Wednesday, 08 May 2024
  1.  Home/
  2. Irshad Bhatti/
  3. Tum Ziada Se Ziada Truck Driver Ban Saktay Ho

Tum Ziada Se Ziada Truck Driver Ban Saktay Ho

تم ذیادہ سے ذیادہ ٹرک ڈرائور بن سکتے ہو

بات بڑی سیدھی سی ہے ،خود اعتماد ی ،مسلسل کوشش اور صحیح موقع پر صحیح فیصلے، ناکامیاں بھی کامیابیوں میں ڈھل جائیں ۔

کبھی یہ نہ سوچیں کہ آپ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ،کیونکہ ایک طرف اگر 22 سال کی عمر میں ڈگری لینے والوں کو نوکری کی تلاش میں 5 چھ سال لگ جائیں ،تو دوسری طرف 25 چھبیس سال کی عمر میں تعلیم مکمل کرنے والوں کو دنوں اور ہفتوں میں پسند کی نوکریاں مل جائیں ،ایک طرف اگرکچھ 25 چھبیس سال کی عمرمیں اداروں کے سربراہ بن کر 50 ساٹھ سال کی عمرمیں چل بسیں ،تو دوسری طرف کئی 50 ساٹھ سال کی عمرمیں کسی کمپنی یا محکمے کی سربراہی تک پہنچ کر 80 نوے سال تک زندہ رہیں اور ایک طرف اگر کچھ ایسے بھی کہ جن کی20 بائیس سال کی عمر میں شادی ہو جائے مگر وہ عمر بھر اولاد کی نعمت سے محروم رہیں تو دوسری طرف کچھ وہ بھی جو چالیس 50 سال کی عمر میں شادی کرکے بھی ماں باپ بن جائیں ،اگر کچھ پلے نہیں پڑرہا تو آسان لفظوں میں سمجھاتا ہوں،اگر ایک طرف 55 سال کی عمر میں اوبامہ دومرتبہ صدارت بھگتا کر ریٹائر ہو جائے تو دوسری طرف 70 سال کی عمر میں ٹرمپ پہلی بار صدر بن پائے تو کہنا یہی کہ یہاں نہ کوئی کسی سے آگے نکلے اور نہ کوئی کسی سے پیچھے رہے ، یہاں ہر کوئی اپنے ’’ٹائم زون ‘‘ میں اپنی زندگی گذار رہا اور ہر ایک کی اپنی رفتار، اپنا راستہ اور اپنی منزل ، ہاں یہ درست کہ خود اعتمادی ،مسلسل کوشش اور صحیح موقع پر صحیح فیصلے، فاصلے کم اور منزلیں آسان بنا دیں ۔

صاحبو !اگر کامیابی آپکو دنیا سے متعارف کروائے تو ناکامی دنیا کا آپ سے تعارف کروائے مگر تاریخ کے ہیروو ہی جو ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا گُر جانیں ، ذرا سوچیئے 14 لاکھ سال پہلے دریافت ہونے والی آگ ہو یا 15ہزار سال پہلے تیر کمان کی ایجاد ہو ،35سو سال قبل مسیح پہیوں کا وجود میں آنا ہو یا 12 سو سال قبل مسیح آہنی دور کی ابتداء ہو ،2سو سال قبل مسیح تعمیراتی کاموں میں کنکریٹ کا استعمال ہو یا 1569 میں ’’نیوی گیشن سسٹم ‘‘ کا آغاز ہو ،1712 میں آیا صنعتی انقلاب ہو یا 1876 میں ہوئی ٹیلی کمیونیکیشن کی ترقی ہو ،1903 میں لڑاکا طیاروں کا آنا ہو یا 1941 میں مین ہیٹن پراجیکٹ اور انسانی تاریخ کا سب سے طاقتور ہتھیار ہو اور یا پھر 1954 میں شروع ہوئی خلائی دوڑ ہو یا 1991 میں آئی انٹرنیٹ کی دنیا ہو ، ان 12 ایجادوں کو منطقی انجام تک پہنچانے والے وہ سر پھرے جن کی خود اعتمادی ،مسلسل محنت اور صحیح موقعوں پر صحیح فیصلوں نے مایوسیوں کو امیدوں اور ناکامیوں کو کامیابیوں میں بدل کر کرہ ارض کی تاریخ ہی بدل ڈالی ، اب کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ان سب نے کیا کیاقربانیاں دیں اور کن کٹھن حالات میں یہ کامیابیوں تک پہنچے ، یہ کوئی نہیں سوچے گا کیونکہ ہمارا المیہ ہی یہی کہ ہم کامیابی دیکھ کر فوراً رشک یا حسد میں تو مبتلا ہو جائیں مگر اس کامیابی کے پیچھے چھپی داستان اور جدوجہد پر ایک نظر بھی نہ ڈالیں ، جیسے ہم سب کو یہ تو معلوم کہ ابراہم لنکن متحدہ امریکہ کا پہلا صدر مگر ہم اس ابراہم لنکن کو نہ جانیں جو ایک موچی کا بیٹا ،جسکی بدصورتی کا دوست مذاق اڑایا کرتے ، جسکا فاقوں بھرا بچپن جوتے سیتے سیتے گذرا اور جو زندگی کے 15 شعبوں میں ناکام ہوا ، ہمیں وہ نیلسن منڈیلا تو دکھائی دے جو جنوبی افریقہ کا پہلا سیاہ فام صدر اور دنیابھر کا ہیرو مگر ہمیں وہ نیلسن منڈیلا نظر نہ آئے جو باسی روٹی کے ٹکڑوں کو ترسا کرتا ، جسکے جوتے ہمیشہ پھٹے اورکپڑے میلے کچیلے ہوتے ، جس پر کئی دفعہ تشدد ہوا ، جسے کئی دفعہ جان بچانے کیلئے گٹروں اور گندے نالوں میں چھپنا پڑا اور جو 27سال جیل میں سڑتا رہا ، ہم سب کو امریکہ کا صدر ریگن تو یاد مگرہم اس رونالڈ ریگن کو بھلادیں کہ جس نے گھوڑوں کے اصطبل میں نوکری کی ،جس نے کئی ماہ ویٹر ی کی اور جو فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں کیلئے ہدایتکاروں کی خوشامدیں کیا کرتا ، ہم سب بالی ووڈ کے کنگ خان سے تو متاثر مگر ہمیں وہ شاہ رخ یاد نہیں جو دوست سے 20 روپے ادھار لیکر ممبئی آیا ،جسے کرایہ نہ دینے پر مالکِ مکان نے گھر سے نکال دیا اور جوا کثر ممبئی کے پارکوں کے بنچوں پر سویا ملتا اور ہم سب شہر ہ آفاق فٹبالر رونالڈو کے تو گرودیدہ ،مگر وہ رونالڈو کسی کو یاد نہیں کہ جسکا بچپن ٹین کے چھت والے 3 مرلے کے مکان میں گذرا، جو ایک چاکلیٹ کیلئے ڈیڑھ سال تک ترستا رہا اور جس نے ایک عرصے تک اس لیئے ننگے پاؤں فٹبال کھیلی کیونکہ اس کے پاس فٹبال شوز خریدنے کے پیسے نہ تھے ، کبھی آپ نے سوچا کہ یہ سب زمین سے آسمان تک کیسے پہنچے ،بات پھر وہی کہ خود اعتمادی ،مسلسل کوشش اور صحیح موقع پر صحیح فیصلے ۔

ذرا یہ بھی سنتے جائیں ، ڈھلتی دوپہر ،ہارورڈ یونیورسٹی اور ریاضی کی کلاس ،کافی دیرسے ہاتھ اُٹھائے بل کی جب باری آئی اور اس نے ایک لمبی جمائی کے بعد انتہائی احمقانہ سا سوال پوچھا تو قہر آلود نظروں سے گھورتے پروفیسر نے انتہائی غصیلی آواز میں کہا ’’ اسی وقت کلاس سے نکل جاؤ ‘‘ ہکا بکا بل ابھی اپنی کتابیں ہی سمیٹ رہا تھا کہ پروفیسر صاحب کی غصے بھری آواز دوبارہ گونجی ’’بل میری بات پلے باندھ لو ،تم جتنی بھی ترقی کر لوگے ٹرک ڈرائیور سے زیادہ کچھ نہیں بن سکتے ‘‘ کلاس میں قہقہے گونجے اور بل سر جھکائے بوجھل قدموں سے کلاس روم سے نکل گیا ، صاحبو! ریاضی کا یہ بظاہر ماٹھا طالبعلم جسے یونیورسٹی کی روایات،اساتذہ کے پڑھانے کے انداز ،کلاس روم کے ماحول اور کلاس فیلوز کی گفتگو سے سخت چڑتھی اور جو اپنے اکلوتے دوست پال ایلن کے ساتھ آئے روز یونیورسٹی آنے کی بجائے سیاٹل جھیل کے کنارے بیٹھ کر اُس دنیا کے تصور میں کھویا رہتا جو دنیا اس کے خوابوں اور خیالوں میں تھی ، یہ اُس دن کلاس سے نکلنے کے بعد پھر کئی روز تک جب یونیورسٹی نہ آیا تو اس کا نام خارج کر دیا گیا ، اور جس صبح اسے اپنا نام خارج ہونے کی اطلاع ملی اسی شام وہ اپنے دوست پال ایلن سے بولا’’پال اب ہم اپنی دنیا خود بنائیں گے ‘‘اور پھر چند ماہ بعد 1975 میں اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر دنیاکی پہلی سا فٹ وئیر کمپنی کی بنیاد رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے 1980 تک نہ صرف واشنگٹن ریاست کی سب سے بڑی کمپنی بن گئی بلکہ اگلے چندسالوں میں کمپنی کی مالی پوزیشن ایسی ہوئی کہ دنیا کے 51 بینکوں کی شاخیں کمپنی دفتروں میں کھل گئیں ،تو صاحبو!وہ نالائق طالبعلم جس کے احمقانہ سوالوں پر کلاس فیلوز ہنساکرتے ، جسکے مستقبل کا سوچ کر والدین پریشان رہتے اور جو اپنے استاد کی نظر میں محض ایک ٹرک ڈرائیور تھا، اسے دنیا آج بل گیٹس کے نام سے جانتی ہے ،جی ہاں وہی بل گیٹس کہ جسے 1998 میں امریکی صدر بل کلنٹن نے یوں خراج تحسین پیش کیا کہ ’’وی آردی نیشن آف بل گیٹس‘‘وہی بل گیٹس جو 38سال کی عمرمیں دنیا کا امیر ترین شخص بن کر آج بھی دنیا کا مالدار ترین انسان ، جسکے 102 ممالک میں لاکھوں ملازمین اور جسکی کمپنی اب تک ایک لاکھ 28ہزار لوگوں کو ارب پتی بنا چکی،وہی بل گیٹس جسے دنیا کے 35ممالک میں سرابرہ مملکت کا پروٹوکول حاصل اور جو کوئی عہدہ نہ ہونے کے باوجود پچھلے 18 سال سے دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں شامل اور وہی بل گیٹس جس سے ہاتھ ملانا اور جسکے ساتھ تصویر کھینچوانا ایک اعزازاورجسے جس یونیورسٹی سے نکالا گیا آج اسی ہارورڈ یونیورسٹی کے گیٹ پر اسکے نام کی تختی لگی ہوئی ، یہا ں جو بات آپ تک پہنچانی وہ یہ کہ اسی بل گیٹس سے جب ایک بار پوچھا گیا کہ ’’اگر کوئی شخص بل گیٹس بننا چاہے تو وہ کیا کرے ‘‘ تو مسکراتا بل گیٹس بولا’’ خود اعتمادی ،مسلسل محنت اور صحیح موقع پر صحیح فیصلے‘‘تو دوستو کوئی آگے نکل گیا یا آپ پیچھے رہ گئے ، ان چکروں میں پڑنے کی بجائے یہ سیدھی سادھی بات پلے باندھ لیں کہ خود اعتمادی ، مسلسل کوشش اور صحیح موقع پر صحیح فیصلے، یقین جانیئے ناکامیاں بھی کامیابیوں میں ڈھل جائیں گی ۔

Check Also

May, Teer e Neem Kash

By Irfan Siddiqui