Khushaal Zindagi Jeene Ke Asaan Formulae
خوشحال زندگی جینے کے آسان فارمولے

دنیا میں جتنے بھی ممالک ہیں، جتنے بھی لوگ ہیں، جتنے بھی مخلوقات ہیں، اس کائنات میں جو بھی شے ہے، سب کا مالک ایک ذات ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات جو سب سے بڑا ہے۔ جو ہر چیز پر قادر ہے۔ دنیا میں جو بھی آتا ہے واپسی کیلئے آتا ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز نے ایک دن فنا ہونا ہے۔ صرف ایک ذات ہے اللہ تعالیٰ کی ذات وہ باقی رہے گا، باقی اس دنیا میں کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ اس دنیا میں ہر انسان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ میں خوشحال رہوں، میں خوشحال زندگی گزار سکوں، میری تمام خواہشات پوری ہوجائیں۔ میرے تمام کام وقت پر ہوجائے، میں جو بھی چاہتا ہوں وہ سب کچھ پلک جھپک ہوجائے تو میں خوش رہوں گا۔
دنیا میں ایسا کوئی بھی انسان نہیں ہے، جو خوش رہنا نہیں چاہتا۔ جوان ہے، لڑکا ہے، لڑکی ہے، بڑی عمر کے افراد ہیں جو بھی ہے۔ بس خوش رہنا چاہتے ہیں، لیکن طریقے جو اپنا رہے ہیں، وہ درست نہیں ہے اسی لئے کوئی خوشحال نہیں ہے۔ کسی کو سکون نہیں ہے۔ دنیا میں ہر مذہب کے لوگ پریشان ہیں۔ اس میں زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہیں۔ آج ہم مسلمان ناکام ہیں۔ ہم مسلمانوں کو ناکامی کا سامنا ہے۔ مسلمانوں کیلئے زندگی جینے کے کچھ طور طریقے بتائے گئے ہیں، کہ مسلمان ان طریقوں پر زندگی گزاریں گے تو کامیاب ہونگے، خوشحال ہونگے اور اگر غیروں کے طریقے اپنائے تو تباہی ان کی مقدر بنے گی۔ یہاں میں تھوڑی تفصیل سے بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آخر ہمیں کیا ایسا کرنا چاہیئے کونسے ایسے طریقے ہیں جس پر ہم عمل کرکے اچھی، خوشحال اور سکون کی زندگی گزار سکتے ہیں۔
شکر ادا کرنا:
ہماری تباہی کی سب سے بڑی اور خاص وجہ یہ ہے کہ ہم کبھی بھی شکر ادا نہیں کر رہے۔ اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے سب کچھ پر ہم شکر ادا نہیں کر رہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو آزماتا ہے ہر حال میں انسان کا امتحان لیتا ہے۔ ہم مسلمانوں پر مختلف قسم کے امتحانات ڈالتا ہے کہ میرا بندہ کیا کرتا ہے۔ کبھی ہم بیمار ہوتے ہیں، کبھی ہم کسی خوشالی کے مجلسوں میں بھیٹتے ہیں۔ کبھی ہمارے اوپر مختلف قسم کے غم آتے ہیں۔ تو یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے بس امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگر میرے بندے نے میرے انعامات پر شکر ادا کی تو میں مزید عطاء کروں گا اور اگر ناشکری کی تو جو نعمتیں عطاء کر رہا ہوں وہ واپس لوں گا۔
موسیؑ کے دور میں ایک شخص ریت کے ڈھیر میں ڈوبا بیٹھا تھا۔ اس راستے سے موسیٰؑ کا جانا ہوا۔ اس شخص نے موسیٰؑ سے پوچھاکہ اے موسیٰ اللہ تعالیٰ سے میرے بارے میں بتانا کہ ایک تیرا ایک بندہ ہے ریت کے ڈھیر میں بیٹھا ہے، پہننے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ تو موسیٰؑ نے اس شخص کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے اس شخص کے بارے میں وہ بات کی جو اس بندے نے کی تھی۔ تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ کو فرمایا کہ اس شخص کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو۔ موسیؑ اس شخص کے پاس گیا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ تم اپنے اس حال پر شکر ادا کرو تو اس شخص نے بولا کہ ریت کے ڈھیر میں بیٹھا ہوں اس پر میں کیسے شکر ادا کروں۔
جب اس نے یہ بات کی تو اللہ تعالیٰ نے وہ ریت بھی ہوا میں اڑائی وہ شخص ننگا بیٹھ گیا۔ پھر موسیٰؑ کا جانا ہوا اس راستے پر تو دیکھتا ہے کہ وہ شخص ننگا بیٹھا تھا اور رو رہا تھا اور موسیؑ کو کہا کہ اللہ تعالیٰ سے کہوں کہ مجھے میرے اس پرانے حال پر رکھو میں تو ننگا ہوگیا ہوں۔ وہ ریت کی ڈھیر تو پھر بھی میرے لئے بہتر تھی۔ موسیؑ نے پھر اس شخص کی بات اللہ تعالیٰ تک پہنچائی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرا پیغام تم نے پہنچایا تھا لیکن اس شخص نے میرے حکم پر عمل نہیں کی اور میری نا شکری کی۔ تو اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ کی سب نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہئیے۔ آج ہم بھی اس شخص کی طرح ہے۔ ہم نا شکری کر رہے ہیں۔ اسی لئے ہم ناکام رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سب نعمتوں پر شکر ادا کروں گے تو زندگی خوشحال ہوگی۔ زندگی میں سکون ہوگی۔
دنیا کا لالچ:
آج دنیا کے لالچ نے ہمارے آنکھوں پر پٹی باندھی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں مال دولت، گاڑی، بنگلہ، بنک بیلنس جائیداد کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ دنیا کے لالچ میں ہم اتنے ڈوبے ہوئے ہیں کہ نہ دن کا پتہ چلتا ہے نہ رات کا پتہ چلتا ہے۔ نہ رشتوں کی پرواہ ہے۔ بس ہمیں مال و دولت چاہئیے جہاں سے بھی ہوں جس طریقے سے بھی ہوں ہمیں دنیا چاہیئے۔ ہمیں آخرت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ آخرت میں جو ہوگا سو ہوگا، وہ بعد میں دیکھی جائے گی۔ ہم دنیا میں سکون اور راحت ان چیزوں سے منسوب کرکے بیٹھے ہیں۔ کہ اگر یہ سب کچھ ملا تو ہم کامیاب ہوجائے گے اور اگر یہ نہیں ملیں تو ہم ناکام ہوجائے گے۔ ہماری سوچ کا معیار آج کل یہ بنا ہے۔
جھوٹ بولنا:
آج کل ہم ہر کام میں بس جھوٹ سے کام چلاتے ہیں۔ جھوٹ ہم زندگی کے ہر موڑ پر بولتے ہیں۔ ہم جو بھی کاروبار کرتے ہیں اس میں صرف جھوٹ بولتے ہیں۔ کاروبار ہم اکثر تو حلال کرتے ہیں، لیکن اس میں ہم جھوٹ کو ملاتے ہیں اور حلال کاروبار اور حلال رزق کو حرام کرتے ہیں۔ ہم زیادہ حاصل کرنے کیلئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ ہمیں سب کچھ زیادہ تعداد میں ملے خواہ جھوٹ بولنا پڑے ہم اس کو حاصل کرنے کیلئے جھوٹ بولتے ہیں۔
غرور کرنا:
غرور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کیلئے ہے۔ غرور اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی کیلئے بھی نہیں ہے۔ انسان جب کسی بات پر غرور کرتا ہے۔ تو وہ اسی وقت تباہ و بر باد ہوجاتا ہے۔ انسان کو سب کچھ جو عطاء ہو رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات عطاء کر رہا ہے۔ تو پھر غرور کس بات کا۔ انسان تو اتنا کمزور ہے، کہ سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لے سکتا۔ اتنی ہمت بھی نہیں ہے، اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ اپنا سانس اپنے مرضی سے لے سکے۔ ہماری ایک تباہی کا بڑا سبب آج کل یہ بھی ہے کہ تھوڑا بہت کچھ حاصل کرکے ہم بدل جاتے ہیں اور اپنی ماضی کو بہت جلد بھول جاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ میں آج جو بھی ہوں یہ اللہ تعالیٰ کی عطاء ہے۔ ہم پھر آپنے آپ کو معتبر سمجھتے ہیں کہ میں تو مختلف ہوں میرے پاس تو سب کچھ ہے۔ نعوذبا اللہ میں تو سب کچھ کر سکتا ہوں اللہ اکبر ایک انسان اور یہ باتیں بلکل مناسب نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات پر پکا یقین:
ہم بحیثیت مسلمان یہ کہتے تو ہیں کہ ہمیں یقین ہے اللہ کی ذات پر لیکن یہ یقین مضبوط نہیں ہے۔ یہ یقین ہمارا مستحکم نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر پکا یقین کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ میں کیا ہوں، میری حیثیت کیا ہے، یہ کائنات کیسی ہے۔ یہ سو فیصد یقین کرنا ہوگا کہ جو کچھ اس دنیا میں ہو رہا ہے وہ صرف ایک ذات کر رہا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اس کے علاوہ کوئی بھی کچھ نہیں کرسکتا۔ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کرسکتا ہے۔ آج کل اگر دیکھا جائے تو ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے باتیں کرتے ہیں ایسے کام کرتے ہیں کہ ان کاموں کا مسلمان معاشرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔ لیکن پھر بھی وہ کام ہمارے ہی مسلمان معاشرے میں ہو رہے ہیں۔ تو اس سے ہم بلکل آسانی سے معلوم کر سکتے ہیں، کہ ہم ایمانی طور پر مکمل کمزور ہوچکے ہیں۔ ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط جرنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پکا یقین کرنا ہوگا۔
اوپر دئیے گئے عنوان اپنی زندگی پر اپلائی کرنے کی ضرورت ہے۔ زندگی آسان ہوگی۔ میں خود انتہائی کمزور بندہ ہوں۔ بس کوشش کرتا ہوں کہ زندگی ایسے جیوں جس طرح اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ مختصر میں یہ کہوں گا کہ آپنے حال پر شکر ادا کرنا، جھوٹ نہ بولنا، دنیا کی لالچ نہ کرنا، غرور نہ کرنا، اللہ تعالیٰ کے مخلوق کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنا، اللہ تعالیٰ کی ذات پر پکا یقین کرنا اگر یہی باتیں ہم آپنے زندگی میں لائیں گے، تو ظاہر سی بات ہے ہم کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔
اب ہر کوئی اپنے گریبان میں جھانکیں کہ میں کیسا ہوں، میں آپنی زندگی کیسے جی رہا ہوں، ہر کوئی اپنے ساتھ موازنہ کرے۔ یہ سب باتیں جو میں نے بیان کی ہے میں قسم سے کہتا ہوں بہت ہی آسان کام ہے۔ بس ہم نے عہد کرنا ہے کہ آئندہ ایسے زندگی ہم جئیے گے۔ سب پریشانیوں کی جڑ بھی یہی باتیں ہیں۔ ہمیں ایک نہ ایک دن تو مرنا ہے اور اس میں سب سے پریشانی والی بات یہ ہے کہ موت کا پتہ نہیں چلتا کہ کب کس کے دروازے پر دستک دیتا ہے۔ ایک سیکنڈ کا بھی پتہ نہیں چلتا۔ تو پھر کیوں ہم اس جھوٹی اور مکار دنیا کی لالچ کر رہے ہیں۔ اگر اس دنیا کی لالچ نے کسی کو کوئی فائدہ پہنچایا ہوں تو مجھے بتائے کوئی کون ہے۔ کسی کو کچھ نہیں ملنے والا خواب غفلت سے بیدار ہونا پڑے گا۔
موت کو ہم بار بار بھول کر آخر کار موت کا وقت ہوگا اور قصہ تمام ہوگا۔ دنیا کی خواہشات کسی کی بھی پوری نہیں ہوتی۔ احمقوں کی جنت سے نکلنا پڑے گا۔ حقیقت کودیکھنا ہوگا۔ ہم سے پہلے تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام اس دنیا میں آئے ہیں اور چلے گئے ہیں۔ ان کی زندگیوں کو دیکھنا ہوگا۔ دنیا میں ان سب کو جنت کی بشارت دی گئی ہیں کہ آپ جنتی ہے۔ وجہ اور کوئی نہیں بس وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چلتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر پکا یقین کرتے تھے۔

