پانامہ لیکس
پانامہ لیکس کے تین رخ ہیں، ہمیں یہ تینوں رخ دیکھنے ہوں گے، پہلا رخ قانونی ہے، ہمیں یہ ماننا ہوگا، آف شور کمپنیاں غیر قانونی نہیں ہوتیں، دنیا میں بے شمار ایسے ممالک ہیں جہاں آف شور کمپنیاں بنائی جاتی ہیں، ان کمپنیوں میں سرمایہ ڈالا جاتا ہے اور اس سرمائے سے بعد ازاں جائیدادیں خریدی جاتی ہیں، فیکٹریاں لگاتی جاتی ہیں اور تجارت کی جاتی ہے۔
ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا دنیا بھر کی حکومتیں اور خفیہ ایجنسیاں بھی آف شور کمپنیاں بناتی ہیں اور یہ ان کے ذریعے خفیہ ڈیلز بھی کرتی ہیں، حساس آلات، اسلحہ اور ٹیکنالوجی بھی خریدتی ہیں اور خفیہ آپریشنز بھی کرتی ہیں، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا، پاکستان اور بھارت کے نیو کلیئر پروگرامز بھی آف شور کمپنیوں کی مہربانی ہیں، آپ ڈاکٹر عبدالقدیر اور ڈاکٹر عبدالکلام سے پوچھ لیں کیا یورپ اور امریکا میں آف شور کمپنیاں نہیں بنائی گئی تھیں اور یہ کمپنیاں ایٹمی پلانٹس کے آلات خرید کر نہیں بھجواتی رہیں؟
آپ امریکا، یورپ اور گلف کی حکومتوں سے بھی پوچھ لیں، کیا یہ حکومتیں آف شورکمپنیوں کے ذریعے افغانستان، ویتنام اور عراق کی جنگیں نہیں لڑتی رہیں، کیا جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان کی جنگ کے لیے سینیٹر چارلی کی آف شور کمپنیوں کے ذریعے اسرائیل کا اسلحہ پاکستان نہیں لایا گیا تھا، کیا عرب ممالک افغان جنگ کے دوران آف شور کمپنیوں کے ذریعے پاکستان کی مدد نہیں کرتے رہے، کیا سعودی عرب 1998ء کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے مفت تیل فراہم نہیں کرتا رہا اور کیا ایران، عراق، لیبیا اور شام کی حکومتیں عالمی پابندیوں کے دوران آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنے معاملات نہیں چلاتی رہیں اور کیا شام کے صدر بشار الاسد اس وقت بھی آف شور کمپنیوں کے ذریعے ملک نہیں چلا رہے ہیں؟
آپ اسی طرح سی آئی اے، را، کے جی بی اور موساد کے معاملات بھی دیکھئے، کیا یہ تمام خفیہ ایجنسیاں آف شور کمپنیوں کے ذریعے اپنے آپریشن نہیں چلاتی ہیں اور کیا یہ وہ "مجبوریاں" نہیں ہیں جن کی وجہ سے پوری دنیا کی حکومتیں آف شور کمپنیوں کو قانونی اور جائز قرار دینے پر مجبور ہیں، ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا، دنیاپانامہ لیکس سے پہلے بھی اس حقیقت سے واقف تھی، یہ جانتی تھی ہزاروں اسمگلر، مافیا لارڈز، رشوت خور اور کرپٹ عناصر اس قانونی رعایت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہ اپنی بلیک منی کو آف شور کمپنیوں کے ذریعے وائیٹ کر رہے ہیں لیکن یہ ملک خاموش رہے، کیوں؟ اس خاموشی کی وجہ ان کے "وسیع ترین مفادات" تھے، یہ جانتے تھے، ہم نے جس دن آف شور کمپنیوں پر پابندی لگا دی۔
ہم اس دن دوسرے ملکوں سے ممنوعہ اسلحہ اور خطرناک ٹیکنالوجی خرید سکیں گے اور نہ ہی دشمن ملکوں کی حکومتیں گرانے اور بنانے کے لیے پیسوں کا لین دین کر سکیں گے، یہ جانتے تھے، ہم ان پابندیوں کے بعد خفیہ انٹیلی جینس آپریشنز کر سکیں گے اور نہ ہی کک بیکس دے اور لے سکیں گے چنانچہ یہ 80 سال تک خاموش رہے، 80 سال کی اس خاموشی کے دوران آف شور کمپنیوں کے خلاف کسی قسم کی قانون سازی نہ ہو سکی، پانامہ لیکس آئیں تو یورپی ممالک میں قانون بننا شروع ہو گئے۔
فرانس اس معاملے میں تمام ملکوں سے بازی لے گیا، فرانس کے ایک ہزار کاروباری لوگ پانامہ لیکس میں ملوث ہیں، فرانس نے ان کے نام سامنے آتے ہی قانون سازی شروع کر دی، فرانس میں اب آف شور کمپنیوں کے مالکان کو سات سال قید اور 15 لاکھ یورو جرمانہ ہو سکے گا، جرمنی، برطانیہ، نیوزی لینڈ اور اسپین میں بھی قانون بن رہے ہیں، یہ بھی چند دنوں میں باقاعدہ قانون بنا دیں گے، ہمارے ملک میں بھی تاحال آف شور کمپنیوں کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں، ہم اگر پانامہ لیکس کے اڑھائی سو ملزموں کو سزا دینا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں قانون سازی کرنا ہوگی اور سزا کی باری بعد میں آئے گی، دوسرا پہلو اخلاقیات ہے۔
ہم اگر قانون کو سائیڈ پر رکھ دیں اور اخلاقیات کی بنیاد پر فیصلہ کریں تو آف شور کمپنیاں قانونی ہونے کے باوجود غلط ہیں، یہ بنائی ہی اس وقت جاتی ہیں جب کوئی شخص، ادارہ یا حکومت معاملات کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے، آپ اگر اپنی بلیک منی چھپانا چاہتے ہیں، آپ منی لانڈرنگ کرنا چاہتے ہیں، آپ کک بیکس دینا یا وصول کرنا چاہتے ہیں، آپ اسلحہ، منشیات اور تاوان کی رقم ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں یا آپ ٹیکس چوری کرنا چاہتے ہیں تو آپ آف شور کمپنی بنائیں گے چنانچہ یہ کمپنیاں قانونی ہونے کے باوجود ناجائز اور غلط ہیں۔
یہ درست ہے، دنیا کا کوئی قانون ان کمپنیوں کے مالکان کا احتساب نہیں کر سکتا لیکن اگر ضمیر کوئی چیز ہے اور انسان اس کے سامنے جواب دہ ہے تو پھر یہ کمپنیاں غلط ہیں اور ان کے مالکان کو کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں اس کا حساب دینا پڑے گا اور ہمیں پانامہ لیکس کے بعد دنیا کے 78 ممالک میں یہ حساب بھی ہوتا نظر آ رہا ہے اور اخلاقیات بھی مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
آئس لینڈ کے وزیراعظم نے 5 اپریل کو اسی اخلاقی دباؤ میں آ کر استعفیٰ دیا ورنہ آف شور کمپنیاں تو آئس لینڈ میں بھی قانونی ہیں اور یہ بھی میاں نواز شریف کی طرح جوڈیشل کمیشن بنا کر جان چھڑوا سکتے تھے لیکن دنیا اب کیونکہ حقیقتاً گلوبل ویلج ہے اور اخلاقیات اس گلوبل ویلج کا "یونیورسل لاء" ہے چنانچہ وزیراعظم سگمنڈر ڈیوڈ ایک دن میں مستعفی ہونے پر مجبور ہو گئے، ہمیں یہ اخلاقی دباؤ اس وقت امریکا سے لے کر پاکستان تک میں نظر آ رہا ہے، دنیا بہت جلد آئس لینڈ کی طرح "بی ہیو" کرنے پر مجبور ہو جائے گی اور تیسرا اور آخری پہلو شریف فیملی ہے!۔
شریف فیملی کو بہرحال ماننا ہوگا یہ پھنس چکے ہیں اور اب انھیں بھی جواب دینا پڑے گا، میاں شریف سات بھائی تھے، میاں معراج ان ساتوں میں سے ایک بھائی تھے، ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، ایک صاحبزادی نصرت معراج میاں شہباز شریف کی اہلیہ ہیں، نصرت شہباز کے تین بھائی ہیں، میاں ریاض معراج، میاں الیاس معراج اور میاں اعجاز معراج۔ ہم اگر تیسری نسل میں جائیں تو میاں الیاس کے صاحبزادے کا نام حسیب الیاس اور میاں ریاض معراج کے بیٹے کا نام وقاص معراج ہے۔
میاں الیاس معراج حسیب وقاص کے نام سے ایک کمپنی چلا رہے ہیں، یہ کمپنی ننکانہ صاحب میں ایک شوگر مل کی مالک بھی ہے، پانامہ لیکس میں حسیب وقاص گروپ کا نام بھی شامل ہے، اس گروپ نے 2003ء میں بہاماس میں ہیلینڈ لمیٹڈ کے نام سے فرم رجسٹر کرا لی، الیاس معراج اس فرم کے مین شیئر ہولڈر ہیں، میاں شہباز شریف کی فیملی کا دعویٰ ہے "ہمارا الیاس معراج کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں، ہم نے 1990ء کی دہائی میں کاروبار الگ کر لیا تھا" لیکن الیاس معراج اس کے باوجود میاں شہباز شریف کی اہلیہ کے بھائی اور ان کے بچوں کے ماموں ہیں چنانچہ شریف فیملی خود کو اس الزام سے بری الذمہ کیسے رکھ سکے گی؟ میاں شہباز شریف کو الیاس معراج کی آف شور "غلطیوں" کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
میاں شہباز شریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی اور تہمینہ درانی کی والدہ ثمینہ درانی کا نام بھی پانامہ لیکس میں شامل ہے، یہ خواتین تین کمپنیوں کی مالک ہیں، آخری کمپنی 29 ستمبر 2010ء کو برٹش ورجن آئی لینڈ میں رجسٹر ہوئی اور میاں شہباز شریف اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے، یہ درست ہے، شریف فیملی نے آج تک تہمینہ درانی کو بہو تسلیم نہیں کیا، یہ 14 برس کی ازدواجی رفاقت کے دوران شریف فیملی کے کسی گھر میں داخل نہیں ہو سکیں، یہ بھی درست ہے، تہمینہ درانی نے بڑی جرأت کے ساتھ 5 اپریل کو شریف فیملی کے خلاف ٹویٹ کیا اور کہا "غیرقانونی کا مطلب قانون توڑنا ہے لیکن غیر اخلاقی کا مطلب روح توڑنا ہے جو بدترین جرم ہے، اگر بیرونی آف شورکمپنیاں، جائیدادیں اور اکاؤنٹس قانونی بھی ہوں تو میرے لیے غیر اخلاقی ہیں۔
شریف فیملی صرف اس وقت اپنا نام کلیئر کروا سکتی ہے جب وہ کم سے کم دولت اپنے پاس رکھے، انتہائی سادہ طرز زندگی اپنائے اور تمام اندرونی و بیرونی دولت قوم کو واپس لوٹا دے" لیکن بدقسمتی سے تہمینہ درانی اس کے باوجود میاں شہباز شریف کی اہلیہ اور ان کی والدہ ان کی ساس ہیں چنانچہ ان کی کمپنیوں کا حساب بھی شریف فیملی کو دینا پڑے گا، ہم اب آتے ہیں، میاں نواز شریف کے صاحبزادوں اور صاحبزادی کی آف شور کمپنیوں کی طرف۔ یہ درست ہے، حسین نواز، حسن نواز اور مریم نواز عاقل، بالغ اور خودمختار ہیں اور یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کاروبار اور نوکری کر سکتے ہیں۔
یہ جائیداد بھی خرید سکتے ہیں اور یہ رہائش بھی اختیار کر سکتے ہیں اور یہ وہ حق ہے جو دنیا کا کوئی شخص ان سے نہیں چھین سکتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی حقیقت ہے، یہ تینوں میاں نواز شریف کی اولاد ہیں اور میاں نواز شریف اس وقت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ اور پاکستان کے وزیراعظم ہیں اور ہم ان تینوں کو ان سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے اور یہ بھی حقیقت ہے۔
پارک لین کے فلیٹس 1993-94ء میں خریدے گئے تھے اور حسین نواز نے 2006ء میں اپنی رقم جدہ سے لندن ٹرانسفر کی تھی چنانچہ سوال پیدا ہوتا ہے یہ فلیٹس اگر 2006ء میں خریدے گئے تھے تو 1993-94ء کے فیلٹس کہاں گئے اور یہ اگر 1993-94ء کے ہی فلیٹس ہیں تو پھر 2006ء میں کن کے لیے آف شور کمپنیاں بنائی گئیں، وزیراعظم کو ان سوالوں کا جواب بھی دینا پڑے گا، انھیں خود کو عوام کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا، انھیں دنیا کو فیس کرنا ہوگا۔
اور ایک اور حقیقت، ہمیں ماننا ہوگا پانامہ لیکس میں 250 بااثر پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، ہمیں ان تمام لوگوں کو بھی کٹہرے میں لانا ہوگا، ہم اگر حسین نواز سے پوچھ رہے ہیں تو پھر ہمیں بھٹو فیملی، رحمن ملک اور سیف اللہ خاندان سے بھی سوال کرنا ہوگا، ہمیں گاجروں کو تربوزوں کے پیچھے چھپنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے، شریف فیملی نے اگر اس بار بھی انصاف نہ کیا تو عوامی حدت اور شدت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور پھر ایک ایسا وقت آ جائے گا جب ان میں سے کسی شخص کو ملک سے فرار کی مہلت نہیں مل سکے گی چنانچہ وزیراعظم کو اس وقت سے پہلے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔