دین بیچ کر دنیا خریدنے والے
کاش ربیع الاوّل منانے والوں کو ربیع الاوّل والے کا یہ فرمان بھی یاد رہتا کہ ’’جس نے میری سنت سے منہ موڑا ، وہ مجھ میں سے نہیں ‘‘کتنی عجیب بات ہے کہ آج نبی ؐ کی سنتوں سے منہ موڑنے والے کل نبی ؐ کی شفاعت کے خواہشمند ۔
حضرت عائشہؓ سے پوچھا گیا کہ ’’نبی ؐ کا اخلاق کیسا تھا ‘‘فرمایا ’’ آپ ؐ کا اخلاق تو قرآن تھا‘‘ ،کیا تم نے نہیں پڑھا کہ وانک لعلی خلق عظیم ’’بلاشبہ آپؐ اخلاق کے اعلی مرتبہ پر فائز ہیں‘‘،اب اتنے اعلیٰ اخلاق والے نبیؐ اخلاق کی اہمیت کچھ یوں بیان فرمائیں ’’تم میں بہترین وہ جس کا اخلاق سب سے بہتر ‘‘ اور ’’قیامت والے دن ترازو میں سب سے وزنی نیکی اخلاق‘‘ ،لیکن اخلا ق کسے کہتے ہیں ،یہ بھی نبی ؐ سے ہی سن لیں ’’اچھا اخلاق یہ کہ جو توڑے ، اس سے جوڑو، جو بُرا کرے ، اس سے بھلا کرو اور جو محروم رکھے اسے دو‘‘،یہ تو اخلاق تھا ، آپ ؐ کی تو زندگی کا ہر پہلو ہی لاجواب اور بے مثال ،جیسے آپؐ رحمدل ایسے کہ ایک مرتبہ کسی نے پوچھا ’’میں غلام کو دن میں کتنی دفعہ معاف کیا کر وں ‘‘جواب ملا’’70دفعہ ‘‘ ، حضرت انسؓ جنہوں نے 10سال نبی ؐ کے گھر کام کیا ،بتایا کرتے ’’10سالوں میں آپ ؐ نے مجھے ایک بار بھی نہیں ڈانٹا‘‘ ، ایک مرتبہ آپؐ عید کی نماز کیلئے گھر سے نکلے تو گلی میں ایک بچے کو روتا دیکھ کر پوچھا ’’کیوں رو رہے ہو ‘‘ بچے نے کہا ’’ میرا باپ جنگ میں شہید ہو چکا اور آج عید کے دن میرا کوئی نہیں ‘‘ آپ ؐ نے بچے کو پیار کر کے کہا ’’ تمہیں کیسا لگے گا کہ اگر محمد ؐ تمہارا باپ اور عائشہؓ تمہاری ماں ہو ‘‘ یہ کہہ کر اسے گھر لائے ، نہلا دھلا کر اور نئے کپڑے پہنا کر اپنے ساتھ لے کر عید گاہ گئے ‘‘،یہاں یہ بھی یاد رہے کہ حضور ؐ نے زندگی بھر کسی سے ذاتی انتقام نہیں لیا، آپ ؐ نے تو اپنے چہیتے چچا حضرت حمزہؓ کے قاتل کو معاف کردیا ، اُسے بھی چھوڑ دیا جس نے آپؐ پر جادو کیا ، اُسے بھی کچھ نہ کہا کہ جس نے آپؐ کو بکری کے گوشت میں زہر ملا کر کھلایا، غزوۂ اُحد کے دوران کافروں سے دست بدست لڑائی میں جب آپؐ کے دندان شہید اور چہر ہ مبارک لہولہان ہوگیا تو صحابہؓ نے کہا کہ’’ آپؐ کافروں کیلئے بددعا کریں ‘‘، جواب ملا ’’ میں بددعا اور لعن طعن کرنے نہیں آیا ، میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں ‘‘اور فتح مکہ والے دن اسلام کے سب سے بڑے دشمن کے گھر کو دارالامن قرار دیدیا۔
پھر عاجزی آپؐ کی شخصیت کا نمایاں حصہ ،زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے اور نہ صرف یتیموں ، مسکینوں اور بیواؤں کے ساتھ اُٹھنا بیٹھنا پسند بلکہ ان کا کام کرکے خوش ہوتے ، کو ن ہے کہ جس نے یہ حدیثِ نبوی ؐ نہ پڑھ رکھی ہوکہ آپؐ نے اپنی دوانگلیوں کو آپس میں جوڑتے ہوئے کہا کہ ’’جو یتیموں ، مسکینوں اور بیواؤں کا خیال رکھے گا، قیامت والے دن وہ ایسے میرے قریب ہو گا ‘‘،اسی طرح 9بیویو ں کے ہوتے ہوئے رسولؐ اپنے کپڑوں کو پیوندلگانے ، جوتاگانٹھنے ، گھر میں جھاڑو دینے اور آٹا گوندھنے سے تندور جلا نے تک سب کام خود کیا کرتے اور پھر رسولِؐ خدا کم گو تھے ، جب بولتے تو ٹھہر ٹھہرکر بولتے ، عمر بھر کسی کو گالی نہ دی ، ہمیشہ سلام میں پہل کی ، مریضوں کی عیادت کرتے ، جنازوں میں شرکت فرماتے اور مقروض مرنے والوں کا قرضہ ادا کرتے،حضرت عائشہؓ بتایا کرتیں کہ’’ آپؐ نے کبھی کھانے میں عیب نہ نکالا ،اچھا لگتا تو کھالیتے ورنہ کچھ کہے بغیر ہاتھ کھینچ لیتے ،گھر میں جو کچھ بھی میسر ہوتا ، کھا لیتے‘‘ ، ایک بارصرف باسی روٹی اور سرکہ ملاتو انتہائی خوشدلی سے سرکے کے ساتھ باسی روٹی کھالی اور آپؐ نے کبھی کسی کی دعوت نہ ٹھکرائی ، ایک دفعہ کسی غلام نے جو کی روٹی ا ور چربی کے خراب سالن کی دعوت دی ، آپ ؐنے وہ بھی بخوشی قبول کر لی۔
آخری نبیؐ سخی ایسے کہ ایک سائل کے سوال پر سینکڑوں بکریاں عنائیت کر دیں ، صفوان کو 100اونٹ دیدیئے ، قبیلہ ہوازن سے کچھ لیے بغیر ان کے 6ہزار قیدی لوٹا دیئے ، حضرت عباسؓ کو اتنا سونا دیا کہ وہ اٹھا نہ سکے ، غزوۂ حنین کی فتح پر حکم بن حزام نے 3دفعہ سوال کیا ،آپؐ نے تینوں دفعہ 100سو اونٹ دیدیئے اور ایک مرتبہ مالِ غنیمت سے ہزاروں درہم آئے تو شام سے پہلے سب تقسیم کر دیئے ،اب ایک طرف سخاوت کا یہ حال جبکہ دوسری طرف صورتحال یہ کہ گھر میں کبھی مسلسل 3دن چولہا نہ جلا، اکثر کھانے کو کچھ نہ ملتا تور وزہ رکھ لیتے، لیکن چونکہ نبی ؐ سے بہتر اس فانی دنیا کا کسے علم ، ایک دفعہ زمین پر پرانے بچھونے پر سوئے دیکھ کر صحابہؓ نے جب کہا کہ ’’ اے اللہ کے رسولؐ ہم آپؐ کیلئے نیا بچھونا نہ بنا دیں‘‘تو فرمایا’’نہیں ، میرا ان چیزوں سے کیا واسطہ ، میرے لیئے تویہ دنیا اس درخت جیسی کہ جس کا سایہ دیکھ کر مسافر کچھ دیر کیلئے نیچے بیٹھ کر پھر آگے بڑھ جائے ‘‘۔
یہاں یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ ختم المرسلین ؐ ؐ کا صرف باہر والوں کیلئے ہی سلوک اچھا نہ تھا بلکہ آپؐ کا تو اپنے گھر والوں کیساتھ ایسا برتاؤ کہ ہمیں یہ کہہ کر’’ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرو‘‘خود ہی یہ بھی بتا دیا کہ’’ تم سب کی نسبت میں اپنے گھروالوں کے ساتھ سب سے بہتر ہوں‘‘،اگر آپؐ مدینہ میں ہوتے تو معمول یہ کہ سب ازواجِ مطہرات کسی ایک ام المومنین کے گھر اکٹھی ہوجاتیں اور آپؐ عصر سے مغرب تک سب کے ساتھ وقت گذارتے ، ایک بار حضرت صفیہؓ کواونٹ پر سوار ہونے میں دقت محسوس ہوئی تو آپؐ نے اپنا گھٹنہ آگے کر دیا اور حضرت صفیہؓ گھٹنے پر سیڑھی کی طرح پاؤں رکھ کر اونٹ پر سوار ہوگئیں ، حضرت عائشہؓ سے دوڑنے کا مقابلہ کیا کرتے ، نواسی کو کندھے پر بٹھا کر نماز پڑھ لیتے اور امام حسنؓ اور حسینؓ سجدے کے دوران جب کمر پر سوار ہوتے تو تب تک سجدے سے سر نہ اُٹھاتے جب تک وہ خود اترنہ جاتے ۔دوستو! ایک دوسرے کی گردنیں کا ٹ کاٹ حال وبے حال ہوچکے نبی ؐ کے ہم اُمتیوں کو تو آج یہ بھی یاد نہ رہا کہ ’’مومن ، مومن کا بھائی ‘‘ اور’’ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ‘‘ ، ہم تو یہ بھی بھلا بیٹھے کہ وہ نبی ؐ جن کی علم وحکمت کے کارلائل، نپولین ،والٹیر ،ویلز، ٹالسٹائی ،گوئٹے ، لین پول اور برناڈشا بھی مدح سرا اور جنہوں نے خود بتایا کہ ’’ اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل ؑ نے میرا پیٹ چاک کرنے اوراسے آبِ زم زم سے دھونے کے بعد اس میں علم وحکمت بھرد ی‘‘، اس نبی ؐ کی روشن زندگی ہی ہمارے لیئے مشعلِ راہ نہ رہی اور پھر ہمارے حافظوں سے تو یہ بات بھی نکل گئی کہ قیامت کے دہانے پر پہنچے ہم نافرمانیوں پہ نافرمانیاں کیئے جار ہے ،ذرا جاتے جاتے پڑھ لیں کہ نبی ؐ نے قربِ قیامت کی جو نشانیاں بتائیں ،فرمایا’’ جب قیامت قریب ہوگی تو نمازیں غارت اور امین خائن ہوجائیں گے ،سو دعام ، جھوٹ فن اور ہنر کہلائے گا ،معمولی معمولی باتوں پر خونریزی اور انصاف نایاب ہو جائے گا، ریشم کے لباس پہنے جائیں گے ،طلاقوں کی کثرت اور ناگہانی موتیں عام ہوں گی اور مسلمان دین بیچ کر دنیا خریدیں گے ‘‘ کیوں کیا خیال ہے ، کیا یہ سب کچھ آج نہیں ہو رہا؟ مگر بات پھر وہی کہ وہاں ان باتوں پر کون غور کرے گا کہ جہاں ربیع الاوّل منانے والوں کو ربیع الاوّل والے کا یہ فرمان بھی یاد نہ ہو کہ ’’جس نے میری سنت سے منہ موڑا، وہ مجھ میں سے نہیں ‘‘ اورجہاں آج نبی ؐ کی سنتوں سے منہ موڑنے والے کل نبیؐ کی شفاعت کے خواہشمند ۔