نظریہ ضرورت کی تدفین
سیاستدانوں نے ماضی سے کوئی سبق سیکھا یا نہیں؟ راوی بے چارہ بوجہ شرمندگی کچھ لکھ نہیں پایا۔ عدلیہ نے البتہ منگل کے روز الیکشن کمیشن کے ایک غیر آئینی، غیر قانونی فیصلے کو کالعدم قرار دے کر یہ ثابت کیا کہ اس نے ماضی سے سبق سیکھا، جسٹس منیر، جسٹس انوارالحق اور جسٹس ارشاد حسن خان کی طرح حکمران اشرافیہ کا دبائو قبول کیا نہ خوف، مصلحت اور نظریہ ضرورت کا شکار ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر نے آئین اور قانون کی روشنی میں جو درست سمجھا، اس پر عمل کیا اور اتفاق رائے سے قوم کو بتایا ؎
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہے کہ ایک سول اور بزعم خویش منتخب حکومت نے عدلیہ کے خلاف ترغیب اور دبائو کا ہر حربہ آزمایا اور اسے آئین سے انحراف پر مجبور کیا، آئین، قانون اور جمہوریت پر شب خون کے عادی طبقات کی تائید و حمایت حکومت کو حاصل تھی اور جس ادارے کا اول آخر فریضہ الیکشن کا بروقت انعقاد ہے وہ انتخابات سے یوں بھاگ رہا تھا جیسے نالائق بچہ امتحان سے یا کوا تیر کمان سے۔
نظریہ ضرورت کی تدفین کے دن کچھ باتیں یاد آ رہی ہیں، بچپن سے سیاستدانوں، دانشوروں اور قانون دانوں سے یہ سنتے سنتے کان پک گئے کہ دوسری جنگ عظیم کے ہنگام جب برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلے گا تو انہوں نے اخبار نویس سے الٹا سوال کیا، "کیا ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں"؟ جواب ہاں میں ملا تو کہا پھر ہمیں کسی چیز سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، گویا عدالتیں آئین و قانون کے مطابق عدل و انصاف پر مبنی فیصلے دے رہی ہوں تو ریاست جنگ جیسی مہیب و مہلک مصیبت سے بھی بآسانی چھٹکارا پالیتی ہے اور جرمنی جیسا طاقتور دشمن بھی غالب نہیں آ سکتا، ہمارے ہاں مگر انصاف کی راہ میں یہ کہہ کر رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں کہ اگر عدالتوں نے حکمرانوں اور طاقتوروں کی منشا کے مطابق فیصلہ نہ دیا تو آسمان گر پڑے گا، اس فیصلے پر عمل کون کرے گا؟ وغیرہ وغیرہ۔
سرونسٹن چرچل نے جنگ کے بعد ملک میں الیکشن کرائے، بری طرح ہار گیا مگر ہمارے حکمران اتحاد کی طرح شکست کے خوف سے انتخابی عمل سے بھاگا نہ عدالتوں کو انصاف سے روکا، ٹوکا، ڈرایا دھمکایا۔ اب احساس ہوتا ہے جمہوریت کے جو علمبردار ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دور میں ہمیں آزاد عدلیہ، انصاف اور الیکشن کے اوصاف، فضائل اور فوائد بتاتے رہے وہ سب کے سب یا ان میں سے زیادہ تر نوسرباز اور مفاد پرست تھے ورنہ آج بھی وہ من پسند فیصلوں کی خواہشمند حکمران اشرافیہ کے ساتھ کھڑے نظر آتے نہ نظریہ ضرورت کے حق میں دلائل تراش رہے ہوتے۔
1997ء میں مسلم لیگ ن حکمران تھی اور ایک آزاد منش چیف جسٹس کے خلاف نبرد آزما جس کے سر پر عدالتی فعالیت کے ذریعے انتظامیہ اور دیگر اداروں کو آئین و قانون کے تابع رکھنے کی دھن سوار تھی، سجاد علی شاہ کے برادر ججز نے اصولی موقف کو خیر باد کہہ کر "وصولی موقف" اپنایا، آئین و قانون کے بجائے "سٹیٹس کو" کا ساتھ دیا اور ملک میں"حق طاقت نہیں، طاقت حق ہے" کے نظریہ ضرورت کو پروان چڑھایا جس کا نتیجہ 12 اکتوبر کے بعد خود بھگتا اور قوم کو بھی بھگتنا پڑا۔
آج بھی حالات مختلف نہیں لیکن غنیمت ہے کہ تین رکنی بنچ اور چیف جسٹس کو اس صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جس کا سامنا سجاد علی شاہ نے کمرہ عدالت میں کیا اور اپنے منصب سے معزول ہو گئے۔ ہم اس لحاظ سے بدنصیب قوم ہیں کہ آزادی کے 75سال بعد بھی آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور عدالتی فیصلوں کی تکریم کا اسلامی، انسانی اور جمہوری تصور ہمارے ذہنوں سے کھرچنے کا عمل جاری ہے اور اس سفاک اشرافیہ کو دلائل وہ طبقہ فراہم کرتا ہے جس کی علم و دانش اور قانون و اخلاقیات پر اجارہ داری ہے، علمائ، دانشور اور قانون دان۔ لیکن موسم بہار میں آج کے فیصلے سے امید کی کونپلیں پھوٹی ہیں اور مایوسی کے اندھیرے کسی نہ کسی حد تک چھٹے ہیں ؎
روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں
گلشن میں چاک چند گریباں ہوئے تو ہیں
اب بھی خزاں کا راج ہے لیکن کہیں کہیں
گوشے رہ چمن میں غزلخواں ہوئے تو ہیں
پاکستانی تاریخ میں دبنگ فیصلے جب بھی آئے فضا ایسی بنائی گئی کہ ہرسو "ان پر عمل کون کرے گا" کا راگ سنائی دینے لگا تھا مگر 1993ء کا تاریخی فیصلہ ہو جسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے غلام اسحاق خان اور اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لیے حمک کا نتیجہ قرار دیا، 2007ء میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کا فیصلہ، یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت کی فرد جرم اور پانامہ کیس میں میاں نوازشریف کی معزولی کے حوالے سے عدالتی احکامات، سب پر من و عن عمل ہوا اور کسی کو انکار کی جرأت نہ ہوئی۔
فیصلہ آنے کے بعد آج بھی سینہ کوبی جاری ہے اور "عمل کیسے ہوگا" کا درباری راگ اونچے سُروں میں الاپا جارہا ہے۔ مجھے مگر کامل یقین ہے کہ اس فیصلے پر بھی اس کی روح کے مطابق عمل ہوگا اور کوئی فرد یا ادارہ نیوکلیئر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو جنگل میں تبدیل کرنے کی احمقانہ کوشش نہیں کرے گا جہاں صرف طاقت کا قانون چلتا اور پرامن باسیوں کو جان کے لالے پڑے رہتے ہیں۔
پاکستان اس وقت جس سیاسی، سماجی اور معاشی بحران کا شکار، اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے اس سے نمٹنے کی واحد صورت بھی یہی ہے کہ قانون کی حکمرانی سے عوام کو ریاست کی پشت پر لا کھڑا کیا جائے، وہ کسی مایوسی اور بے یقینی کا شکار نہ ہوں اور ہمارے دشمنوں کو اداروں کے ٹکرائو کی صورت میں شب خون مارنے کا موقع نہ ملے۔ پاکستان انتخابی عمل کے ذریعے وجود میں آیا اور ایک آئین پسند قانون دان نے اس جدوجہد کی قیادت کی۔
آل انڈیا مسلم لیگ اس اندیشے کی بنا پر انتخابی عمل سے الگ تھلگ رہتی یا 1946ء کے انتخابات کو رد کر دیتی کہ کانگرس اپنی طاقت و اکثریت، وسائل اور انگریز کی پشت پناہی کی بنا پر الیکشن جیتے گی اور مسلم لیگ مسلم عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گی تو پاکستان کا قیام خواب ہی رہتا۔ انتخابی نتائج سے انکار نے 1971ء میں ملک کو دولخت کیا اور جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کو بروئے کار لا کر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار کی۔
عدلیہ نے ماضی سے سبق سیکھا، جسٹس منیر اور اس کے نظریہ ضرورت کو گہرا دفن کر دیا اب ہمارے سیاستدان اور حکمران بھی اپنی اور دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھیں، پاکستان کو دلدل سے نکالیں، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائیں اور اس تاثر کو دور کریں کہ محض انتخابی شکست سے گھبرا کر، عمران خان کے ڈر سے وہ انتخابات سے گریزاں ہیں، آئین شکنی پر آمادہ۔ 1997ء میں بے نظیر بھٹو اور 2002ء میں میاں نوازشریف کی جماعتوں کو دو درجن سے کم نشستیں ملیں، کیا ان کی سیاست ختم ہوگئی؟
دونوں کو پھر اقتدار ملا، کسی حقیقی اور جمہوریت پسند حکمران کے لیے ایک الیکشن میں ہار جیت کیا معنی رکھتی ہے۔ ہاں البتہ نیت کے کھوٹ اور سیاست سے دائمی فراغت کے خوف کا کوئی علاج نہیں، لقمان حکیم کے پاس بھی نہیں۔ (پس تحریر: ۔ وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کا فیصلہ اقلیتی قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔ اگر یہ اطلاع درست ہے تو اس کا مطلب ملک کو بنانا ری پبلک بنانے کا بیڑا موجودہ حکمران اتحاد نے اٹھا لیا یا شوق شہادت ہے کہ وزیر اعظم کو چین نہیں لینے دے رہا۔ کیا شہباز شریف جیسا عملیت پسند حکمران قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے؟)