Asal Muslim
اصل مسلم
بحثیت مسلم میں لازم سمجھتا ہوں کہ خود احتسابی ایک اچھا عمل ہے۔ جس مسلمان کے اندر خود احتسابی والی خوبی ہے وہ تقریباََ نمایاں شخصیت کاحامل رہتا ہے۔ اسلام پر عمل پیرا ہم تقریباََ مسلمان ایک وراثتی مسلمان ہیں ہمارے پرانے بزرگوں کے علاوہ آج کے کچھ چند۔ مخصوص لوگ ہی اسلام پر محنت کررہے ہیں ورنہ باقی اکثریت موروثیت کی بنا پر اسلام کا ٹھپہ لگائے پھررہے ہیں۔
ہماری زبان پر کلمہ ضرور ہے لیکن کیا کلمہ پڑھنے کے اثرات بھی ہمارے دل میں موجود ہیں۔ اس کا جواب تقریباََ نفی ہے۔ ہم فرضی مسلمانیت کو زیادہ مشغلہ رکھتے ہیں جس ارکان کی ہم ساری زندگی قدر و منزلت سے نا آشنا رہتے ہیں وہیں خدانخواستہ کسی دوسرے کی سہوا غلطی سے چھوٹ جائے یا تھوڑی بہت غفلت کو اغلاط سے ضرب در ضرب دیتے ہیں۔
زبانی طور پر یا آسان الفاظ میں نام نہادی مسلم ہیں۔ میں خود حقوق اللہ ادا کرتا ہوں۔ کیا میں حقوق العباد پر نیک نیتی سے کام لیتا ہوں۔ ہمارے کتنے قریبی رشتے داروں سے قطع تعلق ہیں۔ اس چیز کی ہمیں پرواہ تک نہیں۔
بنیادی پانچ ارکان کو تقریباََ چھوڑ چکے ہیں، ہماری زندگی میں اسلام نظر نہیں آئیگا، ہاں البتہ ہم زبان سے شدید محقق عابد اور باعمل بتاتے ہیں۔ دنیا کے سامنے اسلام کے ٹھیکدار ہیں۔
بظاہر ہم پوری دنیا پر اسلام کی فتح کی جنگ کا حصہ بننا چاہتے ہیں مگر ہمارے عمل آج بھی چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ تم صرف موروثیت پہ قائم ہو۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں حاضرین تمام اصحاب کرام سے پوچھا۔ جسکا مفہوم یہ ہے کہ کیا میں نے آپ تک دین اسلام پہنچا دیا ہے۔ تو تمام اصحاب رسول ﷺ نے یک زبان کہا کہ آپ نے ہم تک اسلام پہنچایا نہیں بلکہ اسلام پہنچانے کا حق ادا کردیا ہے، تو اس کے بعد آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب غائبین تک پہنچانا آپ کی ذمہ داری ہے۔
اس خطبے کے بعد جسے خطبہ حجتہ الوداع کا نام دیا گیا تھا اصحاب رسول ﷺ پوری دنیا میں پھیل گئے اور روئے زمین کے ہر کونے پر اسلام پھیلایا پوری دنیا صحابہ کرامؓ کی زبان سے واقف تو نہ تھی مگر صحابہ کرام نے تجارت سے معاملات سے اخلاق سے غرض اپنے ہر عمل سے غیر مسلموں کو متاثر کیا جس سے وہ راغب ہوئے اور اسلام کو قبول کرتے گئے اور یوں پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا ہوا۔
آج صدیاں بیت جانے کے بعد بھی اخلاص صحابہ کرامؓ کی برکت سے اسلام کی سوغات ہمیں حاصل ہے۔ مگر ہم اسلامی طرز زندگی سے کوسوں دور ہیں ہمارے اخلاق معاملات تجارت نوکری ہر جگہ پر کمزوریاں موجود ہیں۔
مفہوم حدیث مبارک ہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے ایک حصے کی تکلیف سے پورے جسم میں بے چینی ہوتی ہے۔ مگر کیا ہم دوسرے مسلمان کی مصیبت تکلیف کو کبھی محسوس کرتے ہیں۔ شاید نہیں وہ جانے اور اسکا کام جانے ہم نے اپنی مگن میں رہنا ہے۔
آج دنیا کے ہر ایک ملک میں مسلم آبادیاں زیر عتاب ہیں مگر مسلمان ہیں کہ انتہاء کی بے حسی کا شکار ہیں۔
عراق شام چچنیا افغانستان سمیت مختلف ممالک فرنگی کے بچھائے گئے جال میں پھنس چکے ہیں ایران پر مسلسل پابندیوں کے بعد اب پاکستان پر پابندیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ایک ریاست اپنے دفاع کیلئے جوہری ہتھیار تیار کرے تو اس سے حقوق انسانیت میں چھپی وہ تمام تر اغیاری حربے استعمال ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو فلسطین اور کشمیر مظالم پر ہمیشہ سے سرد مہری کا شکار ہیں۔
ہمیں نام کے مسلمان سے اصل مسلمان بننے تک کے سفر میں ہزاروں رکاوٹیں ہائل کردی گئی ہیں۔
تاریخ اسلام کیا ہے اس سے ہمیں بالکل ناواقف رکھا جارہا ہے سوشل میڈیا پر چند روایتی جملوں یا معاشرے میں چند اصلوب میں ہمارا اسلام باقی نظر ضرور آتا ہے، مگر صرف دعاوں سے کام چلانے کیلئے ہزاروں دلیلیں دیتے ہیں۔ بے شک دعا مومن کا ہتھیار سہی مگر صرف دعاوں سے کام چلتا تو آپ ﷺ جیسی ہستی خود اسلام کے دفاع کیلئے تلوار ہاتھ میں نہ پکڑتی بے شک آپ ﷺ جیسی ہستی بیٹھ کر دعا دے دیتے اور قبولیت دعا میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔
مگر آپ ﷺ نے اپنی اسوہ حسنہ سے عمل سے معاملات سے غرض ہر حوالے سے ہمیں سبق بخشا ہے جسکی بدولت غلبہ اسلام کے ساتھ ساتھ ہماری دنیا و آخرت سنور جائے گی۔ مگر ہم خود اپنی زندگی میں کم اور دوسرے کی زندگی میں زیادہ اسلام دیکھنا چاہتے ہیں۔
اسلام کی اصل طاقت سے ہم تب مستفید ہونگے جب اصل اسلام ہماری زندگیوں میں شامل ہوگا نماز روزہ زکواة حج جہاد کے علاوہ جب دوسرا مسلمان ہماری زبان سے محفوظ ہوگا۔ ہمسائے کے حقوق رشتے داروں کے حقوق وراثتی تقسیم اور والدین کی فرمانبرداری بھی اسلام کا حسن ہیں جو ہمیں دین و دنیا کی خوشنودی سے مستفید کرتا ہے۔
بے شک اللہ پاک نے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش نبی اس دنیا میں بھیجے سب نے اسلام کی دعوت دی اللہ پاک نے اپنے نبیوں جیسی ہستیوں کو دین پر قربان کیا نہ کہ اسلام کو کسی ہستی پر قربان کیا آپ ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے آپکی تتشریف آوری کے بعد بھی اسلام کیلئے بہت سے غزوات اور آپ ﷺ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی اسلام کیلئے کربلا جیسی قربانیاں دی گئیں اور آج کا کامل مسلمان بھی اسلام کیلئے جان قربان کرنے کو تیار رہتا ہے۔