بچے ہمارے عہد کے
جیسے کنوارہ ہونا اتنا مشکل نہیں جتنا کنوارہ رہنا مشکل ، جیسے خاوند کو سمجھنا اور بیوی کو سمجھانا مشکل اور جیسے جوانی میں بیوی غزل اور بڑھاپے میں پزل ، ایسے ہی بچہ ہونا کوئی مشکل نہیں ، مسلسل بچہ رہنا مشکل اور ایسے بچے کو بھگتنا تو ڈبل مشکل ،کیونکہ ایسابچہ وہ کچھ کر کے بھی نہ سوچے جو بڑا کرنے سے پہلے 100 بار سوچے اورپھر عہدِ حاضر کے بچے ۔۔یہ تو وہ کہ جن سے جِن بھی ڈریں، یہ ایسے ہنر مند اور فنکار کہ عقل دنگ رہ جائے، جیسے پولیس نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے بچے نے پوچھا ’’کون ‘‘ جواب ملا’’ پولیس والے ،دروازہ کھولو ، بات کرنی ہے ‘‘ بچے نے کہا ’’آپ کتنے لوگ ہیں ‘‘ پولیس والوں نے کہا ’’ہم 3ہیں ‘‘ بچہ بولا ’’اگر تین ہو تو پھر آپس میں بات کر لو ‘‘، ایک بچے نے جیٹ ایج کو کچھ یوں Explain کیا کہ ’’ میری دادی تانگے میں بیٹھ جاتی ہیں مگر کار میں بیٹھنے سے ڈرتی ہیں ، میری امی کار میں بیٹھ جاتی ہیں مگر جہاز میں بیٹھنے سے ڈرتی ہیں ، میں جہاز میں بیٹھ جاتا ہوں مگر جیٹ میں بیٹھنے سے ڈرتا ہوں اور میری گرل فرینڈ جیٹ میں بیٹھ جاتی ہے مگر تانگے میں بیٹھنے سے ڈرتی ہے ‘‘، ایک استاد نے سوال کیا کہ ’’اگر ٹرین کی رفتار 60 کلومیٹر فی گھنٹہ ہو تو بتاؤ میری عمر کتنی ہے ؟ اگلے ہی لمحے ایک بچہ بول پڑا ’’سر آپکی عمر 50 سال ہوگی ‘‘ استاد حیران ہو کر ’’باکل صحیح،مگر تم اتنی جلدی جواب تک کیسے پہنچ گئے ‘‘بچہ بولا ’’ سر میرے بڑے بھائی کی عمر 25 سال ہے اور وہ ہاف پاگل ہے‘‘، ابھی دو دن پہلے چوتھی جماعت کے بچے کے فیس بک پیج پر میں نے خود یہ پڑھا کہ ’’ مجھے تو وائی فائی کنکشن کے اچانک چلے جانے پر اتنا دُکھ نہیں ہوتا جتنا دُکھ تب ہوتا ہے کہ جب رات بھر ہونے والی بارش عین صبح سکول کے وقت رُک جاتی ہے ‘‘ ،اپنی آج کی نسل کیسی حضرت ہے ، ذرا اس سے اندازہ لگائیں کہ ’’آٹھویں جماعت کے لڑکے نے جب بڑے روماٹنک انداز میں اپنی کلاس فیلو سے کہا ’’ آج پتہ نہیں کیوں میرا دل تمہاری زلفوں سے کھیلنے کو چاہ رہا‘‘ تو لڑکی اپنی وگ اتار کر اسے پکڑاتے ہوئے بولی ’’ کھیل کر آج ہی واپس کر دینا ،صبح مجھے سکول بھی جانا ہے ‘‘۔
صاحبو !گو کہ یہ بچے جو پیدا ہونے سے پہلے ہی نجانے کہاں اپنا بچپن گذار آئے ان سے پوری ڈالنا بھی مشکل ،مگر ہمارے ہاں بچوں کی ایک خطرناک قسم اور بھی ، جیسے کہا جائے کہ کچھ لوگوں کا شادی کا انتظار کر کر آخر میں یہ حال ہو جائے کہ پھر شادی ہو نہ ہو لیکن شکل سے وہ شادی شدہ ہی لگیں ، ایسے ہی بچپن ،لڑکپن اور جوانی گذار کر پھر سے بچے بنے بیٹھے اپنے وہ ’’ بچے نما بابے‘‘ کہ جن پر ایسا بچپنا طاری کہ حرکتیں چھوڑیں زیادہ تر تو شکلوں سے بھی بچے ہی لگیں ، ایسا ہی ایک بچہ بنا بابا جو ہمارا پڑوسی بھی، جسکا چال چلن بچپن سے ہی ایسا کہ ایک مرتبہ ٹیچر نے کہہ دیا ’’اگر تم کسی بُرے کی صحبت میں نہیں بیٹھنا چاہتے تو اکیلے نہ بیٹھا کرو‘‘ جسکی شکل ایسی کہ شادی پر بھی جارہا ہو تو لگے کہ تعزیت کرنے جارہا ، جسکے’’ صراطِ مستقیم ‘‘پر چل نہ سکنے کی بڑی وجہ دونوں ٹانگوں کی لنگڑاہٹ ،جسکی نظرا یسی کہ نظر کی عینک لگا کر بھی بمشکل عینک ہی نظر آئے ، جسکا مزاج ایسا کہ ایک بار جب تیسری بیوی اسپتال میں داخل ہوئی تو یہ وارڈ کی ہر خاتون کے یوں اردگرد پایا گیا کہ آخری دن تک اسپتال کے عملے کو یہ پتا ہی نہ چل پایا کہ اسکی اپنی بیوی کونسی ،جو اب عمر کے اس حصے میں کہ پچھلی سالگرہ پر موم بتیاں جلاتے جلاتے جب یہ آخری موم بتی پر پہنچا تو پہلی بتی مکمل طور پر جل چکی تھی ، جسکی یاداشت کا عالم یہ کہ جب کبھی بھی اپنی طلاقوں کی تعداد بتائے تو وہ شادیوں سے زیادہ نکلے ، جو گھنٹوں ہاتھ میں پکڑی چابی اور ناک پر رکھی عینک ڈھونڈتا پھرے ،جس کا یہ دعو یٰ کہ وہ بھولنے کا علاج تو دریافت کرچکا تھا مگر بس اسے لکھنا بھول گیا ، جو اونچا سنے ہی نہ اونچا سمجھے بھی ، جو گو کہ اتنا منہ سے نہ بولے کہ جتنا آنکھوں اور ہاتھوں سے ،مگر پھر بھی سالانہ جتنے الفاظ اس کے منہ سے نکلیں ، اپنے ہاں اتنے اگر گندم کے دانے نکل آئیں تو روٹی ایک روپے کی ہوجائے ،جس کی 5منٹ کی گفتگو عام لوگوں کی گھنٹہ بھر کی گفتگو کے برابر،یعنی اتنی ہی بو رکرے ،جو ساری عمر ملنے ملانے سے یوں دور رہا کہ دوزخ جائے یا جنت اسے شائد ہی کوئی واقف کار مل پائے ، جو آج بھی کسی خاتون سے دو منٹ گفتگو کر لے تو چہر ہ یوں کھِل اٹھے کہ جیسے ابھی خون کی بوتل لگوا کر آیا ہو ، جسے جب میں یہ کہہ بیٹھا کہ ’’بابا جی آپ کے ہاتھ اتنے خوبصورت، اگر یہ کسی لڑکی کو لگے ہوتے تو اس کے حسن کو چار چاند لگ جاتے ، تب سے یہ ہاتھ کسی لڑکی کو لگانے کیلئے بے تاب ، جو ہمارے محلے کا انسان نہیں فرشتہ یعنی دوسروں کی برائیوں اور گناہوں کا حساب رکھنے والا، جسے محلے میں آئے روز کہیں نہ کہیں صلح کرواتے دیکھ کر ایک روز جب پوچھا گیا ’’صلح کروانے کیلئے کیا کرنا پڑتا ہے ‘‘ تو پوپلا سامنہ بنا کر بولا’’ کچھ خاص نہیں بس پہلے لڑائی کروانا پڑتی ہے‘‘، جو دنیا میں ا من قائم کرنے کا یہ نسخہ پیش کرچکا کہ ’’ اگر ہزاروں میل لمبی بیکار پڑ ی دیوارِ چین کے ٹکڑے کر کے فلاں فلاں ملکوں کے درمیان لگا دیں تو کم ازکم آدھی دنیا میں تو فوراً ہی امن قائم ہو جائے‘‘ اور جو زلزلوں سے بچنے کی یہ تجویز بھی دے چکا کہ ’’اپنے مکانوں کی بنیادیں زمین سے ایک فٹ اونچی ر کھو ‘‘ ، بچپنے میں لت پت ہمارا یہی بابا جس سے پورا محلہ نکونک ، پچھلے ہفتے جب یہ اپنے تازہ تازہ انجینئر بنے پوتے سے نکونک مِلا تو ہم سب کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا ،خیر وجہ پوچھی گئی ،تو بولا ’’ آج صبح نامراد(پوتے) سے جب میں یہ پوچھ بیٹھا کہ’’ پتر 4سالہ انجینئرنگ کے دوران تجھے سب سے مشکل کام کیا لگا تو بے شرم بولا’’ دادا دوستوں کے ساتھ بس کی چھت پر تیز ہوا میں ماچس کی ایک تیلی سے 3 سگریٹ سلگانا‘‘۔
صاحبو ! جب بھی آج کے بچو ں کو ذہن میں رکھ کر میں پروین شاکر کا یہ شعر پڑھتایا سنتا ہوں کہ :۔
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہوگئے
تو یقین جانیئے کہ مجھے تو نہ صرف مرحومہ پروین شاکر بڑی معصوم لگے بلکہ انکے عہد کے بچے تو کچھ زیادہ ہی بھولے دکھائی دیں ، ان کا بھلا ہمارے بچوں سے کیا موازنہ۔۔۔ آج کے بچے ۔۔۔توبہ توبہ ۔۔۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ساڑھے6 کروڑ سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں آدھے سے زیادہ بچے اور سوشل میڈیا پر ان کا سامنا کرتے ہوئے بڑے بڑے ’کھوچل ‘ بھی گھبرائیں ،دوستو! باتیں تو اور بھی بہت مگر ہزار باتوں کی ایک بات کہ جیسے آجکل جو گفتگو اسمبلیوں کے اندر ہو ،اگر وہ باہر ہو جائے تو بندہ اندر ہو جائے اور جیسے سچی عورت وہ جو اپنے وزن،عمر اور خاوند کی تنخواہ کے علاوہ کوئی جھوٹ نہ بولے، ویسے ہی آج کا ہر بچہ ایسا کہ اس سے بچنے میں ہی عافیت اور ویسے ہی آج کے بچوں کو دیکھ کر وہ ساس یاد آجائے کہ جو افطاری سے دومنٹ پہلے جب پوری افطاری بنا کر پسینے میں شرابور کچن سے نکلی تو ائیر کنڈیشن کمرے سے آنکھیں ملتی بہو نے جھانک کر کہا ’’ امی جی میرے لیئے کوئی کام ‘‘ جلی بھنی ساس بولی ’’ پترجا کوٹھے تے جا کے اذان دے آ‘‘ ۔