نیک نیت بڑھکیں
گو کہ میاں نواز شریف نے شہباز شریف کو یہ کہہ کر کہ ’’یہ اکثر نیک نیتی میں بڑھکیں ما رجائیں ‘‘ساتھ ہی یہ بھی سنا دیا کہ ’’ انہیں سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے ‘‘ مگر چیونٹی کو لپ ا سٹک لگانا، ہاتھی کو گود میں بیٹھانا، مچھر کو کپڑے پہنانا اور بیوی کو سمجھانا آسان لیکن تقریر کرتے شہباز شریف کا سوچ سمجھ کر بولنا اور بڑھکوں سے رک جانامشکل، حالانکہ شہباز شریف عمر کے اس حصے میں کہ جہاں بندہ جوتوں کے تسمے باندھتا ہوا بھی یہ سوچے کہ اب ا گر اتنا جھک ہی گیا ہوں تو کیوں نہ کوئی اور کام بھی کرتا چلوں، لیکن یہاں میاں نواز شریف بھی یہ بھول گے کہ جب انہوں نے فلموں میں کلاشنکوف پر پابندی لگائی تو سلطان راہی مرحوم وہی کام رائفلوں اور بندوقوں سے کرنے لگے جو وہ کلاشنکوف سے کیا کرتے، لہٰذا اگر شہباز شریف کو نیک نیت بڑھکوں سے روکا گیا تو وہ خراب نیت بڑھکیں مار لیا کریں گے کیونکہ شہباز شریف تووہ ماہر سیاستدان کہ جو پل پہلے تعمیر کریں، نیچے سے نہر بعد میں گزاریں، جوگھنٹی بجنے سے پہلے ہی دروازہ کھول دیں اور تقریرکرتے ہوئے جنکی ہر بات سمجھ آئے، بس یہ سمجھ میں نہ آئے کہ کس موضوع پر بول رہے، ویسے بھی اس دیس میں جہاں ٹی وی چینلوں پر بیٹھے زیادہ تر سیاستدانوں کی گفتگو سے لگے کہ اگر ان کے ازدواجی تعلقات اور گھریلو حالات بہتر ہوتے تو یہ کبھی ایسی گفتگو نہ کرتے اور جہاں سیاست سے اگر بڑھکیں نکال دی جائیں تو باقی صرف سیاستدان ہی بچیں وہاں بھلا بڑھک کو کون روک سکے اور پھر اب تو بڑھک باز سیاستدان ایسے کایاں ہوچکے کہ ایک بار لالو پرساد جب یہ بڑھک مار بیٹھے کہ ’’ میں نے بہار کی سڑکیں ہیمامالنی کے گال جیسی بنادیں‘‘ تو ایک صحافی بول پڑا’’بہار کی سٹرکوں پرتوگڑھے ہی گڑھے، لالوجی لگتا ہے کہ آپ نے بہارکی سڑکیں غور سے نہیں دیکھیں‘‘لالو بڑے اطمینان سے بولے’’بھیا لگتا ہے کہ تم نے آجکل ہیمامالنی کے گال غور سے نہیں دیکھے ‘‘۔ کافی عرصہ پہلے ایک پاکستانی سیاستدان نے جب یہ بتایا کہ فلم’’ سلطانہ ڈاکو‘‘ دیکھی تو خواہش پیدا ہوئی کہ بڑا ہو کر ڈاکو بنوں ‘‘تو ہم نے عرض کی ’’آپ خوش نصیب لوگ جن کی خواہشیں پوری ہو جائیں ‘‘، خیر یہ تو ان کا امیج، بات ہورہی زبان درازیوں کی، اپنے سیاستدانوں کو بولنے کا ایسا خبط کہ یہ بولیں اور یوں موسلا دھار بولیں کہ طاہر القادری صاحب کی تقریر سنتے سنتے ایک شخص جاکر جب آدھے گھنٹے بعد واپس آیا تو ساتھ بیٹھے دوست نے پوچھا’’ کہاں چلے گئے تھے ‘‘ وہ شخص بولا’’شیو کروانے گیا تھا ‘‘ دوست نے حیران ہو کر کہا ’’شیو کروانے گئے تھے، تقریر سے پہلے شیو کیوں نہیں کروایا‘‘جواب ملا’’تب شیو بڑھی ہی نہیں تھی‘‘۔
دوستو! اگر سیاست میں بڑھک ہٹ ہوئی تو اپنی فلم نگری میں یہی بڑھک سپرہٹ ہوئی، فلم انڈسٹری میں ویسے تو مظہر شاہ کی ’’اوئے میں ٹبر کھاجاواں پر ڈکار نہ ماراں‘‘ الیاس کاشمیری کی ’’ میں دشمن دا بی مُکا دیواں گا‘‘ اور مصطفیٰ قریشی کی ’’نواں آیا ایں سوہنیا‘‘جیسی بیسوؤں اداکاروں کی بڑھکیں بڑی مشہور ہوئیں مگر بڑھک کو جو عروج سلطان راہی کے دور میں ملا وہ نہ راہی صاحب سے پہلے اور نہ اس کے بعد مل سکا، اس دور میں سلطان راہی کی بڑھکوں کی یوں دھوم مچی ہوئی تھی کہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے ایک بار یہ کہہ کر مخالفین کو وارننگ دی کہ ’’ہم کسی کو سلطان راہی نہیں بننے دیں گے ‘‘۔ ’’مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مردا‘‘ جیسی مشہورِزمانہ بڑھک مارنے والے سلطان راہی نے کئی دہائیوں تک اپنے گلے کے زور پر فلم انڈسٹری پر راج کیا، وہ ہیرو کم ہیرو شیما زیادہ لگتے، شکل ایسی کہ چہرے پر پہلے غصہ پھر جھریاں اور پھر جھرجھریاں، اتنے غصیلے کہ پتا ہی نہ چلتا کہ گنڈاسا ان کے ہاتھ میں یاوہ گنڈاسے کے ہاتھ میں، اداکاری ان کے خون میں تھی جبکہ خون اداکاری میں، فلم میں بڑھک اور گولی مار کر تو وہ خوش ہوتے ہی لیکن وہ تو اکثر گولی کھا کر بھی یو ں مسکرا رہے ہوتے کہ جیسے بندوق کی نہیں بخار کی گولی کھائی، فلموں میں وہ پولیس اور جاگیرداروں کے ساتھ وہی سلوک کرتے جو حقیقت میں جاگیردار اور پولیس ہمارے ساتھ کریں، وہ ہر فلم میں اتنے بندے مارتے کہ فلم کے اختتام پر ہال میں بیٹھے لوگ یہ سوچ کر خوش ہورہے ہوتے کہ شکر ہے وہ بچ گئے، اُن دنوں سلطان راہی کے بغیر فلم انڈسٹری ایسی ہی تھی کہ جیسے درد بغیر سر کے بلکہ ان دنوں تو ہماری ہیروئنیں بھی ایسی ہوا کرتیں کہ بندوق پکڑ کر بڑھکیں مارتیں تو پھر ان اور سلطان راہی میں مونچھ برابر فرق ہی رہ جاتا، ہر فلم میں 2 ڈھائی سو بندوں کو اکیلے ہی پھڑکا دینے بلکہ شروع کے 15 بیس لوگوں کو تو مکوں، ٹھڈوں سے مار دینے والے سلطان راہی ہر لڑائی میں یوں فتح یاب ہوتے کہ وہ فرینچ گائیڈ یاد آجاتا کہ جو سیاحوں کو فرانس کے سرحد ی علاقوں میں سیر کراتے ہوئے وقفے وقفے سے جب یہ سنا چکا کہ ’’ یہ وہ جگہ کہ جہاں انگریز کا تو پخانہ ہارا، یہاں انگریز گھڑ سوار فوج ہاری اور اس پوائنٹ پر انگریز کی پیدل آرمی نے شکست کھائی‘‘ تب ایک سیاح بولا’’ انگریز کوئی لڑائی جیتا بھی‘‘ گائیڈ مضبوط لہجے میں بولا’’ جب تک تو میں گائیڈ ہوں، انگریز کوئی لڑائی نہیں جیت سکتا، بعد کا پتہ نہیں ‘‘۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہورہا تھا شہباز شریف کی نیک نیت بڑھکوں کا، غالباً جن بڑھکوں کی میاں نواز شریف بات کررہے ہیں ان میں سرفہرست بڑھک یہی کہ ’’ اگر چھ ماہ میں بجلی کا بحران ختم نہ کردیا تو میرا نام شہباز شریف نہیں ‘‘اور دوسری اہم بڑھک یہ کہ ’’علی بابا چالیس چور وں کا پیٹ چیر کر کرپشن کا مال نکالوں گا اور انہیں لاہورکی سڑکوں پر گھسیٹوں گا‘‘ گو کہ اس دن بڑے میاں صاحب کی ڈانٹ کھاتے شہباز شریف کی حالت دیکھ کر بے اختیار وہ دانش ور یاد آرہا تھا کہ جس نے کہا کہ’’ مجھے بچے پالنے کے 13 اصول آتے تھے، اب میرے 13 بچے ہیں اور ایک اصول بھی یاد نہیں‘‘، مگر پھر بھی ہمارا یہی خیال کہ جہاں تک بات ہے بڑھکوں کی تو شہباز شریف کو بڑھکیں مارتے رہنا چاہئے کیونکہ انکی بڑھکیں تو پھر بھی سننے والے موجود، یہاں تو ایسے بڑھک باز بھی کہ جن کے سامع ان کے گھر والے بھی نہیں اور اکثر کی دماغی حالت تو اُس پٹھان جیسی کہ جو جب مرا تو قبر میں پہلی رات 62 فرشتے آئے، 2 سوال پوچھنے کیلئے جبکہ باقی 60 سوال سمجھانے کیلئے، کہنے کامقصد یہ کہ ہمیں اس پر اعتراض نہیں کہ شہباز شریف بڑھکیں مار رہے یا بڑے میاں صاحب نے انہیں منع کر دیا، ہمیں تو اعتراض اس پر کہ نواز شریف صاحب نے شہباز شریف کی بڑھکوں کو نیک نیتی سے ماری بڑھکیں کہہ دیا، مان لیا کہ میاں نوازشریف صاحب سیاست میں آنے سے پہلے بزنس مین تھے اور مان لیا کہ بزنس مین کے ساتھ مسئلہ ہی یہ کہ Business پہلے آئے اورMan بعد میں، مگر پھر بھی یہ تسلیم کرلینا کہ ’’شہباز شریف کی سب بڑھکیں نیک نیت ‘‘ تو پھرصدر ایوب کی بڑھک ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ اور بھٹو صاحب کی بڑھک ’’اِدھر ہم اُدھر تم ‘‘سے لیکر نہال ہاشمی کی بڑھک’’ حساب لینے والوں کا یوم حساب لائیں گے، ان پر زمین تنگ کر دیں گے ‘‘ تک اپنی 70 سالہ سیاست کی ہر بڑھک کو نیک نیت ماننا پڑے گا، اب چونکہ ایسا ہے نہیں توپھر یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ باقی بڑھک بازوں کی طرح ان کی ہر بڑھک بھی مفاداتی اور جھوٹی، البتہ ان کو کچھ مارجن ضرور ملنا چاہئے کیونکہ جیسے ابراہم لنکن نے کہاکہ’’ بلونگڑے دیکھ کر لگتا ہے بلیاں صرف لڑتی ہی نہیں رہتیں‘‘، ایسے ہی کم ازکم لاہور کو دیکھ کرتو یہ لگے کہ شہباز شریف صرف بڑھکیں ہی نہیں مارتے، یہ علیحدہ بات کہ میاں برادران قوم کو میٹرو بسوں اور اورینج ٹرینوں پر بٹھا کر اس تیز رفتاری سے آگے لے جاچکے کہ اب ز ندگی کی بنیادی ضرورتوں کی سب اشیا پیچھے رہ گئیں اور میاں برادران کے ہم سفر98 فیصد لوگ اس سائیکل سوار پٹھان جیسے ہوچکے کہ جو ایک گھپ اندھیری رات میں رستہ بھول کر ایک قبرستان میں جا گھسا اورجب بڑی مشکل سے آدھے گھنٹے بعدوہ دوبارہ روڈ پر آیا تو پسینہ پونچھ کر بولا’’یاخدایا یہ کون سی سڑک تھی کہ جس پر اتنے جمپ تھے۔
مگر بڑے میاں صاحب کو یہ باتیں کون سمجھائے، وہ تو اب اُس بزرگ جیسے کہ جس سے کسی نے جب یہ پوچھا ’’قبلہ آپ ہمیشہ زمین پر ہی کیوں سوتے ہیں ‘‘توقربان جاؤں بزرگ کے جواب پر بولے ’’پترمیری مرضی‘‘، لیکن صاحبو !جہاں پھل فروشوں کا بائیکاٹ اور وطن فروشوں کے حوالے سے لمبی چپ ہو، جہاں کی گلیاں اور محلے پاناموں سے بھری پڑے ہوں، جہاں پولیو کے قطرے بل گیٹس فاؤنڈیشن بھجوائے، ٹی بی کے خاتمے کیلئے رقم گلوبل فنڈ سے آئے، تعلیمی نظام کی بہتری کیلئے یوا یس ایڈ کا پیسہ لگے، پینے کا پانی لوگوں تک خیراتی تنظیمیں پہنچائیں، غربت کا خاتمہ یواین ڈی پی، صحت کی سہولتیں ڈبلیو ایچ او اور کوڑا کرکٹ اُٹھانا ترکش کمپنی کے ذمہ ہو، جہاں سی پیک، گوادر کی ذمہ داری چین جبکہ بھارت، افغانستان، ایران اور سعودی عرب کے معاملات کسی اور کو دیکھنے پڑیں اور جہاں حکومت مدت ایسے پوری کر رہی جیسے کوئی بیوہ عدت پوری کر رہی وہاں ہمارے سیاستدان بڑھکیں بھی نہ ماریں تو کیا کریں، ہیں جی۔ ۔ ہاں جی۔