مذہب کے نام پرنوٹ نہ ووٹ
گاڑی موٹروے پر ‘ ہم خاموش جبکہ میجر عامر بول رہے تھے اوربول بھی ایسے رہے کہ دوست رؤف کلاسرا یاد آرہا تھا ‘ وہ اکثر کہے ’’اگر کسی کو بیک وقت تازہ ترین ملکی صورتحال سے آگاہ ہونا‘ اندر کی خبر یں معلوم کرنا اور ذہنی تھکن اتارنا ہو تو وہ میجر عامر سے مل لے ‘‘ بات آگے بڑھانے سے پہلے بتا دوں کہ مہربان سلیم صافی ‘ٹی وی اینکر عادل عباسی اورمیں میجر عامر کے ساتھ صوابی کے نواح میں انکے گاؤں ’’پنج پیر‘‘ جارہے تھے اور جانے کا مقصد ’’جماعت اشاعت وتوحیدو سنت‘‘ کے 3 روزہ سالانہ تربیتی اجتماع میں شرکت تھی ‘ اس جماعت کے بانی میجر صاحب کے والد شیخ القرآن مولانا محمد طاہر مرحوم جبکہ اب سرپرست میجر صاحب کے بھائی مولانا محمد طیب‘ جب وہ پاک افغان تعلقات اور ملکی سیاست ڈسکس کرچکے ‘ جب وہ شریف خاندان کے مقدموں اور پسِ پردہ ہوتی پیش رفتوں کا احوال سنا چکے اور جب وہ ’’ پنج پیر‘‘ اوراسکے گردونواح کی تاریخی حیثیت پر بات کر چکے تو ذکر چھڑا ان کے والد کا ‘ میجر صاحب بولے ’’ اپنے علاقے کے خان اور بڑے زمیندار میرے دادا نے اپنے بیٹے یعنی میرے والد کو عالمِ دین بنانے کا فیصلہ کیا تو خاندان اور رشتہ داروں نے مخالفت تو تب بھی کی لیکن جب دین کی تعلیم مکمل کر کے میرے والد پہلے پختون عالمِ دین بنے ‘ جب انہوں نے پختون بیلٹ میں فہم القرآن کی اولین تحریک کا ’’مسجد اور حجرہ ساتھ ساتھ ‘‘ کے جھنڈے تلے قرآنی سفر شروع کیا ‘جب دینی شعور عام ہوا اور جب مذہب کے نام پر کھلی دکانیں بندہونے لگیں تو روایتی مولویوں اورکچھ فتوے باز علماء جو میرے والد پر پانچواں دین ایجاد کرنے کا الزام تو لگا ہی چکے تھے اُنہوں نے حالات ایسے سنگین بنا دیئے کہ خود والدصاحب نے اس مخاصمت اور اپنے احساسات بتا کر پھر اپنی ثابت قدمی کی جو وجہ بتائی وہ سننے لائق ‘ ان مشکل ترین دنوں کے بارے میں والد صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا ’’ یہ بڑا کٹھن وقت تھا ‘ اپنے پرائے سب مخالف ہوچکے تھے ‘ بیگم کے علاوہ کوئی حمایتی نہ رہا اور ایک ایسا وقت آیا کہ میں بھی ذہنی طور پر تیار تھا کہ اب اپنے گاؤں نہیں بلکہ علاقے سے ہجرت کرکے کہیں اور چلاجاؤں ‘لیکن پھر ایک رات خواب میں حضرت ابراہیم ؑ کا دیدار نصیب ہوا ‘حضرت ابراہیم ؑ نے فرمایا ’’قرآن سناؤ‘‘میں نے سورہ حم کی ابتدائی آیتیں ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ سنائیں تو حضرت ابراہیم ؑ نے گلے لگا کر کہا’’کہیں اور نہیں جانا‘ یہیں اپنا کام جاری رکھو‘‘یوں اگلی صبح میں نے ایک نئے جوش وجذبے سے کام شروع کر دیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ 3 طالبعلموں کی کلاس سے بات ہزاروں ‘لاکھوں تک جا پہنچی اور قرآن فہمی کا دائرہ کار ’’پنج پیر‘‘سے پاکستان کیا مزار شریف اور ہرات تک پھیل گیا‘‘۔
اب ہم موٹروے سے اتر کر ’’پنج پیر‘‘ کی سٹرک پر چڑھ چکے تھے ‘ میجر صاحب بتا رہے تھے کہ ’’جب باچا خان کو کافر قرار دینے کے فتوے کے انکار پر وزیراعلیٰ سرحد خان عبدالقیوم خان کی جیل کاٹ کر شیخ القرآن مولانا محمد طاہر نے گاؤں پہنچ کر اپنا مدرسہ بند اور پولیس کے گھیرے میں دیکھا تو وہ طالبعلموں کے ہمراہ ایک درخت کے نیچے آئے ‘زمین پر چادر بچھائی اور درس کے آغاز سے پہلے خان عبدالقیوم کو مخاطب کرکے کہا’’خان صاحب صوبے کا ہر درخت میرا مدرسہ‘تم کتنے مدرسے بند کرو گے‘‘۔
پچھلے ہفتے کی اس ڈھلتی دوپہر کو ’’پنج پیر‘‘ میں داخل ہوکر جس جانب نظر اُٹھی لوگ ہی لوگ نظر آئے ‘ٹولیوں میں بٹے ‘کھڑے ‘بیٹھے اور گھومتے پھرتے‘ کوئی وضو کررہا تو کوئی نماز پڑھ رہا‘ کئی خیموں اور درختوں کے سائے میں زمین پر بستر بچھائے لیٹے ہوئے توکئی پڑھنے لکھنے میں لگے ہوئے ‘یہاں یہ بتانا ضروری کہ اس تربیتی اجتماع کی ایک خاص بات یہ بھی کہ چند ہزار کی مہمان نوازی جماعت کرے جبکہ باقی ہزاروں خواتین وحضرات کے میزبان گاؤں والے ‘ہم پہلے میجر صاحب کے اس ڈیرے پر پہنچے جہاں بے نظیر بھٹو دور میں بغاوت کا مقدمہ قائم ہونے کے بعد پنج پیر اور مختلف قبائل کے سینکڑوں مسلح افراد نے انہیں اپنے حفاظتی حصار میں رکھ کر 2 ڈھائی سال تک وفاقی حکومت کی گرفتاری سے بچائے رکھا ‘ یہاں دوپہر کے کھانے کے بعد جب مولانا محمد طیب کے پیچھے پیچھے ہم اجتماع گاہ پہنچے تو پنڈال کیا اِردگرد بھی کوئی جگہ ایسی نہ تھی کہ جہاں نظر پڑے اورلوگ نہ ہوں ‘ ویسے تو پُر جوش نعروں کی گونج میں Chargedمجمع کے سامنے مولانا سمیع الحق ‘مولانا فضل الرحمان خلیل ‘اسد قیصر ‘میجر عامر اور سلیم صافی سب نے ہی اچھی تقریریں کیں مگر میلہ لوٹا مولانامحمد طیب نے ‘قرآنی آیات ‘اقبال کے شعروں‘تاریخی حوالوں اور برجستہ جملوں سے لبا لب بھرے مولانا کے خطاب نے سماں باندھ دیا‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’ جیسے شیخ القرآن مولانا محمد طاہر نے دین کے نام پہ کھلی دکانیں بند کروائیں ویسے ہی اب ہم مذہب کے نام پر کھل چکے سپر اسٹورز بھی بند کروائیں گے ‘ہم اسلام کی آڑ میں ہر طرح کی بدعت اورہر قسم کی کرپشن کا راستہ روکیں گے ‘ مذہبی استحصال نہیں ہونے دیں گے اورکسی کو بھی مذہب کے نام پر نہ ووٹ لینے دیں گے اور نہ نوٹ‘مولانا محمد طیب نے ختمِ نبوت بل پر غفلت برتنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ قوم کو اصل صورتحال بتائی جائے اور اصل کرداروں کو سامنے لایا جائے۔
تقریریںا بھی جاری اور اجتماع بھی اپنے جوبن پر تھا‘ لیکن واپس پہنچنا ضروری تھا ‘لہٰذا اجتماع گاہ سے میجر صاحب کے ڈیرے پر دوبارہ آئے جہاں جیوپشاورکے بیورو چیف محمود جان بابر اورٹی وی میزبان سہیل اقبال بھٹی پہلے سے موجود‘گرما گرم چائے اور نامور شاعر ناصر علی سید سے ڈبل گرما گرم کلام سننے کے بعد جب واپسی کا سفر شروع کیا تو سورج آخری دَموں پر تھا ‘ اس سے پہلے کہ نمونے کے طور پر خیبر پختونخوا کی پہچان ناصر علی سید کے 3 اشعار آپ تک پہنچاؤں ‘یہ بتاتا چلوں کہ جیسے مولانا طیب کے لفظوں کی تاثیر ابھی تک ذہن میں ویسے ہی اجتماع میں لگے نعرے ’’ تیرا ساتھی ‘میرا ساتھی، سلیم صافی ‘سلیم صافی ‘‘ کی چبھن ابھی تک دل میں۔ ۔ ملاحظہ فرمائیں ناصر علی سید کے 3 اشعار !
تکلّفات کو اب بھول جائیے صاحب
یہ میرا دل ہے سہولت سے آئیے صاحب
ّّّ________
میں دشمنوں کے ستم حرف حرف کہہ دوں گا
مگر وہ کیسے کہوں دُکھ جو بھائی دیتے ہیں
ّّّ________
کچھ شہر کی شاموں میں بھی اک سحر تھا ناصر
کچھ گاؤ ں کی صبحوں نے بھی ہم کو نہ پکارا