ہمارے پاس صرف ایک آپشن ہے
2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، ملک میں لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مظاہرے شروع ہو گئے، راجہ پرویز اشرف پانی اور بجلی کے وزیر تھے، شاہد رفیع سیکریٹری واپڈا اور راجہ ذوالقرنین خان آزاد کشمیر کے صدر تھے، راجہ ذوالقرنین کے صاحب زادے نے راجہ پرویز اشرف کو بتایا ترک کمپنی کارکے (Karkey) رینٹل پاور پلانٹس کرائے پر دیتی ہے، یہ پلانٹس بحری جہاز میں نصب ہوتے ہیں، جہاز بندر گاہ پر کھڑا ہوتا ہے، بجلی بناتا ہے اوربجلی مین لائین کو سپلائی کر دی جاتی ہے، حکومت عوامی دباؤمیں تھی لہٰذا اس نے فوری طور پر کارکے سے رابطہ کر لیا، یہ کمپنی ترک وزیراعظم طیب اردگان کے قریبی رشتے دار اور دوست کی ملکیت تھی بہرحال قصہ مختصر ایگری منٹ ہوگیا، کارکے نے اپنے جہاز بھجوائے اور لوڈ شیڈنگ میں کمی آ گئی۔
پاکستان مسلم لیگ ن اس وقت اپوزیشن میں تھی، خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریریں شروع کر دیں، راجہ پرویز اشرف کو راجہ رینٹل کا خطاب بھی خواجہ آصف نے دیا تھا، افتخار محمد چوہدری بحال ہو کر دوبارہ چیف جسٹس بنے اور انھوں نے اندھیرے میں اندھا دھند تلوار چلانا شروع کر دی، چیف جسٹس نے رینٹل پلانٹس کے خلاف سوموٹو نوٹس لیا، کیس شروع ہوا اور چیف جسٹس نے دائیں بائیں دیکھے بغیر 2012 میں یہ ایگری منٹس کینسل کر دیے جب کہ سندھ ہائی کورٹ نے کارکے جہاز پر قبضے اور عملے کی گرفتاری کا حکم دے دیا، حکومت پاکستان نے کارکے کو سرکاری گارنٹی دے رکھی تھی، ججوں نے اس کی پرواہ نہیں کی نتیجتاً کارکے بین الاقوامی ثالثی کمیشن (ICSID) میں چلا گیا، یہ کیس 2017 تک چلتا رہا اور آخر میں اس نے پاکستان پر 800 ملین ڈالر کا جرمانہ کر دیا۔
یہ رقم سود شامل ہونے کے بعد ایک بلین اور دو سو ملین ڈالر ہوگئی، شاہد خاقان عباسی وزیراعظم تھے، انھوں نے فوری طور پر کمیٹی بنا دی، کمیٹی دو سال میٹنگ کرتی رہی، اس دوران جرمانہ بڑھتا رہا یہاں تک کہ صورت حال گھمبیر ہوگئی، آرمی چیف جنرل باجوہ اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے رعایت کے لیے ترک صدر طیب اردگان سے بذات خود بات کی مگر انھوں نے کندھے اچکا کر انکار کر دیا، عمران خان نے بھی طیب اردگان سے درخواست کی تھی لیکن انھیں بھی جواب ہوگیا، پاکستان پھنس گیا، بہرحال ہماری قسمت اچھی تھی اس دوران آئی ایس آئی کو ایک ٹپ مل گئی، اس نے یہ ٹپ نیب کو دی اور نیب نے واپڈا کے سابق سیکریٹری شاہد رفیع کو گرفتار کر لیا، یہ اس وقت تک ریٹائرڈ ہو چکے تھے اور اسلام آباد میں رہائش پذیر تھے، کارکے سے معاہدہ ان کے دستخطوں سے ہوا تھا، نیب کی حراست میں آئی ایس آئی کے آفیسر ان سے ملے اور انھیں بڑے پیار سے سمجھایا سر آپ ایک باعزت شخص ہیں، آپ اس عمر میں عدالتوں اور جیلوں میں دھکے کھاتے اچھے نہیں لگتے۔
آپ ہمارے ساتھ کو آپریٹ کریں، شاہد رفیع نے تسلیم کر لیا انھیں کارکے نے 30 ہزار ڈالر دیے تھے، شاہد رفیع سے آزاد کشمیر کے صدر راجہ ذوالقرنین کے صاحب زادے راجہ بابر علی کا نام ملا، یہ صاحب زادے آخر تک کارکے کے لیے کام کرتے رہے تھے، نیب نے اس کے اکاؤنٹس کی پڑتال کی تو پتا چلا راجہ بابر علی کو یو اے ای کی ایک کمپنی سے رقم ملتی رہی تھی، نیب کی ٹیم یو اے ای پہنچ گئی وہاں سے پتا چلا اس کمپنی کو پاناما کی ایک کمپنی رقم بھجواتی تھی، ہمارے لوگ پاناما پہنچ گئے وہاں سے پتا چلا پاناما کی کمپنی لبنان سے پیسے منگواتی تھی، ہماری ٹیم لبنان پہنچ گئی، وہاں سے پتا چلا لبنان کی کمپنی ایک سوئس کمپنی سے وابستہ ہے۔
ہمارے لوگ سوئٹزر لینڈ پہنچ گئے تو معلوم ہوا سوئٹزر لینڈ کی کمپنی ایک ترک بزنس مین نے کھولی تھی اور اس کا تعلق کارکے سے تھا۔ "کارکے" رشوت کی رقم ترکی سے سوئٹزرلینڈ بھجواتی تھی، سوئٹزر لینڈ سے رقم لبنان، لبنان سے پاناما اور پاناما سے یو اے ای آتی تھی اور وہاں سے یہ رقم راجہ ذوالقرنین کے صاحب زادے کے اکاؤنٹ میں آجاتی تھی یوں نیب نے یہ سارا نیٹ ورک پکڑ لیا، کارکے پھنس گئی، اس کے بعد وہ طیب اردگان جو آرمی چیف اور دو وزراء اعظم کو انکار کر چکے تھے، انھوں نے خود عمران خان سے رابطہ کیا اور آؤٹ آف کورٹ سیٹل منٹ کی درخواست کی اور یوں پاکستان بے عزتی اور بھاری جرمانے سے بچ گیا۔
عمران خان نے اس شان دار کارنامے پر کنسلٹنٹ احمد عرفان اسلم، آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر عرفان شکیل رامے اور آئی ایس آئی کے آفیسر کرنل فاروق شہباز کو بیس بیس لاکھ روپے انعام اور سول ایوارڈز دیے تاہم اس معاملے میں اہم ترین کام کرنے والے آفیسر ضرغم اسحاق خان وزیراعظم کی مہربانی سے محروم رہے، یہ واپڈا میں جوائنٹ سیکریٹری تھے اور انھوں نے معاہدے میں موجود کوتاہیوں کی نشان دہی کی تھی، وزیراعظم نے آخر میں ان کا نام فہرست سے کیوں نکالا؟ اس کی وجہ آج تک سمجھ نہیں آسکی۔
ملک اُس وقت چند افسروں کی وجہ سے بچ گیا اگر یہ لوگ کام نہ کرتے اور انھیں راجہ ذوالقرنین کے صاحب زادے اور سیکریٹری واپڈا شاہد رفیع کے کارناموں کی بھنک نہ پڑتی تو پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالر بھی ٹھک جاتے، عالمی سطح پر بدنامی بھی ہوتی اور بیرونی سرمایہ کار بھی اپنی دکان اٹھا کر فرار ہو جاتے، یہاں پر اب سوال پیدا ہوتا ہے کیا پاکستان میں لگنے والے بجلی کے دوسرے کارخانوں میں کرپشن نہیں ہوئی، کیا آئی پی پیز کے معاہدے درست تھے؟ اس کا سیدھا جواب ہے کرپشن لازمی ہوئی ہوگی، پاکستان جیسے ملکوں میں کھربوں کے معاہدے فائلوں کے پہیوں کے بغیر ممکن نہیں ہوتے، ان سودوں میں یقینا سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے اربوں روپے بنائے ہوں گے۔
اگلا سوال یہ ہے کیا ان مہنگے پروجیکٹس کے بغیر گزارہ ممکن تھا؟ اس کا سیدھا جواب ہے نہیں، پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کے دور میں افغان وار کی وجہ سے اربوں ڈالر آئے، یہ پیسہ ٹریکل ڈاؤن ہو کر عوام تک پہنچ گیا، اس زمانے میں موبائل فون کمپنیاں، رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور ایکسپورٹس میں بھی اضافہ ہوا جس سے ملک میں پیسے کی ریل پیل ہوگئی، شوکت عزیز نے آ کر امپورٹس کھول دیں، اس کے نتیجے میں ٹیلی ویژن، اے سی اور گاڑیوں کی بھرمار ہوگئی، پورے ملک میں نئے گھر، پلازے اور شاپنگ سینٹرز بھی بنے، اس کے نتیجے میں بجلی کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوگیا جب کہ ہمارے پاس بجلی پیدا کرنے کا نظام پرانا اور چھوٹا تھا لہٰذا ملک میں لوڈ شیڈنگ شروع ہوگئی، عوام جذباتی اور جلد باز ہیں، یہ سڑکوں پر آ گئے، حکومت پریشان ہوگئی اور یہ افراتفری میں لانگ ٹرم کے بجائے شارٹ ٹرم سلوشن کی طرف چلی گئی، اس نے فرنس آئل، ایل این جی اور درآمدی کوئلے کے پلانٹس لگا دیے، یہ ایک فوری حل تھا جس سے بجلی پوری ہوگئی لیکن بجلی کی قیمت بڑھ گئی۔
اس دور میں چین نے پاکستان کی مدد کی، کیوں کی؟ اس کی دو وجوہات تھیں، نائین الیون کے بعد امریکا نے پاکستان کو دوسری بار اکیلا چھوڑ دیا تھا، ہمارے پاس چین کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا، چین کے پاس یہ ٹیکنالوجی سستی بھی تھی اور فوری دستیاب بھی تھی، تیسرا بینک آف چائنا نے کم ریٹ پر قرض کی پیش کش کر دی چناں چہ ہماری کمپنیوں اور حکومت نے دھڑا دھڑ پاور پلانٹس لگائے اور ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر لی، پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی 2008 سے 2018 تک پاور سیکٹر میں جوس نظر آیا، انھوں نے بھی پاور پلانٹس لگا لیے، اب ان پلانٹس کے لیے قرضہ پاکستانی بینکوں اور بینک آف چائنا سے لیا جا رہا تھا اور ان دونوں نے حکومت سے گارنٹی مانگ لی۔
حکومت کے پاس دو آپشن تھے، یہ گارنٹی نہ دیتی، اس سے پاور پلانٹس نہ لگتے اور اس سے لوڈ شیڈنگ میں اضافہ ہو جاتا اور عوام حکومت کو سڑکوں پر لٹا کر پھینٹا لگا دیتے، دوسرا یہ بینک گارنٹی دے دیتی، حکومت نے دوسرا آپشن لیا اور یوں بحران ٹل گیا لیکن نیا بحران پیدا ہوگیا، اب ایشو یہ ہے پاکستان میں بجلی کی ضرورت 43 ہزار میگاواٹ ہے، پاورپلانٹس کی ٹوٹل کیپسٹی 45 ہزار میگا واٹ ہے لیکن واپڈا ان سے 20 سے 22 ہزار میگاواٹ لے رہا ہے اورہمیں باقی 20 یا 22 ہزار میگاواٹ کی رقم ادا کرنا پڑ رہی ہے، ہم عام زبان میں اسے کیپسٹی چارجز کہہ لیتے ہیں، اب سوال یہ ہے واپڈا بجلی کم کیوں لیتا ہے؟ اس کی وجہ چوری اور انڈسٹری کی بندش ہے، انڈسٹری چل نہیں رہی لہٰذا بجلی کی کھپت کم ہوگئی ہے، دوسری طرف 20 فیصد بجلی چوری ہو جاتی ہے، واپڈا نے ان دونوں ایشوز کا یہ حل نکالا یہ لوڈ شیڈنگ کر دیتا ہے۔
اس کی وجہ سے ایک طرف بجلی کے بل بڑھ رہے ہیں، کیوں؟ کیوں کہ فرنس آئل اور کوئلے کے ریٹس بڑھ گئے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مالیت بھی کم ہوگئی ہے اور ہمارے پاس ڈالرز بھی ختم ہو گئے ہیں اور آئی ایم ایف نے بجلی پر سبسڈی دینے سے بھی انکار کر دیا، دوسری طرف ہم نے بینک آف چائنا کی قسطیں دینی ہیں لہٰذا اب ہمارے پاس دو آپشن ہیں۔
ہم آئی پی پیز سے معاہدے توڑ دیں جس کے بعد یہ عالمی عدالتوں میں چلے جائیں گے اور وہاں پاکستان کو اتنے جرمانے ہو جائیں گے جو ہم خود کو بیچ کر بھی پورے نہیں کر سکیں گے اور اس کے ساتھ ہی ملک میں بجلی بھی مکمل بند ہو جائے گی، کیا قوم اس کے لیے تیار ہے؟ دوسرا حل ہم کسی نہ کسی طرح انڈسٹری چلائیں، اس سے ساری بجلی استعمال ہوگی اور کیپسٹی چارجز نیچے آ جائیں گے، ہم اس کے ساتھ ساتھ بجلی چوری اور لائین لاسز کم کریں اور ایک سالڈ انرجی پالیسی بھی بنائیں جسے کوئی حکومت نہ چھیڑے، یہ مسئلہ پھر حل ہوگا، دھرنے بہرحال اس مسئلے کا حل نہیں ہیں، ہم نے اب صرف ایک فیصلہ کرنا ہے ہم بجلی کے بغیر زندگی گزاریں یا پھر مہنگی بجلی خریدیں، ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں اگرکسی کے پاس ہے تو وہ سامنے آ جائے۔