Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Irshad Bhatti
  3. Aqeedat O Baseerat Bhara Faisla

Aqeedat O Baseerat Bhara Faisla

عقیدت وبصیرت بھرا فیصلہ

نبی ؐ کی شان یہ کہ اللہ آپ ؐ پر درود بھیجیں اور مرتبہ ایسا کہ انبیاء ؑکے امام، باقی رہی سہی بات مولانا نعیم صدیقیؒ نے سمجھادی :

بیاں کے روپ میں قرآن آپ ؐ پہ اتراتھا

عمل کے روپ میں قرآں عطا کیا آپ ؐ نے

ناموسِ رسالت پر ایسا فیصلہ، بے مثال اورباکمال، قرآن وحدیث کی روشنی میں، صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں کو سامنے رکھ کراور آئمہ وعلماء کی آراء پر مبنی، کیا کچھ نہیں عقیدت وبصیرت بھرے ان 116 صفحات میں، بلاشبہ جسٹس شوکت صدیقی مبارکباد کے مستحق، لیکن یہ بھی سننے کے لائق کہ مقدمے کے ابتدائی لمحوں میں جج صاحب کی اپنی کیفیت کیا تھی، فیصلے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’مقدمے کی تفصیل نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے، آنکھوں کی اشک باری تو فطری ردِ عمل تھا، میری تو روح بھی تڑپ گئی، دل ودماغ پر جو بیتی اسے الفاظ میں بیان کر نے سے قاصر ہوں ‘‘، آگے چل کر جسٹس شوکت صدیقی نے مقدمے اور اپنے احساسات کو مزید یوں بیان کیا ’’چونکہ یہ مقدمہ نوعیت کے اعتبار سے اس لئے مختلف کہ اس میں عدالت کو کسی فریق کے ذاتی جھگڑے یا حق کا تصفیہ نہیں کرنا بلکہ اپنے نظرِ ثانی کے اختیار کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقا، سلامتی اور تحفظ کے ضمن میں اپنی آئینی وقانونی ذمہ داری کو پورا کرنا ہے، مقدمے کی سماعت کے دوران یہ احساس بھی دامن گیر رہا کہ رسولِ پاک ؐ کی ذات گرامی مجھ سمیت ہر کلمہ گو سے یقینا یہ سوال کر رہی ہوگی کہ جب اللہ تعالیٰ، رسولؐ اللہ، اہلِ بیتؓ، صحابہ کرامؓ اور امہات المومنینؓ سے متعلق غلیظ ترین الفاظ، بے ہودہ ترین ویڈیوز، واہیات ترین خاکے اور بدترین پوسٹس انتہائی ڈھٹائی، دیدہ دلیری اور تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا کے توسط سے پھیلائی جارہی ہیں تو تم سب کونیند کیسے آرہی ہے، تمہاری سانسوں کی آمدورفت کا تسلسل کیسے برقرار ہے، تمہاری زندگی میں روانی، شب روز میں چین وسکون اور معاملات میں توازن کیسے قائم ‘‘۔

یہ تو جج صاحب کے احساسات، مگر کتنے دُکھ اور افسوس کی بات کہ کروڑوں کلمہ گوؤں کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چند بدبخت سوشل میڈیا پر وہ کچھ کہہ اور لکھ رہے تھے کہ جسٹس شوکت صدیقی کو یہ کہنا پڑگیا کہ ’’ میرا ضمیر اور قلم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں وہ گستاخانہ مواد فیصلے میں نقل کرسکو ں اور پھر ایسا کرنے سے چونکہ مواد کو تحفظ ملنے اور تاریخ کا حصہ بن جانے کا احتمال، لہٰذا گستاخانہ مواد کو نقل کرنے سے اجتناب ہی بہتر ‘‘، یہاں یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ جب تک اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس نہ چلا اور جب تک جسٹس شوکت صدیقی نے حکومتی اداروں کو ہلانا جلانا شروع نہ کیا تب تک سوشل میڈیا پر یہ سب کچھ ہوتا رہا اور پوری حکومتی مشینری سوتی رہی، شاید اسی لئے جج صاحب کو فیصلے میں بتانا پڑا کہ ’’جب لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کے جذبات مجروح ہور ہے ہوں تب عدالت خاموش تماشائی نہیں بن سکتی، کیونکہ عدالت خلامیں سفر کرنے والے کسی سیارے کا نام نہیں بلکہ یہ تو معاشرے کی نبض شناس، پھر پاکستانی عوام کی وہ توقعات اور عزم جو دستورِ پاکستان میں ایک عمرانی معاہدے کی شکل میں موجود، عدالت اس سے پوری طرح واقف، مجھے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے جج ہونے کی حیثیت سے مقدمے کے دوران یہ فکر بھی لاحق رہی کہ کہیں کوئی کوتاہی میرے اس حلف کو داغ دار نہ کردے کہ جو میں نے دستور ِپاکستان کے تحت اللہ اور اسکے رسول ؐ کو گواہ بنا کر لیا ہوا‘‘۔

سرکاری اداروں اور انکے سربراہوں کے حوالے سے جج صاحب نے اپنے فیصلے میں کیا لکھا، ذرا یہ بھی پڑھ لیں ’’سرکاری افسران کو جب گستاخانہ مواد فراہم کیا گیا تو سب کے سب حیرت اور کرب واضطراب کی کیفیت میں پائے گئے لیکن سچی بات تو یہ کہ ریاستی اداروں کے ذمہ داروں کو نبی ؐ کی ذات ِ اطہر سے پاکستانی قوم کی وابستگی اور عشق ومحبت کی گہرائی کا صحیح اندازہ نہیں، انہیں تو شاید یہ بھی پتا نہیں کہ متقی وپرہیزگاروں کوتو چھوڑیں حضور ؐ کی ذات پر حملہ تو بظاہر دنیا دار اور گناہ گار مسلمان بھی برداشت نہیں کر سکتا ‘‘۔ دوستو! اسلام آباد ہائیکورٹ میں 27 فروری 2017 سے شروع ہو کر 31 مارچ 2017 کو ختم ہونے والے اس مقدمے میں یہ واضح ہوا کہ وہ دو دھاری تلوار جسے سوشل میڈیا کہیں، جب تعصب زدہ افراد کے ہاتھ لگے تو نتیجہ کیا نکلے اورجب نام نہاد ترقی پسند اور لبرل ہونے کے دعویدار اظہارِ رائے کی آزادی کی آڑمیں حد کراس کرجائیں تو پھر نوبت کہاں تک آن پہنچے، اسی مقدمے کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ چیک اینڈ بیلنس کے بغیر سوشل میڈیا آج کا سب سے بڑا فتنہ اور ان دنوں دنیا بھر میں اسلام اور مسلمان خاص طور پر سوشل میڈیا کا ہدف، اسی مقدمے کے دوران یہ بات بھی عیاں ہوئی کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کیلئے حکومت او ر عوام کا باہمی تعاون بہت ضروری اور اسی کیس کے دوران عدالت نے یہ کہہ کر کہ ’’ رسولؐ سے محبت اور نبیؐ کا احترام ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ، ، برملا یہ بھی کہا کہ ’’کسی شخص کو بھی توہینِ رسالت کے ملزم کے خلاف ازخود کارروائی کرنے کا کوئی اختیار نہیں اورایسا کرنے والا سزا کا مستحق‘‘۔

جسٹس شوکت صدیقی کا یہ فیصلہ اس لئے بھی قابلِ تحسین اور قابلِ تقلید کہ جہاں اس میں تفصیلاً یہ بتا دیا گیا کہ توہینِ رسالت کیوں برداشت نہیں کی جاسکتی، وہاں اس میں قانون توہینِ رسالت پر اُٹھنے والے ہر اعتراض کا مفصل جواب بھی اور جہاں اس فیصلے میں سمجھا دیا گیا کہ ناموسِ رسالت کے حوالے سے ریاست کی ذمہ داری کیا، وہاں اسی فیصلے میں غیر قانونی ردِعمل میں جرم کے ارتکاب کی روک تھام اور آئینی وقانونی راستے کی نشاندہی بھی موجود، لہٰذا یہ فیصلہ نہ صرف قانون ومذہب کے ہر طالب علم اور ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیے بلکہ میں تو کہوں گا کہ اسے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے، باقی جیسے یہ اِک حقیقت کہ جس نے ایمانِ قلبی جیسی واردات کا ذائقہ نہیں چکھا، وہ کیا جانے اللہ اور رسولؐ کی محبت اوراسے کیا معلوم بندگی کیا اور احترام کیا، ویسے ہی یہ بھی روزِروشن کی طرح عیاں کہ نبی ؐ کی محبت کے بناایمان ادھورا اور کوئی تب تک مومن ہو ہی نہیں سکتا کہ جب تک حضورؐ اسے ہر چیز سے عزیز نہ ہوجائیں، یہ میں نہیں کہہ رہا نبی ؐ نے خود بتایا، ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضور ؐ سے عرض کی ’’میں آپ ؐ کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھتاہوں، سوائے اپنی جان کے، ، آپؐ نے فرمایا’’عمرؓ کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا کہ جب تک میں اسکو اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں‘‘، قصہ مختصر دوستو! ہماری جان، مال اور آل اس نبی ؐ پر قربان کہ جن کی شان ایسی کہ اللہ درود بھیجیں اور جن کا مرتبہ یہ کہ انبیاء ؑکے امام، باقی رہی سہی بات مولانا نعیم صدیقیؒ نے سمجھادی :

بیاں کے روپ میں قرآن آپ ؐ پہ اتراتھا

عمل کے روپ میں قرآں عطا کیا آپ ؐ نے


Check Also

Jab Aik Aurat Muhabbat Karti Hai

By Mahmood Fiaz