عبرت کا کشکول
اور پھر ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا، یہ جہاز 17 اکتوبر 1858کو رنگون پہنچ گیا، شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں، کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا، وہ بندر گاہ پہنچا، اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا۔
رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرماں روا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا، نیلسن پریشان تھا، بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا، وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا۔
نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دل چسپ حل نکال لیا، نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاج دار ہند، ظل سبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا، بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858 کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862 تک چار سال وہاں رہا، بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور زمانہ غزل لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں، کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں اورکتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لیے، دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں، اسی گیراج میں لکھی تھی۔
یہ 7 نومبر کا خنک دن تھا اور سن تھا 1862۔ بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی، اندر سے اردلی نے برمی زبان میں اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی، خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی برمی میں جواب دیا، ظل سبحانی کا سانس اکھڑ رہا ہے، اردلی نے جواب دیا، صاحب کتے کو کنگھی کر رہے ہیں۔
میں انھیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا، خادمہ نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا، اردلی اسے چپ کرانے لگا مگر آواز نیلسن تک پہنچ گئی، وہ غصے میں باہر نکلا، خادمہ نے نیلسن کو دیکھا تو وہ اس کے پاؤں میں گر گئی، وہ مرتے ہوئے بادشاہ کے لیے گیراج کی کھڑکی کھلوانا چاہتی تھی، بادشاہ موت سے پہلے آزاد اور کھلی ہوا کا ایک گھونٹ بھرنا چاہتا تھا، نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا، گارڈز کو ساتھ لیا۔
گیراج میں داخل ہوگیا، بادشاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بو، موت کا سکوت اور اندھیرا تھا، اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہوگیا، نیلسن آگے بڑھا، بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر، اس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی، آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر ابل رہے تھے، گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں، نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی، اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی، وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا۔
وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس جی ہاں صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی اور یہ اپیل پرانے کنوئیں کی دیوار سے لپٹی کائی کی طرح ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی، کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا، زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی۔
ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا، نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا، لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی، وہ دونوں آئے، انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا، کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نماز جنازہ پڑھی، قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاج دار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی، نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا، قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا۔
گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا، ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر، تاج شاہی سر پر رکھ کر اور نادر شاہی اور جہانگیری تلواریں لٹکا کر دربار عام میں آیا تو پورا دلی تحسین تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا، نقارچی نقارے بجانے لگے، گویے ہواؤں میں تانیں اڑانے لگے، فوجی سالار تلواریں بجانے لگے اور رقاصائیں رقص کرنے لگیں۔
استاد حافظ محمد ابرہیم دہلوی کو یاد تھا بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی کا جشن سات دن جاری رہا اور ان سات دنوں میں دلی کے لوگوں کو شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا مگر سات نومبر 1862 کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا، استاد حافظ محمد ابرہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
اس نے جوتے اتارے، بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سورۃ توبہ کی تلاوت شروع کر دی، حافظ ابراہیم دہلوی کے گلے سے سوز کے دریا بہنے لگے، یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریب الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔
آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شپ کی کچی گلیوں کی بدبودار جھگیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے، یہ آخری مغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے۔
یہ کچی زمین پر سوتی ہے، ننگے پاؤں پھرتی ہے، مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے مگر یہ لوگ اس کسمپرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں، یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
یہ لوگ، یہ شہزادے اور شہزادیاں کون ہیں؟ یہ ہندوستان کے آخری بادشاہ کی سیاسی غلطیاں ہیں، بادشاہ نے اپنے گرد نااہل، خوشامدی اور کرپٹ لوگوں کا لشکر جمع کر لیا تھا، یہ لوگ بادشاہ کی آنکھیں بھی تھے، اس کے کان بھی اور اس کا ضمیر بھی، بادشاہ کے دو بیٹوں نے سلطنت آپس میں تقسیم کر لی تھی، ایک شہزادہ داخلی امور کا مالک تھا اور دوسرا خارجی امور کا مختار، دونوں کے درمیان لڑائی بھی چلتی رہتی تھی اور بادشاہ ان دونوں کی ہر غلطی، ہر کوتاہی معاف کر دیتا تھا۔
عوام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی، مہنگائی آسمان کو چھو رہی تھی، خوراک منڈیوں سے کٹائی کے موسموں میں غائب ہو جاتی تھی، سوداگر منہ مانگی قیمت پر لوگوں کو گندم، گڑ اور ترکاری بیچتے تھے، ٹیکسوں میں روز اضافہ ہوتا تھا، شہزادوں نے دلی شہر میں کبوتروں کے دانے تک پر ٹیکس لگا دیا تھا، طوائفوں کی کمائی تک کا ایک حصہ شہزادوں کی جیب میں چلا جاتا تھا، شاہی خاندان کے لوگ قتل بھی کر دیتے تھے تو کوئی ان سے پوچھ نہیں سکتا تھا، ریاست شاہی دربار کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔
نواب، صوبے دار، امیر اور سلطان آزاد ہو چکے تھے اور یہ مغل سلطنت کو ماننے تک سے انکاری تھے، فوج تلوار کی نوک پر بادشاہ سے جو چاہتی تھی منوا لیتی تھی، عوام بادشاہ اور اس کے خاندان سے بیزار ہو چکے تھے، یہ گلیوں اور بازاروں میں بادشاہ کو ننگی گالیاں دیتے تھے اور کوتوال چپ چاپ ان کے قریب سے گزر جاتے تھے جب کہ انگریز مضبوط ہوتے جا رہے تھے، یہ روز معاہدہ توڑتے تھے اور شاہی خاندان وسیع تر قومی مفاد میں انگریزوں کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیتا تھا۔
انگریز بادشاہ کے وفاداروں کو قتل کر دیتے تھے اور شاہی خاندان جب احتجاج کرتا تھا تو انگریز بادشاہ کو یہ بتا کر حیران کر دیتا تھا "ظل الٰہی وہ شخص آپ کا وفادار نہیں تھا، وہ ننگ انسانیت آپ کے خلاف سازش کر رہا تھا" اور بادشاہ اس پر یقین کر لیتا تھا، بادشاہ نے طویل عرصے تک اپنی فوج بھی ٹیسٹ نہیں کی تھی چناں چہ جب لڑنے کا وقت آیا تو فوجیوں سے تلواریں تک نہ اٹھائی گئیں، ان حالات میں جب آزادی کی جنگ شروع ہوئی اور بادشاہ گرتا پڑتا شاہی ہاتھی پر چڑھا تو عوام نے لاتعلق رہنے کا اعلان کر دیا۔
لوگ کہتے تھے ہمارے لیے بہادر شاہ ظفر یا الیگزینڈرا وکٹوریا دونوں برابر ہیں، مجاہدین جذبے سے لبریز تھے لیکن ان کے پاس قیادت نہیں تھی، بادشاہ ڈبل مائینڈڈ تھا، یہ انگریز سے لڑنا بھی چاہتا تھا اور اپنی مدت شاہی بھی پوری کرنا چاہتا تھا چناں چہ اس جنگ کا وہی نتیجہ نکلا جو ڈبل مائینڈ ہو کر لڑی جانے والی جنگوں کا نکلتا ہے۔
شاہی خاندان کو دلی میں ذبح کر دیا گیا جب کہ بادشاہ جلاوطن ہوگیا، بادشاہ کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گیراج میں قید رہا، گھر کے احاطہ میں دفن ہوا اور اس کی اولاد آج تک اپنی عظمت رفتہ کا ٹوکرا سر پر اٹھا کر رنگون کی گلیوں میں پھر رہی ہے۔
یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے، جو بادشاہ اپنی سلطنت، اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے، جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں، ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں، یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی، یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھنے لگتے ہیں۔