Do, Rotiyon Ki Bhook Ka Qarz
دو، روٹیوں کی بھوک کا قرض
2008 کی بات ہے جب میں کماد کے کھیتوں میں چھپ کر گنے کا رس دانتوں سے چوس کر حلق میں اُتارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تین دن سے کچھ نہیں کھا یاتھا۔ بی۔ اے کے امتحان دینے کے بعد گھر والے سر ہو گئے تھےکہ کوئی ملازمت تلاش کرو۔ اس طرح نہیں چلے گا۔ تین وقت کا کھانا دیتے ہیں۔ سونے کے لیے بستر دیتے ہیں۔ تمہیں پیدا کرکے پال پوس کے پڑھا دیا لہذا اپنا دانہ دُنکا خود چُننے چگنے کرنے کی کوشش کرو۔
میں گھر والوں کے جگر چھید دینے والے کڑوے سوالات کے جواب دینے کی بجائے خاموش رہ کر ضبط کرنے کی کوشش کرتا۔ تاہم ایک سوال کا جواب ضرور دیتا تھا۔ جب وہ کہتے تھے کہ ہم نے آپ کو پیدا کیا ہے تو میں جواب میں کہتا تھا کہ میں کیا آسمان سے آوازیں دیتا تھا کہ خدا کے لیے مجھے پیدا کر لو، میں یہاں بور ہو رہا ہوں۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ مجھے پیدا کرنے کے بعد آئے روز میری کتوں والی بے عزتی ہونی ہے اورکھانے کے ٹکڑے کے لیے ذلت آمیز سلوک کو جھیلنا ہے کہ تو میں کسی اور گھر ٹپک پڑتا۔
اس اوٹ پٹانگ جواب پر اماں کے ہاتھ جو لگتا، دے مارتیں۔ کمینہ، کتا، بے شرم، بے غیرت وغیرہ کہہ کر بھگا دیتیں۔ ایک بار تو گرم تیل میں بھیگا ہوا کفچہ ہاتھ پر دے مارا جس سے ہاتھ جل گیا تھا۔ ایک دن یوں ہوا کہ ابا جی گھر سدھارے ہوئے تھے۔ اماں نے کہا! یہ صاحب زادہ کوئی کام نہیں کرتا۔ کہتا ہے کہ رزلٹ نہیں آیا۔ اس طرح نوکری نہیں ملتی، میں ابھی اور پڑھنا چاہتا ہوں۔ مفت کی روٹیاں توڑتا ہے۔ اسے کسی کام پر جانے کے لیے بولو۔
ابا کو میں نے کبھی پیار سے بات کرتے نہیں دیکھا۔ ابا جی کو صرف گالیاں بکنا آتی ہیں۔ جب سے شعور سنبھالا ہے۔ انھیں ہر سوال کے جواب میں دو چار موٹی گالیاں بکتے دیکھا ہے۔ انھیں پتہ نہیں کس بات کا رنج ہے۔ حالاں کہ شکل و صورت اور وضع قطع سے شریف آدمی دکھائی دیتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں، یہ اپنے آپ سے کبھی خوش نہ ہوسکے۔ ابا جی کی اس وجہ شہرت کے پیشِ نظر کوئی رشتہ دار انھیں منہ نہیں لگاتا۔ فوجی صاحب کہہ کر بڑی عزت سے پیش ضرور آتے ہیں لیکن زیادہ دیر پاس بیٹھنا گوارا نہیں کرتے۔ کھل کر مسکراتے اور مذاق کے موڈمیں ابا جی کو شاید ہی اماں نے بھی دیکھا ہو۔
میرا گمان ہے جیسے انھیں دُنیامیں پیدا ہونے پر گلہ ہے۔ بے چارے کچھ کر نہ سکنے کی وجہ سے گالیاں بک کر اپنا من ہلکا کر لیتے ہیں۔ ایک دن کا ذکر ہے، اماں روٹیاں پکا رہی تھیں، ابا بھی موجود تھے۔ باقی بہن بھائی چولہے کے ارد گرد بیٹھے تھے۔ پہلے پراٹھے پر سب کی نظر تھی۔ رات کے جھگڑ ےکی وجہ سے میں نے غصے میں کچھ نہیں کھایا تھا۔
جیسے ہی پراٹھا پکا کراماں نے چنگیر میں رکھنا چاہا۔ میں نے لپک کر راستے ہی میں پراٹھا ہتھیانے کی کوشش میں چھوٹی بہن کے پاؤں کچل ڈالے۔ بہن رونی لگی۔ اماں نے دیکھا تو مجھ سے پراٹھا چھین کر چھوٹی بہن کو دے دیا۔ بے حیا، بے غیرت! ایک روٹی کے لیے تم بہن بھائیوں کے پاؤں کچلنے پر اُتر آئے ہو، اندھے ہو گئے ہو، دفعہ ہوجاؤ یہاں سے۔ آج سے تمہارا دانہ پانی بند، کوئی روٹی شوٹی نہیں ملے گی۔ جہاں سے ملتی ہے، جا کر کھالو۔ جیناحرام کر رکھا ہے۔ پال پوس کر بڑا کیا تھاکہ کچھ کمائےگا تو ہمارے بھی دن پھرجائیں گے۔ یہ تھوڑا پتہ تھا کہ قسمت ہی پھوٹ جائے گی۔ اماں اول فول بکتی رہی، با خاموش تماشائی بنے سُنتے رہے۔
میں بھی روز روز کے جھگڑے سے تنگ آچکا تھا۔ غصے میں کھولتا ہوا اُٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا۔ دن بھر آوراہ یہاں وہاں پھرتا رہا۔ کچھ بھی نہ کھایا۔ پورا دن یونہی غصے میں گزر گیا۔ غصہ، ضد اور انا کی آمیزیش سے حواس مختل سےہوگئے۔ میں نے تہیہ کر لیا کہ اب اس گھر سے کچھ نہیں کھانا، البتہ سونے کے لیے آؤں گا تاکہ شریکے میں گھر والوں کی اونچی ناک کا بھرم رہ جائے کہ جوان بیٹے کو گھر سے دو، روٹی کے بدلے نکال دیا گیا۔
دوسرا دن بھی آدھا گزر گیا۔ پیٹ میں ایک دانہ نہیں گیا۔ مجبوراً میں گنے کے کھیتوں میں چلا گیا۔ بھوک کی وجہ سے گنے کو چوس کر رس نکالنے کی سکت نہ رہی۔ ہائے اللہ! میں کیا کروں۔ زندگی میں پہلی بار بھوک کی شدت کا احساس ہوا تو پتہ چلا کہ روٹی کی کتنی اہمیت ہے۔ انسان روٹی کے بغیر واقعی زندہ نہیں رہ سکتا۔
ایک بار سوچا کہ گھر والوں سےجا کر معافی مانگ لیتے ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں خاموشی سے سنُتے رہتے ہیں۔ جب تک پیٹ کی روٹیاں ملتی ہیں، یونہی کام چلا، لیتے ہیں۔ پھر دل سے یا دماغ سے یا جانے کہاں سے یہ خیال آیا کہ نہیں، بس بہت ہو چکا۔ اب خود کو ثابت کرکے دکھانا ہےکہ میری بھی کوئی عزت ہے اور میں خود کما کر کھا سکتا ہوں۔
گنے کے رس سے جب کچھ نہ بنا تو ناک کی سیدھ میں ماموں کے گھر چلا گیا۔ میں نے کہیں سے سُنا تھاکہ محرم رشتہ دار کے گھروں میں بغیر مانگے خود سے کھانا اُٹھا کر کھاسکتے ہیں۔ میں نے یہ ہمت تو نہ دکھائی البتہ ماموں کے گھر جا کربیٹھ رہا۔ وہ میری کیفیت کو بھانپ گئے تھےکہ اماں کا روزانہ معمول تھا کہ وہ نانی کی خیریت دریافت کرنے روزانہ ماموں کے ہاں جایا کرتی تھی۔
ماموں کے گھر میں کسی نے ہمیں منہ نہیں لگایا۔ اُس نے بھی جو ہماری محبت کا دم بھرتی تھی۔ کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کچھ کھانا ہے تو لادیں۔ ایک گھنٹہ بیٹھنے کے بعد دوسرے پھرتیسرے ماموں کی طرف گیا۔ نا ُامید ہو کر دو، چار دوستوں کی طرف بھی چکر لگا ئے۔ شام ہونے کو آئی او رمیں بھوک کی وجہ سے کلبلا رہا تھا۔
ایک شاگرد کا خیال آیا جو میرا طالب علم رہ چکا تھا۔ شرما شرمی میں اُس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ بصدِشوق باہر آیا اور کوکا کولا لینے کے لیے جانے لگا تو میں نے کہا کہ روٹی کھلاؤ مجھے سخت بھوک لگی ہے۔ وہ پہلے تو مذاق سمجھا پھر میری حالت دیکھ کر گھر گیا اور جیب میں ایک روٹی چھپا کر لایا اور کہا یہی کچھ ہے۔
میں نے روٹی کو اُس کے ہاتھ سے یوں جھپٹا مار کر چھینا جیسے کسی سیاح کو عمر بھر کی نوردی کے بعد حسبِ خواہش گوہرِ حیات کے حصول کا یقینی سراغ مل گیا ہو۔ میں نے کہا یار، اِس سے تو کچھ نہیں بنا، کچھ اور ہے تو لاؤ۔ وہ کہنے لگا۔ تمہارا بھائی بیٹھک میں آکربیٹھا ہوا ہے، اس لیے میں اُس کو پتہ لگے بغیر یہ روٹی بڑی مشکل سے لایا ہوں۔ اب تم یہاں سے چلتے بنو ورنہ میری بھی شامت آئے گی۔
اماں نے بھائی کو میری جاسوسی کرنے پر متعین کیا ہوا تھا کہ دیکھو یہ کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ بھائی دراصل مجھے صلح کے لیے منانے آیا تھا مگر میں نے کہا کہ اب میں خود ہی مینج کروں گا۔ آپ لوگ پراٹھے کھائیں اور انجوائے کریں۔ گاؤں میں ایک مولوی صاحب سے ہم بچپن میں پڑھا کرتے تھے۔ اس کے والدین غریب تھے۔ اس کے دوسرے بھائی غربت سے تنگ آکر چوری چکاری میں ایسے پڑے کہ علاقے کے اشہتاری ڈاکو بن گئے۔ والدین بدنامی کے ڈر سے گاؤں چھوڑ گئے اور یہ مولوی صاحب اکیلے گھر میں معتکف سے رہتے تھے۔ ان کے پاس کوئی آتا اور نہ یہ کسی کے پاس جاتے۔
بھوک سےعاجز آکر میں نے ہمت کی اور مولوی صاحب کے ہاں جا کر فریاد کی۔ مولوی صاحب! کچھ کھانے کو مل جائے تو بڑی نوازش ہوگی۔ مولوی صاحب کی نانی سے میری دادی کے اچھے مراسم رہے تھے، اس لیے انھوں نےمجھے نااُمید نہیں کیا۔ دو، خشک روٹیاں کہیں سے ڈھونڈ کر لائے اور میرے سامنے رکھ دیں۔
خشک روٹیاں دیکھ کر میرا تو رونا نکل گیا۔ میں ابھی روٹی کا نوالہ توڑ رہا تھا کہ اتنے میں اماں بڑے بھائی کے ساتھ آٹپکیں۔ میرا تو رنگ اُڑ گیا کہ اب روٹی سے پہلے مار پڑے گی کہ بھائی صاحب اماں کی شہ پر اکثر مجھے پیٹ لیا کرتے تھے۔ میں بے بسی کے عالم میں رو دیا۔ مجھے روہانسا دیکھ کر کوئی آگے نہ بڑھا۔ اماں نے کہو، گھر چلو۔ میں نے کہا، میں رات کو آجاؤں گا۔ آپ لوگ یہاں سے جائیں۔ یہ کہہ کر میں قریب کی مسمار دیوار پر تیزی سے چڑھا اور ہمسایوں کے گھر چھلانگ لگا کر بازار کی طرف دوڑ گیا۔ رات بھر آوارہ لونڈوں کی طرح یہاں وہاں خوار خوار پھرتا رہا۔
اس رات مجھے احسا س ہوا کہ جس گاؤں میں میرا جنم ہوا ہے، جہاں میں نے عمر کے بائیس برس گزارے ہیں، وہاں آج کوئی مجھے روٹی کا ایک نوالہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بہت سے خیالات ذہن میں اُبھرے۔ خودکشی سے لےکر گھر والوں کو زہر دے کر خود کوپستول سے اُڑا، ڈالنے تک۔ اوٹ پٹانگ ان خیالات نے میرے حواس مختل کر دئیے تھے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس وقت کیاکروں، کسی پکاروں، کہاں جاؤں۔
گاؤں سے متصل جوہڑ کنارے بیٹھ کر گند ے پانی میں کنکر پھینکتا رہا اور سوچتا رہا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ یہ جگہ، یہ دیار اور یہ لوگ میرے لیے اجنبی ہو چکے ہیں۔ میں انھیں خیالات میں غرق تھا کہ اچانک میرے سامنے کالے رنگ کا کتا آکر کھڑا ہوگیا۔ میں اس کے چہرے کی وحشت دیکھ کر گھبرا گیا۔ دبے پاؤں اُٹھا اور تیزی سے جوہڑ کنارے بھاگنے لگا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے اور میں اُس کے آگے آگے۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ پر ٹوٹ پڑتا۔ راہ چلتے کسی راہ گیر نے کتے کو للکارا تو وہ اُلٹے قدموں بھونکتا ہوا واپس مڑ گیا۔ میں نےپلٹ کر پیچھے دیکھا تو میری جان میں جان آئی۔
وہ آدمی ہمارے محلے کا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا، رات کےبارہ بج چکے ہیں۔ تو یہاں اس وقت کیا کر رہا ہے۔ گھر چلو۔ میں نے کہا، آپ جائیں، میں ابھی آتا ہوں۔ میں اُسے گھر جانے کا یقین دلا کر اُس کے آگے آگے چلتا ہوا گھرکی بجائے کسی اور گلی کی جانب مڑ گیا۔ یہاں وہ گھر تھا جہاں ہمارا دل بستا تھا اور جان رہتی تھی۔ اس گلی میں دن میں تین تین چکر لگاتا تھا۔ یہاں اُس ماہ پارہ کا گھر تھا جس کی وجہ سے ہم نے چیلنج کرکے بی اے کی انگریزی میں پورے اٹھانوے نمبر لے کر گاؤں بھر میں ریکاڑد بنایا تھا۔ مجھ سے پہلے گاؤں میں کوئی لڑکا لڑکی پچاس سے اوپر نمبر نہیں لے سکا تھا۔
جب گھر والے پیدا کرنے والے کے لیےاجنبی ہو جائیں تو پھر دل میں بسے رہنے کا ساتھ نبھاہنے کا وعدہ کرنے والا کیسے مشکل وقت میں کسی کام آسکتے ہیں۔ رات کا ایک بج چکا تھا۔ میں بھوک سے نڈھال پھر کھیتوں کی طرف نکل گیا۔ گنے کےکھیت میں داخل ہوتے وقت رات کے اندھیرے سے خوف محسوس ہوا۔ بھوک کا خوف، اندھیرے کا خوف، پکڑے جانے کا خوف۔ اکیلے کھیت میں گنے توڑنے کا خوف۔ خوف الخوف کی اس وحشت سے میرے اوسان خطا ہوگئے۔ بھوتوں، جنوں اور چڑیلوں کے خیالات سے بدن میں سنسنیاں آنی لگی۔
میں نے ہمت کرکے پانی کے کھال کے ساتھ والی پہلی قطار کے ایک کمزور سے گنے کو بڑے پیار سے توڑنے کی کوشش کی۔ ایک دم کڑکڑ کی آواز آئی۔ قریب حویلی سے زور دار آواز آئی۔ کون ہے، ابے کون ہے تو، بولتا کیوں نہیں۔ میری تو سانس بند ہوگئی، کلیجا پتھر کا ہوگیا جیسے دھڑکنا بھول گیا ہو۔ خوف کے مارے میں پانی کے کھال میں سیدھا لیٹ گیا۔ حویلی سے تایا کا بڑا بیٹا دوڑتا ہوا کھیت تک آیا لیکن اندھیرے میں اُسے کچھ دکھائی نہ دیا۔
ایک دو منٹ ادھر اُدھر جھانکتارہا پھر توڑا ہوا گنا زمین پر پڑے دیکھ کر اُٹھا لیا اور ساتھ لے کر چلا گیا۔ میں گنے کوخود سے دور جاتے ہوئے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اس وقت مجھے یوں لگا جیسے دُنیا بھر کی قیمتی او رانمول چیز مجھ سے کوئی چھینے لیے جاتا ہے۔ اس لمحے مجھے شکیب جلالی یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ رہ رہ کر یاد آتا رہا کہ " بدقسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہوسکا۔ کسی کے ہم نہ ہو سکے اور یہ گنا ہمارا، نہ ہوسکا"۔
اس واقعے سے دل بجھ سا گیا۔ میں نے سوچا۔ محسن میاں! اس سے پہلے کہ تم دوسرا گنا توڑنے کی کوشش کرو اور کوئی فائر کھول دے۔ چپکے چپکےیہاں سے بھاگ نکلو۔ اسی اُدھیڑ بُن میں رات کے دو بجے گھر کا درواز ہ کھٹکھٹایا۔ ابا جاگ رہے تھے۔ انھوں نے دروازہ کھولا۔ میری حالت دیکھی لیکن منہ سےکچھ نہ پھوٹے۔
میں نظر جھکائے سیدھا چھت پر چلا گیا۔ کچھ دیر چمکتے ستاروں کو دیکھتا رہا۔ اکیلے چاند پر نظر جم سی گئی جو روشن ستاروں کے درمیان تنہا ستاروں سے زیادہ دمک رہا تھا۔ چاند کی روشنی جیسے دل میں اُتر کر کوئی راز کی بات کہہ رہی ہو۔ اس لمحےمیری حالت یکسر بدل گئی۔ میں بے اختیار رو پڑا۔ دیر تک تنہا چھت پر سسکیاں لے لے کر روتا رہا۔ پھر خود ہی آنسو تھم گئے اور میں خاموش ہوگیا۔ پھر ہنسنے لگا۔ عجیب و غریب سی اس کیفیت کو میں سمجھ نہ سکا۔
سیڑھیاں اُتر کر سیدھاکچن میں گیا۔ اماں نے کروٹ بدل کر مجھے دیکھا لیکن مجھ پر ظاہر نہ ہونے دیا۔ پرانے پونےمیں دو، روٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور سالن کی کٹوری بیچ میں دھری ہوئی تھی۔ میں زمین پر چوکڑی مار کر بیٹھ گیا۔ ہاتھ منہ دھوئے بغیر تسلی سے ایک ایک نوالہ چبا چبا کر کھاتا رہا اور روتا رہا۔ رونا پتہ نہیں کیوں آرہا تھا۔ گھر میں ہر سُو چاند نی پھیلی ہوئی تھی۔ بھینی بھینی پُرنم ہوا چل رہی تھی۔ نیم کی شاخوں پر پتے مسکرا رہے تھے۔ بکریاں منمنا رہی تھیں اور مرغ وقفے وقفے سے اذان دے رہا تھا۔ آنسو لقموں میں مدغم ہو کر پیٹ میں اُترتے جاتے تھے
اس وقت مجھے روٹی کی اہمیت اور بھوک کی شدت کے فلسفے کی سمجھ آئی۔ میں نے یہ جان لیا کہ بھوک او رروٹی کا فلسفہ کیا ہے اور ان دونوں کے درمیان کون ساتعلق اُستوار ہے۔ رات کے پچھلے پہر تین دن بعد تسلی سے کھانا کھانے کے بعد آنکھیں کھلیں تو حواس معمول پر آنے لگے۔ چنگیر کچن میں رکھ کر اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ گیا۔
سونے کی کوشش کی لیکن نیند نہیں آئی۔ یوں ہی کروٹیں بدلتے رات گزر گئی۔ صبح کی اذان ہوئی تو اُٹھ کر مسجد میں چلا گیا۔ زندگی میں پہلی بار دل سے فجر کی نماز پڑھی اور قرآن کی تلاوت بھی کی۔ گھر آکر غسل کیا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموش چارپائی پر لیٹے چھت کو تاکتا رہا۔ دُھوپ نکل آئی تو خاموشی سے کچن میں جا کر بیٹھ گیا۔
بہن بھائی حیران کن انکھیوں سے مجھے دیکھ رہے تھے لیکن خاموش تھے۔ کوئی کچھ نہ بولا۔ اماں نے پہلا پراٹھا پکا یا۔ چنگیر میں رکھ کر میری طرف سِرکا دیا۔ میں نے سر اُٹھائے بغیر چنگیر اپنے قریب کی اور پراٹھا کھانے لگا۔ چائے کی پیالی نوشِ جان کی اور دادی کے کمرے میں جا کرخود کو بند کر لیا۔ دوپہر تک ساری تیاری کی۔ کپڑے بیگ میں ڈالے اور اماں سے کہا کہ میں لاہور جا رہا ہوں۔ کسی نے نہیں پوچھا کہ کیوں جا رہے ہو، کس لیے جا رہے ہو۔ مت جاؤ۔
دادی کے سوا کسی نے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ سب نے یہی سوچا کہ رخصت کا وقت آگیا ہے۔ اب اسے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ دن اور آج کا دن۔ رخصتی کا سفر آزمائش بن کر میرے پاؤں کی زنجیر بن گیا کہ ختم ہونے کانام ہی نہیں لیتا۔ لاہور آکر پیچھے چھوٹ جانے والی ہر یاد، خواہش اور آرزو کو بھلا دیا گیا۔ گدھوں کی طرح دن رات کام کیا۔ وقت بدل گیا۔ حالات بدل گئے۔ بہن بھائیوں کی شادیاں کیں، مکانات کی تعمیر کروائی اور سب کے دیرینہ خواب پورے کیے۔
اس دوران دادا، دادی، نانا نانی، ماموں سمیت اماں کا انتقال ہوگیا۔ ان رشتوں کے ساتھ کئی اور رشتے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔ بیوی آئی اور بیٹی پیدا کرکے چلتی بنی۔ چودہ سال پہلے بے یارو مددگار خالی جیب لیے خاموشی سے گھر سے نکلنے والا محسن خالد محسنؔ آج بھی تنہا اور اکیلا مزدوروں کی طرح دن رات مزدوری کر رہا ہے۔ اپنے حصے کا بوجھ ڈھونے کے باوجود اس کی مزدوری کا قرض ختم نہیں ہو سکا۔
مزدوری کی لت بھی کیا شے ہے کہ دو، روٹی کو ترسنے والا آج لاکھوں روٹیوں کا سامان اکھٹا کرنےکے باوجود دو، روٹیوں کے لیے آج بھی محتاج ہے۔ چودہ سال بعد بھی بھوک اِس کے حواس کو اُسی طرح مختل کیے ہوئے ہے جیسے را ت کی تنہائی میں گنے کے کھیت میں تین دن کابھوکا محسن خالد محسنؔ پانی کے کھال میں گنا چرانے کے الزام میں پکڑے جانے کے خوف سے زمین پر لیٹا ہوا تھا۔ دو، دوٹیوں کی بھوک تو، اُس رات، اماں کی چنگیر میں رکھی روٹیوں سے ختم ہوگئی تھی لیکن مزدوری کی بھوک کا قرض سالہاسال گزرنے کے باوجود ختم کیوں نہیں ہو رہا؟