ بیگم بھٹو کے قریبی ساتھیوں میں بھی شامل تھے، بے نظیر انھیں اپنا بھائی کہتی تھیں، یہ ان کے بھی انتہائی قریب تھے، یہ ان کے رازدار بھی تھے اور یہ آخری وقت تک محترمہ کے ساتھ رابطے میں بھی رہے۔
واجد شمس الحسن نے پچھلے دنوں "بھٹو خاندان میری یادوں میں " کے نام سے ایک شان دار کتاب لکھی، میں نے یہ کتاب شروع کی اور اسے مکمل کیے بغیر کوئی دوسرا کام نہیں کیا، یہ بھٹو خاندان کے کسی "ان سائیڈر" کی پہلی مستند کتاب ہے لہٰذا ہم اسے تاریخی اعتراف نامہ قرار دے سکتے ہیں، کتاب میں بھٹو خاندان کے تمام دوستوں اور دشمنوں کا تفصیل سے ذکر ہے، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو وقت پڑنے پر بھٹوز کا ساتھ چھوڑتے رہے اور وہ بھی جو ہر اچھے اور برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہے۔
یہ پارٹی کا نوحہ بھی ہے اور بھٹو صاحب اور محترمہ کی عادتوں کا تفصیل نامہ بھی، مثلاً والد اور بیٹی دونوں تفصیل کے ساتھ فائلیں پڑھتے اور ان پر لمبے لمبے نوٹ لکھتے تھے اور کوئی فائل ان کی نظر سے اوجھل نہیں ہو سکتی تھی، محترمہ صبح تین بجے تک کام کرتی تھیں، وہ جہاں جاتی تھیں وہاں سے کتابیں خریدتی تھیں اور سفر کے دوران ہی ختم کر دیتی تھیں، ان کے پڑھنے کی اسپیڈ بہت زیادہ تھی، بھٹو صاحب بیرون ملک دورے کے دوران اپنے ساتھیوں کو سمجھاتے اور سکھاتے بھی تھے۔
یہ جب شملہ معاہدے کے لیے بھارت جا رہے تھے تو انھوں نے ائیرپورٹ پر اپنے وفد سے کہا تھا، ہم جنگ ہار چکے ہیں لیکن انڈیا پہنچ کر آپ کے کسی رویے سے ہار کا تاثر نہیں ملنا چاہیے، آپ لوگوں سے ملیں لیکن آپ کے رویے میں ہار اور گرم جوشی دونوں نہیں ہونی چاہییں اور آپ نے واپسی پر انڈیا سے 1971کی جنگ سے متعلق کتابوں کے سوا کچھ نہیں خریدنا، ہم واپسی پر آپ لوگوں کے سامان کی تلاشی لیں گے، اگر کسی کے سامان سے کوئی ساڑھی یا دوسرا سامان نکلا تو اسے سزا دی جائے گی، ہم انڈیا کو یہ تاثر نہیں دینا چاہتے ہم انڈین مصنوعات کے فین ہیں اور ہم اپنے جنگی قیدیوں کے بجائے شاپنگ کے لیے یہاں آئے ہیں۔
واجد شمس الحسن نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کا بھی بڑا دل چسپ ذکر کیا، یہ اس وقت ڈیلی نیوز کے ایڈیٹر تھے، میڈیا سنسرشپ کا شکار تھا، مارشل لاء اور جرنیلوں کے بارے میں کوئی خبر نہیں چھپ سکتی تھی، اس زمانے میں چلی میں جنرل پنوشے نے مارشل لاء لگا دیا تھا، واجد صاحب چلی اور جنرل پنوشے کے بارے میں فرنٹ پیج پر خبر لگا دیتے تھے، اس سے عوام ہنس پڑتے تھے اور مارشل لائی حکومت پریشان ہو جاتی تھی لہٰذا انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے جنرل پنوشے کی خبر فرنٹ پیج پرلگانے پر پابندی لگا دی، یہ اندرونی صفحات میں سنگل کالم شایع ہوتی تھی۔
واجد صاحب نے انکشاف کیا، ذوالفقار علی بھٹو کا مقدمہ سننے والے بینچ میں جسٹس وحید الدین سینئر جج تھے، جنرل ضیاء الحق کو محسوس ہوا یہ بھٹو صاحب کے حق میں فیصلہ دے دیں گے، یہ بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر کے مریض تھے، حکومت کے وکیل اعجاز بٹالوی نے جان بوجھ کر طویل دلائل دیے، جسٹس وحیدالدین کی شوگر اور بلڈ پریشر شوٹ کر گیا، یہ عدالت سے اسپتال لے جائے گئے اور وہاں انھیں جان بوجھ کر گلوکوز کی ڈرپ لگا دی گئی تاکہ یہ کوما میں چلے جائیں، جسٹس وحید الدین کو بالآخر بیماری کی بنیاد پر نااہل کر دیا گیا۔
بینچ میں سات جج رہ گئے اور یوں چار اور تین کے فیصلے سے بھٹو صاحب کو سزائے موت دے دی گئی، واجد صاحب نے انکشاف کیا، بھٹو صاحب نے جیل میں آخری ملاقات کے دوران بے نظیر کو وصیت کی، آپ کی تقدیر میں وزیراعظم بننا لکھا ہے لیکن یہ یاد رکھنا آپ وزیراعظم بن کر کسی اسلامی ملک کو اپنی نیوکلیئر ٹیکنالوجی نہ دینا کیوں کہ مغربی ملک پاکستانی بم کو کڑوی گولی سمجھ کر نگل لیں گے لیکن یہ کسی قیمت پر اسلامی بم برداشت نہیں کریں گے، محترمہ نے یہ وصیت پلے باندھ لی۔
واجد صاحب نے انکشاف کیا، بے نظیر بھٹو نے 1988 میں شمالی کوریا اور چین سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی، وہ میزائل کی ڈسک اور نقشے اپنے لمبے کوٹ میں چھپا کر پاکستان لائی تھیں، وہ اکثر کہتی تھیں "میں نے اور میرے والد نے پاکستان کے لیے اتنا کچھ کیا لیکن یہ مجھ سے اب بھی خوش نہیں ہیں " اور واجد صاحب نے انکشاف کیا، امریکا کے صدر بل کلنٹن بے نظیر بھٹو کے ذریعے اسرائیل کو تسلیم کرانا چاہتے تھے مگر بے نظیر نے انکار کر دیا۔
سردار فاروق لغاری انٹیلی جینس ایجنسی کے آدمی تھے اور انھیں پارٹی میں باقاعدہ پلانٹ کیا گیا تھا، واجد شمس الحسن نے دعویٰ کیا رحمن ملک ایف آئی اے میں تھے اور انھوں نے بے نظیر بھٹو کے خلاف سنگا پور ائیرلائین کے طیارے کے اغواء کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا تھا، بے نظیر انھیں اکثر کہا کرتی تھیں "رحمن سنگا پور ائیرلائین جیسی تفتیش نہ کرنا" واجد صاحب نے انکشاف کیا، مجھے بے نظیر کی حکومت کے خاتمے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔
ایف آئی اے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر فرید خان میری تفتیش کر رہا تھا، وہ ایمان دار افسر تھا لیکن اسے یہ بھی معلوم نہیں تھا ہائی کمشنر کون ہوتا ہے، اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا "سر میں نے کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر تو سنا ہے مگر یہ ہائی کمشنر کیا چیز ہوتی ہے" میں نے اس سے کہا "آپ یہ صدر فاروق لغاری سے پوچھو جس نے مجھے پکڑوایا ہے"۔
واجد شمس الحسن نے اپنی کتاب میں این آر او اور محترمہ کی پاکستان واپسی کا بھی تفصیل سے ذکر کیا، اس حوالے سے باقی تفصیلات اگلے کالم میں بیان کروں گا۔