Ukraine Roos Mukhasma, Taza Surat e Ahwal
یوکرین روس مخاصمہ، تازہ صورت احوال
میں نے عرصہ ہوا روس کے بارے میں لکھنا چھوڑ دیا ہے۔ پہلی وجہ یہ کہ پڑھنے والوں کو بہت دور واقع امریکا کے معاملات جاننے میں تو دلچسپی ہے لیکن ہمسایہ ملک پھلانگتے ہی ایک چوتھائی کے قریب زمین پر پھیلے روس کے بارے میں نہیں۔
ہمارے ہاں معروف ترین اور لبرل ہونے کے بڑے داعی دانشور آج بھی روس کو مغرب کی آنکھ سے ویسے ہی دیکھتے ہیں جیسے سوویت یونین کے زمانے میں اور اس سے پہلے سلطنت برطانیہ و سلطنت روس کے مابین مخاصمت کے دور میں برطانوی کذب بیانی کے توسط سے۔
یہی دانش ور پوتن کو ویسے ہی دانت نکوسے خونخوار ریچھ کی طرح دیکھتے ہیں جیسے مغرب یعنی امریکا اور یورپ ان کی تصویر کھینچتے ہیں کہ وہ مطلق العنان آمر ہیں۔ میں لاکھ کہوں کہ ایسا بالکل نہیں، روس میں جمہوریت پاکستان میں واقع جمہوریت سے کہیں جمہوری اور پوتن آپ کے حکمرانوں ہمہ صف سے کہیں بہتر انسان دوست قوم پرست ہیں، مگر یہ نہیں مانیں گے کہ وہ مغربی میڈیا کے لے پالک ہیں۔
نہ ہمارے تجزیہ نگاروں میں کسی کو چینی آتی ہے اور نہ روسی۔ چینی میڈیا سے بھی نابلد اور روسی میڈیا سے بھی۔ چین کے بارے میں دوستی کا الاپ وہاں کی پارٹی کے راج اور شی ژن بنگ کی حقیقت پر پردہ ڈال دیتا ہے مگر روس کی یوکرین سے مخاصمت کے بارے میں ابجد سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی بس یوکرین کو مظلوم اور روس کو ظالم کہنے پر مصر کیوں انگریزی پڑھ سکتے ہیں اور مغربی میڈیا جو کہتا ہے وہ ان کی نظر میں سچ ہے۔
یہ سب لکھنا میرا آپ لوگوں کی مغرب زدگی سے متعلق طیش کے سبب ہے کہ نو بجے رات کی خبروں میں بتا دیا گیا: صدر روس نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے حکم نامہ پر دستخط کر دیے جب کہ یہ دستاویز روس کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی پالیسی سے متعلق ہے اور اس پر بہت پہلے سے کام ہو رہا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ روس اپنے اور اپنے اتحادیوں کے خلاف جوہری اور غیر جوہری ہلاکت خیز ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
یہ تو بتا دیا کہ بوڑھے فاطر العقل جو بائیڈن نے جاتے جاتے یوکرین کو فراہم کردہ دور مار امریکی میزائل استعمال کرنے کی اجازت دے دی جس کے بارے میں صدر روس ڈیڑھ دو ماہ پہلے کہہ چکے تھے کہ ایسا کیے جانے کو روس یوکرین کی جانب سے نہیں بلکہ نیٹو بہ شمول امریکا کی جانب سے ایسا کیا جانا سمجھے گا اور اس کا دندان شکن جواب دے گا۔
مگر یہ نہیں بتایا کہ یوکرین نے داغ دیے تو روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروو نے کیا کہا کہ یہ محض دور مار میزائل استعمال کرنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ یہ الٹی میٹم ہے کہ ہم تین سو کلومیٹر اندر تک ا سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا، اس بارے میں اندازے نہیں بتانا چاہتا، وقت بتا دے گا۔
یہ بھی نہیں بتایا کہ یورپ کے چھ ملکوں برطانیہ، جرمنی، سپین، اٹلی، پولینڈ اور فرانس نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ شدت سے ان پر ہائبرڈ حملے کر رہا ہے اور یہ الزام بھی کہ یوکرین کے خلاف روسی فوجیوں کے ساتھ شمالی کوریا اور ایران کے فوجی بھی لڑ رہے ہیں۔ ساتھ ہی یوکرین کو پچاس ارب ڈالر کی امداد دینے کی تجویز بھی دی ہے۔
اور یہ بھی نہیں بتایا کہ سویڈن میں پچاس لاکھ پمفلٹ شہریوں میں بانٹے گئے ہیں کہ بحران اور آخرکار جنگ کے لیے تیاری کریں۔ اسی طرح ناروے اور فن لینڈ کے شہریوں کو بھی ان ملکوں کی حکومتیں ویسے ہی متنبہ کر رہی ہیں جیسے " سرخ فوج ا رہی ہے " کہہ کر کیا کرتے تھے۔
جس طرح ہمارے ہاں ایک ادارے نے مبینہ طور پر " پراجیکٹ عمران"شروع کیا تھا اسی طرح سے پینٹاگان نے "پراجیکٹ زیلنسکی" شروع کیا تھا۔
زیلنسکی رجیم یورپ کے گلے پڑا ہوا ہے۔ ادھر ٹرمپ کے حکومت سنبھالنے کا انتظار ہے اگر وہ پینٹاگان کی پالیسی نرم نہ کروا سکے جو خاصا مشکل ہوگا تو دنیا ایک بتدریج بڑھتی جنگ کے لیے تیار رہے کہیں 2025 سے متعلق نجومیوں کی پیشین گوئیاں سچ نہ ہونے لگیں۔