امام خمینی کے گھر میں
تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا اگر میری زندگی کا یہ پہلا مال ہوتا اور ایران میرا پہلا یا دوسرا سیاحتی ملک ہوتا تو آپ میرے دعوے کو مبالغہ کہہ سکتے تھے لیکن میں اب تک آدھی دنیا کے درجنوں بڑے مالز دیکھ چکا ہوں چناں چہ یہ صرف مبالغہ نہیں ہو سکتا۔
مال آف ایران واقعی ایک وسیع اور جدید کمپلیکس ہے جس میں تین فائیو اسٹار ہوٹلز، ڈانسنگ فاؤنٹین، گیمنگ زون، آئس ہاکی اسٹیڈیم، واکنگ ٹریک اور ساڑھے تین ہزار گاڑیوں کی پارکنگ ہے اور مجھے کم از کم ایران میں اس سائز اور ان سہولتوں سے مزین مال کی توقع نہیں تھی، آپ کمال دیکھیے، اس کا آدھا فلور لائبریری ہے اور یہ لائبریری باقاعدہ رائل پیلس دکھائی دیتی ہے۔
آپ اگر ایک بار اس میں گھس جائیں تو آپ کا دل باہر نکلنے کے لیے رضامند نہیں ہوگا، لائبریری کی چھت 60فٹ اونچی ہے اور اس کے تین لیولز پر کتابوں کی گیلریز ہیں اور ان میں دنیا جہاں کی کتابیں ہیں، آپ سارا دن وہاں گزار سکتے ہیں، اس سیکشن میں کتابوں کی دکانیں بھی ہیں اور آپ کو وہاں سے تمام بیسٹ سیلر کتابیں اور اسٹیشنری مل جاتی ہے۔
مال آف ایران کے ایک حصے میں قدیم بازار ہے، اس کا آرکی ٹیکچر کورڈ بازاروں کی طرح ہے، چھت پر نیم دائروں میں گنبد ہیں، برآمدے میں آرچز ہیں اور اندر قیمتی قالینوں کی دکانیں ہیں، مجھے وہاں چھ لاکھ ڈالر کا قالین دیکھنے کا اتفاق ہوا، وہ ون پیس تھا اور اسے 14 خواتین نے تین سال میں مکمل کیا تھا، مال کی بیک سائیڈ پر ڈانسنگ فاؤنٹین ہیں، آدھ کلو میٹر لمبا پانی کا تالاب ہے۔
اس میں فوارے لگے ہیں اور یہ فوارے روشنی اور میوزک کے ساتھ جلتے، بجھتے اور تھرکتے ہیں، مال کی ایک سائیڈ کی تمام کھڑکیاں ان کی طرف کھلتی ہیں جب کہ دوسری سائیڈ پر ہوٹلز اور فلیٹس کے ٹاورز ہیں، شام کے وقت لوگ فواروں کے ساتھ ساتھ واک کرتے ہیں اور پھر کافی شاپس میں بیٹھ کر فواروں کا رقص دیکھتے ہیں، اس مال میں بھی تمام دکانوں پر ایرانی مصنوعات ملتی ہیں۔
مجھے تہران میں امام خمینی کا گھر اور پھر ایران کے آخری شاہ کے محلات دیکھنے کا موقع ملا، یہ دونوں شہر کی نارتھ سائیڈ پر واقع ہیں، میں آپ کو پچھلے کالم میں بتا چکا ہوں نارتھ تہران کا مہنگا ترین علاقہ ہے، زیادہ تر سفارت خانے، عالمی مشنز اور ارب پتی ایرانیوں کے گھر اسی علاقے میں ہیں، اس مہنگے ترین سیکٹر کے علاقے جماران کی ایک تنگ سی گلی میں امام خمینی کا تین مرلے کا گھر تھا، یہ گلی بھی جماران اسٹریٹ کہلاتی ہے اور اس میں بمشکل گاڑی داخل ہوتی ہے، گلی کی دونوں سائیڈز پر گارڈز کی چوکیاں ہیں اور درمیان میں وہ کمپاؤنڈ آ جاتا ہے جس میں امام خمینی نے 10 سال گزارے تھے، کمپاؤنڈ کے لوہے کے گیٹ کے اندر صاف پانی کی ایک نالی بہتی ہے۔
عمارت کی پشت پر چشمہ ہے اور یہ نالی اس چشمے کے پانی کو عمارت کے اندر سے گزار کر گلی کی دوسری طرف لے کر جاتی ہے، کمپاؤنڈ کے اندر دائیں سائیڈ پر اونچی دیوار جب کہ بائیں جانب ہاشمی رفسنجانی اور امام خمینی کے گھر ہیں، امام خمینی کے آباؤ اجدادکشمیر سے تعلق رکھتے تھے، ان کے پڑدادا سید احمد موسیٰ اپنے نام کے ساتھ ہندی لکھتے تھے، وہ 1930 میں لکھنؤ سے نکلے اور 1939 میں ایران کے شہر خمین میں آباد ہو گئے، یہ فیملی امام خمینی تک ہندی کہلاتی تھی، امام خمینی خود بھی ہندی کا قلمی نام استعمال کرتے تھے۔
امام 1900میں خمین میں پیدا ہوئے، ایران کی 90فیصد آبادی اپنے ناموں کے ساتھ اپنے شہر کا نام لکھتی ہے، امام خمینی کے نام کے ساتھ خمینی ان کے شہر خمین کی وجہ سے ہے جب کہ ان کا اصل نام روح اللہ تھا، ان کی ابتدائی تعلیم خمین میں ہوئی، خاندان مذہبی تھا لہٰذا یہ مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہوئے قم پہنچ گئے اور وہاں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں، اہل تشیع کے علمی اور روحانی سلسلے کا آخری عہدہ آیت اللہ ہوتا ہے، یہ آیت اللہ بروجردی کے انتقال کے بعد آیت اللہ ہو گئے۔
شاہ کے دور میں امام سینہ تان کر شاہ کے مظالم اور اس کی مغرب پرستی پر تنقید کرتے تھے، شاہ نے ان کی حرکات و سکنات پر پابندی لگا دی مگر یہ بولتے رہے یہاں تک کہ 1963 میں انھیں گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے، شاہ نے ہجوم پر گولی چلا دی جس میں 100لوگ شہید ہو گئے مگر مظاہرے اس کے باوجود جاری رہے۔
آخر میں عوام پر ٹینک چڑھا دیے مگر احتجاج نہیں رکا، شاہ نے مجبور ہو کر 1964 میں امام کو جلاوطن کر دیا، یہ پہلے ترکی گئے، وہاں سات ماہ قیام کیا اور اس کے بعد عراق میں نجف اشرف چلے گئے، یہ وہاں 13سال رہے، 1978 میں عراقی حکومت نے شاہ ایران کی درخواست پر انھیں عراق سے نکال دیا، یہ کویت گئے مگر کویت نے انھیں داخلے کی اجازت نہیں دی لہٰذا یہ 5 اکتوبر 1978 کو فرانس جانے پر مجبور ہوگئے، یہ چارماہ فرانس رہے، اس دوران پورا ایران ابل کر سڑکوں پر آ گیا اور شاہ کی شاہی عملاً ختم ہوگئی، شاہ ایران 16 جنوری 1979 کو تہران سے بھاگ گیا جس کے بعد یکم فروری 1979 کو آیت اللہ روح اللہ خمینی تہران کے مہرآباد ائیرپورٹ پر اترے اور پورے ملک نے باہر آ کر ان کا استقبال کیا اور یوں ایران میں اسلامی انقلاب آ گیا۔
امام خمینی ایران کے نئے انقلابی لیڈر تھے، یہ بابائے قوم تھے مگر اس کے باوجود انھوں نے سادہ زندگی کا انتخاب کیا اور یہ انتقال تک تین مرلے کے کرائے کے مکان میں رہتے رہے اور آخری وقت تک اس کا کرایہ بھی دیااور میں اس کمپاؤنڈ میں اس گھر کے سامنے کھڑا تھا۔ گھر بہت چھوٹا اور غریبانہ تھا، صحن دس بائی چودہ فٹ تھا جس پر انگور کی بیلوں نے سایہ کر رکھا تھا، صحن سے سیڑھیاں اوپر جاتی تھیں، سامنے امام کا لاؤنج تھا، یہ کسی بھی طرح دس فٹ سے بڑا نہیں تھا، لاؤنج میں ایک پرانا ٹو سیٹر صوفہ اور ایک تپائی پڑی تھی، ساتھ ہی ان کا بیڈ روم تھا جس کا سائز بارہ فٹ تھا اور اس میں ان کا سنگل بیڈ اور چھوٹی سی رائٹنگ ٹیبل رکھی تھی، دونوں کی مالیت چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں تھی۔
اس کے ساتھ ایک خالی کمرہ تھا جس میں قالین کے علاوہ کوئی فرنیچر نہیں تھا، یہ گھر کی سیٹنگ تھی اور اس کے پیچھے تیسرا کمرہ تھا جس میں خواتین رہتی تھیں اور بس، امام خمینی نے زندگی کے آخری دس سال اسی گھر میں گزارے تھے، ان کی حسینیہ (امام بار گاہ) گھر کے بالکل سامنے تھی، امام ہر ہفتے اسی میں خطاب کیا کرتے تھے، حکومت نے اس کے نیچے بیسمنٹ میں ان کا میوزیم بنا دیا ہے جس میں امام کی زندگی کے مختلف ادوار کی تصویریں لگی ہیں اور ان کے استعمال کی اشیاء رکھی ہیں۔
ان اشیاء میں تاج کمپنی راولپنڈی کا شایع کردہ قرآن مجید کا ایک نسخہ بھی شامل ہے، امام مختلف ریاستوں کے سربراہوں اور وزراء سے بھی اسی گھر میں ملاقات کرتے تھے، وہ صوفے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے جب کہ اسٹاف کو نیچے صحن میں کھڑا ہونا پڑتا تھا، ایران میں لوگ گھروں میں صفائی اور کھانا پکانے کے لیے ملازم نہیں رکھتے، امام خمینی کے گھر میں بھی سویپر اور خانساماں نہیں تھا لہٰذا امام اور ان کی اہلیہ خود صفائی کرتی تھیں، کھانا بھی ان کی اہلیہ ہی پکاتی تھیں اور اس دوران اگر بیگم صاحبہ کی کوئی سہیلی یا مہمان آ جاتا تھا تو امام خود چائے پکا کر سرو کرتے تھے اور یہ معمول آخر تک قائم رہا، ان کا علاج بھی اسی کمپاؤنڈ کے ساتھ موجود عام سے اسپتال میں ہوا تاہم حکومت نے دیوار توڑ کر ان کے لیے خصوصی دروازہ نکال دیا تھا اور یہ دروازہ آج تک موجود ہے، مجھے امام کے میوزیم میں بھی جانے کا اتفاق ہوا، ان کے استعمال کی چیزیں بہت کم، سستی اور عام سی تھیں۔
ان میں کوئی قیمتی چیز شامل نہیں تھی، یہ سب کچھ دیکھ کر بڑی ٹینشن ہوئی، ہم اگر پاکستانی حکمرانوں کا لائف اسٹائل دیکھیں اور اس کے بعد اس امام خمینی کی رہائش گاہ اور طرز رہائش دیکھیں جس نے پوری مسلم دنیا کی سوچ بدل کر رکھ دی، جو آج بھی دنیا کے بااثر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں تو ٹینشن بجا ہے، کاش ہمارے حکمران ایک بار امام خمینی کے گھر کا چکر لگا لیں، شاید انھیں اسی طرح شرم آ جائے۔
مجھے امام خمینی کے مقبرے پر جانے کا اتفاق بھی ہوا، یہ قم جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے، یہ بڑی، وسیع اور شان دار عمارت ہے اور اس پر اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں، اس کی پارکنگ اور لانز بھی وسیع ہیں اور اس کے ہال میں بھی لاکھ کے قریب لوگ بیٹھ سکتے ہیں، مزار درمیان میں ہے اور اس کے دائیں بائیں فرش کی سطح پر امام کے رشتے داروں اور اہلیہ کی قبریں ہیں۔
یہ مزار شہداء کے قبرستان میں بنایا گیا تھا چناں چہ احاطے کے باہر انقلاب اور عراق جنگ کے شہداء کی قبریں ہیں، امام خمینی نے 1979 میں فرانس سے واپسی پر اسی قبرستان میں قوم سے اپنا پہلا خطاب کیا تھا اور انھیں ان کی خواہش پر یہاں دفن کیا گیا تھابہرحال اگر امام خمینی کا گھر اور مقبرہ دیکھا جائے تو دونوں میں زمین آسمان کا فرق محسوس ہوتا ہے، ایک سائیڈ پر محل ہے اور دوسری سائیڈ پر کٹیا، انسان کس کی تعریف کرے؟ یہ فیصلہ مشکل ہو جاتا ہے۔
میری اگلی منزل ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کے محلات تھی۔