اگر اورنج ٹرین چل پڑی
علی ٹاؤن سے ڈیرہ گجراں تک اورنج ٹرین کا ممکنہ روٹ دیکھتے دیکھتے حشرہوگیا’ تپتی دوپہر‘ٹریفک کا اژدہام اکھڑی، اُدھڑی سڑکیں اور اوپر سے تجاوزات کی بھرمار، 3 گھنٹے کے سفر نے چودہ طبق روشن کر دیئے، لیکن ان 3 گھنٹوں میں جہاں یہ تلخ حقیقت عیاںہوئی کہ لاکھوں، کروڑوں وہ لوگ جو گرمی، ٹریفک، دھوئیں، مٹی اور گردوغبار کا روزانہ سامنا کریں، ان پر کیا گزرتی ہوگی، وہاں یہی 3 گھنٹے اس نتیجے پر بھی پہنچا گئے کہ اگر 26 اسٹیشنوں والی اورنج ٹرین چل پڑی تو کم ازکم ڈھائی تین لاکھ لوگ تو روزانہ باعزت طریقے سے ائیرکنڈیشنڈ ماحو ل میں 27 کلومیٹر کا سفر 40 منٹ میں طے کرکے دھوئیں، دھکوں اور خواری سے بچ جائیں گے، اسی دوپہر جہاں یہ پتا چلا کہ اورنج ٹرین منصوبہ 1626 ملین ڈالر کا، تمام رقم 2۔ 4 فیصد شرح سود پر چینی بینک دے رہا اور یہ رقم واپس کرنا ہوگی 20 سال میں، وہاں یہ بھی معلوم ہوا کہ اورنج ٹرین کی فی کلومیٹرلاگت 59۔ 95 ملین ڈالرجو کوپن ہیگن ٹرین کی 69۔ 8 ملین ڈالر، جکارتہ ٹرین کی 117 ملین ڈالر، ، ممبئی ٹرین کی 60۔ 7 ملین ڈالر، پونا ٹرین کی 62۔ 21 ملین ڈالر اور جے پور ٹرین کی فی کلومیٹر لاگت 64۔ 3 ملین ڈالر فی کلومیٹرسے کم، اب مقدمہ بازی کی وجہ سے delayہوچکے اس پروجیکٹ پر کتنی رقم اضافی خرچ ہوگی، یہ ایک الگ بحث۔
دوستو! ہم تو ہر منصوبے کی طرح ابھی تک اورنج ٹرین سے بھی کیڑے ہی نکال رہے، فلسفے ہی بگھار رہے اور بھوکے پیٹ کو باتوں سے ہی بھر رہے لیکن دنیا میں صورتحال یہ کہ لندن میں زیرِزمین الیکٹرک ٹرین 1863ء سے چل رہی، کبھی اس پر 20 ہزار لوگ سفر کیا کرتے، اب 11 لائنوں اور 270 اسٹیشنوں والی اسی ٹرین پر 48 لاکھ مسافر روزانہ سفر کریں، پھر دنیا کی سب سے بڑی ٹرین نیویارک سٹی سب وے 1904 میں شروع ہوئی، یہ 24 گھنٹے اور 365 دن چلے، 36 لائنوں اور472 اسٹیشنوں والی اس ٹرین پر روزانہ 56 لاکھ مسافر سفر کریں اور پھر 1927ء میں چلنے والی 13 لائنوں اور 276 اسٹیشنوں والی ٹوکیو سب وے ٹرین پر ہر روز 1 کروڑ لوگ سفر کریں، اسی طرح دبئی میٹرو ٹرین چلا چکا، تہران میں میٹروجنگلہ بس کے ساتھ میٹرو ٹرین بھی چل رہی، مکہ اور مدینہ کے درمیان ٹرین چل پڑی اور ریاض میں میٹرو ٹرین کی کُھدائی ہو چکی، قصہ مختصر امریکہ سے چین تک اور منگولیا سے اسپین تک دنیا کے تمام ترقی یافتہ ملکوں کے شہروں میں جھانک لیں، جس شہر کی بھی آبادی ’’10 لاکھ ‘‘ سے زیادہ اس میں ٹرین چلتی نظر آئے۔ پھر کبھی کسی نے یہ سوچا کہ شیر شاہ سوری آج بھی کیوں زندہ، اسلئے کہ بنگال سے پشاور، لاہور سے ملتان اور دہلی سے راجپوتانے تک اس نے وہ 3 سڑکیں بنادیں جن کی اہمیت کبھی یہ تھی کہ جہاں جہاں یہ سٹرکیں، وہاں وہاں ہندوستان اور جہاں یہ سڑکیں ختم وہاں ہندوستان بھی ختم، کبھی کسی نے یہ غور کیا کہ کیسے انگریز اتنی آسانی سے اتنے بڑے ہندوستان پر حکمرانی کر گیا، اسلئے کہ گورا صاحب نے سڑکوں، پلوں، ریل، ٹیلی فون، ڈاک، ٹیلیگراف اور ریڈیو سے ہندوستان کو آپس میں جوڑکر پھر پورے ہندوستان پرایسے حکومت کی جیسے ایک شہر پر، یہ انگریز ہی تھا کہ جس نے ہندوستان میں پہلا پل تعمیر کیا اور یہ بھی انگریز ہی کہ جس نے یہاں پہلی اسفالٹ روڑ بنائی، آگے بڑھیے، اگر آپ کا تعلق دیہات، قصبے یا کسی چھوٹے شہر سے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک وہ وقت بھی تھا کہ جب گاؤں سے شہر جانے کیلئے 2 دودن منصوبہ بندی ہواکرتی، لیکن آج شہر جانا معمول اور معمولی بات اور کبھی خط لکھنے اور پڑھنے کیلئے بندہ ڈھونڈا جاتا، لیکن آج ہر گھر میں ہر ایک کے پاس موبائل کالیں آرہیں، فون ہور ہے اور ایس ایم ایس کا تو کوئی حساب ہی نہیں، یہ کیوں اور کیسے ہوا، اس لئے کہ انفراسٹرکچر نے ترقی کی، دیہات شہروں سے جڑے، فاصلے سمٹے، ترقی اور خوشحالی آپس میں شیئر ہوئی اور یوں زندگیاں آسانیوں سے بھر گئیں۔ آگے چلیے، آپ نے کبھی اس بات پر توجہ دی کہ لاہور اور کراچی کی نسبت کوئٹہ پسماندہ کیوں یا سندھ اور بلوچستان، پنجاب سے پیچھے کیوں، اسلئے کہ لاہور اور کراچی کا انفراسڑکچر کوئٹہ سے بہتر اور پنجاب کی سڑکوں کا نیٹ ورک بلوچستان اور سندھ سے اچھا، آج بلوچستان کو پنجاب والا روڈ نیٹ ورک مل جائے، صوبے میں انقلاب آجائے، اسی طرح کوئٹہ کی سڑکیں کھلی، فٹ پاتھ کشادہ اور ٹریفک کو ڈسپلن میں لا کر وہاں میٹرو بس یا ٹرین چلادیں تو کوئٹہ کی زندگی بھی لاہور جیسی ہو جائے گی، مانا کہ کسی بھی ملک اور قوم کیلئے تعلیم، صحت، روزگار اور امن وامان اولین ترجیح اور عوام کو سب سے پہلے زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ضروری مگر کیا یہ ممکن کہ روڈ نیٹ ورک، ریلوے ٹر یک، بسوں اور ٹرینوں یا مضبوط انفراسٹرکچر کے بغیر ترقی کی جاسکے، اقوام متحدہ کا سروے بتائے کہ دنیا میں جہاں روڈ نیٹ ورک بہتر اور جہاں انفراسٹرکچر ترقی یافتہ، وہاں لوگوں کی اوسط عمر زیادہ اور وہاں صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع بھی زیادہ۔
اُس دوپہر سمن آباد کے قریب اورنج ٹرین کے کُھدے ٹریک کے ساتھ کھڑے کھڑے اچانک مجھے یاد آیا کہ میرے اِردگرد دُھول اور مٹی میں کیڑوں مکوڑوں کی طرح رینگتے، ویگنوں کے پیچھے بھاگتے اور بسوں کے ڈنڈوں سے لٹکے یہی لوگ چند ماہ پہلے اورنج ٹرین کی مشینری اور حدبندیوں کو ڈنڈے اور ٹھڈے مار رہے تھے، یعنی کل جو ٹھڈے مار رہے تھے وہ آج ٹھڈے کھار ہے اور کل جنکے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے آج وہ ڈنڈوں سے لٹکے ہوئے، کسی نے سچ کہا جو زمانے کی قدر نہیں کرتا، وہ پھر زمانے کی ٹھوکروں پر، میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ جیسے یہ مطالبہ درست کہ اورنج ٹرین ٹریک بناتے ہوئے آثارِ قدیمہ کا خیال رکھنا چاہئے (اگر لندن میں 50 پچاس منزلہ عمارتوں کے نیچے مطلب زیرِزمین 3 ٹرینیں چل سکتی ہیں تو یہاں ایک کیوں نہیں ) اور جیسے یہ ڈیمانڈ جائز کہ اورنج ٹرین ٹریک سے متاثرہ ہر شخص کو اس کی زمین، مکان اور دکان کا مارکیٹ ویلیو کے حساب سے معاوضہ ملنا چاہئے، ویسے ہی سب کو یہ بھی تسلیم کر لینا چاہئے کہ اب اورنج ٹرین عیاشی، بے معنی، بے مقصد اور پیسوں کا ضیائع نہیں بلکہ غریبوں کیلئے ایک اچھا، سستا اور باعزت ذریعہ سفر، ہمارا آنیوالا کل ‘ آئندہ نسلوں کی زندگیاں بدلنے والا پروجیکٹ اور پارٹی بازی اور ذاتی پسند نا پسند سے بالاتر ہو کر اور تعصب کی ہر عینک اتار کر دیکھا جانے والا منصوبہ۔ اورنج ٹرین ٹریک کی وجہ سے کھنڈر بنی سڑکوں پر دھوپ اور دُھول کھاتے مجھے یہ خیال بھی آرہا تھا کہ ہم نجانے کیوں ذہنی اور نفسیاتی طور پرایسے ہو چکے کہ جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کی آمریت کے سامنے تو بھیگی بلی بنے رہیں مگربات کالا باغ ڈیم کی ہو تو جان دینے اور لینے پر تیار، داعش اور طالبان کیخلاف توہم کبھی باہر نہ نکلیں لیکن موٹروے، میٹرو اور اورنج ٹرین کی مخالفت میں سٹرکیں بلاک کر دیں اور صحت وتعلیم کی سہولتیں نہ ہونے یا مہنگائی اور بے روزگاری ہونے پر ہم چپ سادھے رہیں لیکن جونہی ذکر پاک چین اقتصادی راہداری کا چھڑے تو چاہے کچھ پتا ہو یا نہ ہو مگر چیخ چیخ کر آسمان سر پر اُٹھا لیں، کاش ہمیں یہی پتا چل جاتا کہ آج انفراسٹرکچر کی اہمیت یہ کہ دنیا کے سب سے مہنگے ہیرے لائبریا سے نکلیں مگر اس کا سارا کاروبار ہو پیرس میں، یعنی انفراسٹرکچر نہ ہونے پر لائبریا کواپنے ہیروں کا بھی کوئی فائدہ نہ ہو اور انفراسٹرکچر ہونے کی وجہ سے فرانس پرائے ہیروں کا منافع کھائے اور کاش ہمیں یہی علم ہو جاتا کہ امریکہ ‘ برطانیہ، جاپان، چین اور یورپ کی ترقی اور خوشحالی کی ایک بڑی وجہ ان کا مضبوط انفراسٹرکچر، دوستو! باتیں تو اور بھی بہت مگر جیسے یہ درست کہ تعلیم، صحت، روزگار سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں اولین ترجیح اور human development بہت اہم، ویسے ہی یہ بھی اِک حقیقت کہ موجودہ دور میں موٹروے، میٹرو اور اورنج ٹرین جیسے منصوبے ترقی اور خوشحالی کے ضامن، یہ دورِحاضر کی حقیقتیں اور انکے بناآگے بڑھنا ناممکن، ذہنوں میں رہے کہ یہ میاں نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان یا کسی جماعت کے نہیں یہ ملکی اور قومی منصوبے، لہٰذا بے شک آپ لوگ جہاں "In put"ہی کھا جائیں وہاں اس طرح کے "Out put" دینے والوں کو کریڈٹ نہ دیں مگر خدارا ان منصوبوں پر سیاست کریں اور نہ ان کی راہ میں روڑے اٹکائیں، کیونکہ میٹرو بس اور اورنج ٹرینیں صرف لاہور نہیں آج ہر شہر کی ضرورت، یہاں جاتے جاتے میری عدالتِ عظمیٰ سے بھی یہی درخواست کہ پاناما کیس سے چند لمحے نکال کر اورنج ٹرین پر محفوظ کیا فیصلہ سنائے تاکہ ایک سال سے التواء میں پڑایہ قومی منصوبہ شروع ہو کرپایہ ٔ تکمیل تک پہنچے اورکروڑوں لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔