حکمرانوں کا آب دیدہ پن
میں میاں نواز شریف کے آبدیدہ ہونے کی بات نہیں کروں گا کیونکہ بندہ اگرتیسری بار وزیراعظم بن کر بھی چادروں کے اسٹریچر بنا کر مریض لاتی اور گدھا گاڑیوں میں میتیں لے جاتی قوم کیلئے کچھ کر نہ پائے توانکا آبدیدہ ہوناتو بنتا ہے، میں بلاول بھٹو کے آبدیدہ ہونے کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اگر ان کے والدِ محترم یہ فرما کر کہ’’ وہ بی بی کے قاتلوں کو جانتے ہیں‘‘ پھر 5 سالہ اقتدار میں کچھ نہ کر پائیں تو بلاول بھٹو کا آبدیدہ ہونا بھی بنے۔
میں تو حکمرانوں کے روایتی آبدیدہ پن کی بات کررہا، آپ نے اکثر یہ سنا اور دیکھا ہوگا کہ کہیں حوا کی بیٹی کی عزت لٹی اور خبر میڈیا پر چلی تومظلوموں کے گھر پہنچ کر کیمروں کی چکا چوند روشنیوں میں مظلوم لڑکی کے سرپر ہاتھ رکھتے، لڑکی کی روتی دھوتی ماں کو تسلیاں دیتے، لڑکی کے والد کو گلے لگاتے یا ظلم کی داستان سنتے جیسے ہی کسی وزیر اعلیٰ کی آواز رندھے اور آنکھیں بھیگیں تو ٹی وی سکرینوں پر چلنا شروع ہو جائے کہ ’’ دلاسہ دیتے وزیر اعلیٰ بھی آبدیدہ ہو گئے‘‘ ،آپ کے مشاہدے میں یہ بات بھی آئی ہوگی کہ کسی بچے کے گٹر میں گرنے، غلط انجکشن یا ڈاکٹر کی غفلت پر اسپتال میں غریب کے مرنے، دورانِ تفتیش یا جعلی پولیس مقابلے، دھماکے یا ڈکیتی میں کسی لاچار کی جان جانے، کسی وڈیرے کے ہاتھوں چادر اور چاردیواری کی پامالی اور سیلابوں کی نذر ہو چکے بے کسوں کے لواحقین سے میڈیا کے سامنے تعزیت، افسوس یا دل جوئی کرتے جیسے ہی کسی وزیراعظم کا لہجہ گلوگیر اور آنکھوں میں نمی آئے تو میڈیا ڈھول پیٹنا شروع کر دے کہ ’’مظلوموں کی حالتِ زار پر وزیراعظم آبدیدہ ہو گئے ‘‘، اب ہونا تو یہ چاہیے کہ حکمرانوں کے آبدیدہ ہونے کے بعد پھر ایسا ڈنڈا چلے کہ آئندہ کوئی کسی بہن، بیٹی سے زیادتی کا سوچ بھی نہ سکے، جاگیرداریا پولیس کسی مسکین پر ظلم کے خیال سے بھی ڈرے ،ہر گٹر کا منہ بند رہے اور اسپتالوں میں انسانوں سے جانوروں جیسا سلوک نہ ہو، لیکن چونکہ ہر آبدیدہ پن، سب بڑھکیں، ساری آنیاں جانیاں اورتمام دلاسے نقلی، جعلی اور وقتی اُبال، لہذا گذشتہ 69 سالوں سے صورتحال یہ کہ صاحبانِ اقتدار پچھلے سیلاب میں جس جگہ مخلوقِ خدا کی تباہی پر آبدیدہ ہوئے ،اگلے سیلاب میں بھی ٹھیک اسی جگہ پر ٹسوے بہاتے ملے۔
اگر پھر بھی آپکو حاکموں کا ’’ آبدیدہ پن‘‘ اصلی لگے تو یہ قصہ سن لیں، سب doubts کلیئر ہو جائیں گے۔ چند سال پہلے اپنے ایک’’ بڑے صاحب ‘‘ کے ساتھ پنجاب کے اُس پسماندہ گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا کہ جہاں پولیس اہلکاروں اور زمینداروں نے ملکر دوبہنوں کو دن دیہاڑے گھر سے اُٹھا کر کئی روز زیادتی کا نشانہ بنایا، یہ خبر عام ہوئی، بڑے صاحب نے خود تشریف لے جانے کا فیصلہ کیااور مجھے یاد کہ سردیوں کی اُس دھند آلود صبح ہم سب لوگ تو وقتِ مقررہ پر ہیلی پیڈ پہ پہنچ گئے، لیکن صاحب کی آنکھ دیرسے کھلی، وہ دو گھنٹے لیٹ تشریف لائے اور تشریف لا کر ابھی سلام دعا ہی کر رہے تھے کہ انہیں یاد آیا کہ وہ تو خون پتلا کرنے اور بلڈ پریشر کنڑول کرنے والی دوائیاں کھانا بھول گئے، اب دوائی تو موجود لیکن دوائی کھانے سے پہلے چونکہ ناشتہ ضروری، لہذا صاحب کا کارِخاص مرسڈیز لے کر بھاگا اور آدھے گھنٹے بعد صاحب کے پسندیدہ ریسٹورنٹ سے براؤن بریڈ، مشروم آملیٹ اور فریش جوسسز کا cocktail لے کر حاضر ہوا، پھر اسٹیٹ لاؤنج میں ناشتہ کرتے بڑے صاحب کواچانک جب یہ خیال آگیا کہ وہ تو مظلوم لڑکیوں سے افسوس کرنے اور انہیں دلاسہ دینے جار ہے اور جو کپڑے اُنہوں نے پہن رکھے وہ ایسے کہ جیسے عید کی نماز پڑھنے جارہے تو کارِخاص کوپھر حکم مِلا، سرکاری مرسڈیز پھر بھا گی، 25 منٹ بعد صاحب کی کالی شلوار قمیض آئی، ناشتہ کرکے دوائی کھا چکے صاحب نے اسٹیٹ لاؤنج میں کپڑے بدلے اوریوں ساڑھے چار گھنٹے delay کے بعد کہیں جا کر ہیلی کاپٹر اڑا۔
مجھے اچھی طرح یاد کہ 50 منٹ بعد گاؤں کے مڈل سکول کی گراؤنڈ میں ہیلی کاپٹر اترنے اور ضلعی انتظامیہ اور علاقے کے عوامی نمائندوں کے فدویانہ استقبال کے بعد جب 20 پچیس گاڑیوں کا قافلہ متاثرین کے گھر کی جانب روانہ ہوا تو اچانک بڑے صاحب نے قافلے کا منہ اپنی ایک قدر دان کے فارم ہاؤس کی طرف موڑ دیا، اس مہربان کے ہاں پہنچے تو مکمل میک اپ میں خوشبوئیں بکھیرتی دلربا نے ’’دلبرانہ ‘‘ انداز میں میتھی کا پراٹھا کھلا اور چائے کا کپ پلا کر ڈیڑھ گھنٹے بعد جب بڑے نازبردارانہ انداز میں رخصت کیا توصاحب ایسے ہشاش بشاش ہوچکے تھے کہ گاڑی میں بیٹھتے ہی نصرت فتح علی خان کی سی ڈی لگواکر سیٹ سے ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کر لیں، لیکن 10 منٹ بعدجونہی گاڑیاں ’’مظلوم گھر‘‘ کے سامنے رُکیں تو دیکھتے ہی دیکھتے صاحب کا خوش باش چہرہ دُکھی ہوا، اُنہوں نے جلدی سے اپنی قمیض کا اوپر کا بٹن کھولا، دائیں ہاتھ سے سرکے بالوں کو بے ترتیب کیااور انتہائی غمزدہ انداز میں گاڑی سے اترتے ہوئے بڑی آہستگی سے دروازہ پکڑکر کھڑے اپنے سٹاف افسر سے پوچھا ’’میڈیا پہنچ گیا ‘‘ سٹاف افسر نے جیسے ہی ’’یس سر‘‘ کہا تو انتہائی بوجھل قدموں سے مظلوم لڑکیوں کے گھر داخل ہوکر اُنہوں نے پہلے دُکھی باپ کو جپھی ڈال کر تسلیاں دیں، روتی بلکتی ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیکر عین کیمروں کے سامنے چوما اور ایک کونے میں چارپائی پہ سہمی بیٹھی لڑکیوں کے پاس جا کر جونہی انہوں نے ان کے سرپر ہاتھ رکھا تو انکی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور پھر انہی بہتے آنسوؤں میں ضلعی انتظامیہ کو اگلے 24 گھنٹوں میں مجرموں کو پکڑنے، علاقے کے اراکین اسمبلی کو مظلوم خاندان سے مسلسل رابطہ رکھنے، 10 لاکھ کا چیک لڑکیوں کو پکڑانے اور صحافیوں سے مختصر سی گفتگو کر کے و ہ دوبارہ گاڑی میں آبیٹھے لیکن اُدھر گاڑی کا دروازہ بند ہوا تو اِدھر آنسو غائب، آنکھیں چمکیں، چہرے پر مسکراہٹ پھیلی اور وہ تروتازہ آواز میں بولے ’’نصرت فتح علی خان کی سی ڈی لگادو‘‘، سی ڈی لگی، گاڑی چلی، wet ٹشوز سے ہاتھ صاف کیئے، قمیض کے مختلف حصوں پر پرفیوم چھڑکا اور پھر کچی سڑک پر ہچکولے کھاتی گاڑی میں اک عجیب سے شرارتی انداز میں میرا کندھا دبا کر بولے ’’کیوں کیا خیال ہے واپسی پر میتھی والا پراٹھا نہ کھاتے جائیں‘‘،میں جو ابھی تک مظلوم لڑکیوں کے دُکھوں میں ہی کھویا ہوا تھا، اس وار پر ہڑبڑا کر جب صرف یہی کہہ پایا ’’جیسے آپکی مرضی‘‘ تو ایک زو ر دار قہقہہ مار کرکہا ’’یار دوپہر کو میتھی کا پراٹھا کھاتے تم جن کھا جانے والی نظروں سے میر ی دوست کو دیکھ رہے تھے، مجھے لگ رہا تھا کہ پراٹھے کے بعد میری دوست کو بھی کھا جاؤ گے ‘‘یہ کہہ کر اوپر نیچے دو تین قہقہے مارکروہ پھرسے نصرت فتح علی خان کے سروں میں کھو گئے۔ دوستو! اسی شام جب سب ٹی وی چینلز بڑھ چڑھ کر ’’ صاحب کا آبدیدہ پن ‘‘ دکھا رہے تھے تب میتھی کے پراٹھے کھاتے آنکھوں آنکھوں میں حسینہ سے ہر بات کرنے اور گانے سنتے سنتے مظلوم لڑکیوں کے گھر داخل ہوتے ہی پل بھر میں امریش پوری سے دلیپ کماربن جانے والے اپنے بڑے صاحب کا سوچ کر جہاں اس شام مجھ پر ’’آبدیدہ پن ‘‘ کی اصلیت کھلی وہاں مجھے ’’آبدیدہ ہونے والوں‘‘ کی حقیقت بھی معلوم ہوئی، مگر یہ بتا کر میں پھر یہ واضح کر دوں کہ اس روایتی آبدیدہ پن کا میاں نواز شریف کے آبدیدہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ بندہ اگرتیسری بار وزیراعظم بن کر بھی چادروں کے اسٹریچر بنا کر مریض لاتی اور گدھا گاڑیوں میں میتیں لے جاتی قوم کیلئے کچھ کر نہ پائے توانکا آبدیدہ ہوناتو بنتا ہے، میں بلاول بھٹو کے آبدیدہ ہونے کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا کیونکہ اگر ان کے والدِ محترم یہ فرما کر کہ’’ وہ بی بی کے قاتلوں کو جانتے ہیں‘‘ پھر 5 سالہ اقتدار میں کچھ نہ کر پائیں تو بلاول بھٹو کا آبدیدہ ہونا بھی بنے۔