میچ جاری تھا، ہے اور رہے گا
اَن پڑھ تو رہ گئے ایک طرف، یہاں تو باقاعدہ پڑھے لکھے بھی بات کرنے سے پہلے سوچنے کے عادی نہیں۔ وجہ اس کی غالباً یہ کہ ہمارا نظام تعلیم ہے ہی "سوچ دشمن" مکھی پہ مکھی مارنا، رٹا بازی اور لکیر کا فقیر ہونا بچپن سے ہماری روحوں میں گھسا دیا جاتاہے۔
"اوریجنل تھنکنگ" کی حوصلہ افزائی تو خاک ہوگی، ننگے ترین تضادات بھی ہمیں دکھائی نہیں دیتے اور اصیل مرغے پوری پوری زندگی ایک ٹانگ پر گزار دیتے ہیں۔
عام "لنڈا بازار" تو سال میں سردیوں کے دوران چند ہفتے ہی گرم رہتا ہے جبکہ فکری لنڈا بازار "ارائونڈ دی کلاک" کام کرتا ہے۔ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ ہم جیسی اور ترقی یافتہ قوموں میں بنیادی فرق کیا ہے؟ تو عرض کیا "ہم منجمد اور وہ بہتے پانیوں جیسے لوگ ہیں۔ ہم چلتے نہیں اور وہ رکتے نہیں۔
ہم صدیوں سے "ٹھٹھرے" ہوئے ہیں اور کوئی چھوٹی موٹی آنچ ہمیں پگھلانے کے لئے کافی نہیں، ذرا تیز آنچ کی ضرورت ہے تاکہ ہم پگھلنے کے پراسیس سے گزر کر پھر سے رواں دواں ہو سکیں۔
فرق وہی ہے جو جمی ہوئی برف اور پانی کی روانی میں ہوتا ہے۔"سب آنکھ کا دھوکہ ہے روانی تو نہیں ہےدریا میں فقط ریت ہے پانی تو نہیں ہےجہاں سوال کرنا محال بلکہ ناممکن ہو وہاں تخلیق تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتی ہے اور جہاں سوال کرنا گناہ کے مقام سے بھی گزر جائے وہاں ارتقا تو کیا سیدھی سادی بقا کے سامنے بھی سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ جمنے اور بہنے کی وضاحت کرتے ہوئے ایک بے حد دلچسپ، ہلکی پھلکی سی بات آپ کے ساتھ شیئر کرتا ہوں کہ ٹیکنالوجی خصوصاً "آئی ٹی"میں شدت آنے کے بعد انگریزی زبان میں بہت سے ایسے لفظ بہت عام بلکہ مقبول ہوتے جا رہے ہیں جن کا کسی ڈکشنری میں وجود ہی نہیں مثلاً انگریزی کا لفظ "SELFISH" جو ہم اکثرسنتے ہیں جس کا مطلب ہے خود غرض۔
اس لفظ سے انسپائر ہو کر گوروں نے ایک نیا لفظ "CELLFISN" متعارف کرایا جس کا مطلب ہے اک ایسا شخص جو محفل میں موجود ہر شخص کو نظر انداز کرتے ہوئے سیل فون میں مگن ہو کر سب کو بھول جائے۔
انٹرنیٹ "INTERNET"سے تو ہم سب واقف ہیں بلکہ سچ پوچھیں تو اس بیماری کے ایسے مخلص مریض ہیں کہ علاج اور شفا کی خواہش بھی نہیں۔ اسی "INTERNET"سے تنگ آ کر، متاثر یا انسپائر ہوکر گوروں نے ایک انتہائی خوب صورت اصطلاح "INTERNEST"ایجاد کی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ "NEST"گھونسلے کو کہتے ہیں اور "انٹرنیسٹ" کہتے ہیں کمبل، تکیے، گدیوں کے اس دائر کو جو "انٹرنیٹ" میں کھویا ہوا شخص لاشعوری طور پربستر میں اپنے گرد بنا لیتا ہے۔ اسی طرح BRAINSTORMING کے سامنے BLAMESTORMINGنے مورچہ لگا لیا ہے۔
WARDROBEکہتے ہیں کپڑوں کی الماری کو جبکہ کاہلی سستی کے مارے ہوئے بہت سے لوگ کپڑے اتار اتار کر کرسی پر ڈھیر کئے جاتے ہیں تو اس کے لئے بھی "CHAIRDROBE"۔ ’
’ایپی لیپسی" کے مقابلہ پرایک اصطلاح لانچ کی گئی "CARCOLEPSY" جو ان لوگوں کے بارے میں استعمال ہوتی ہے جنہیں کار کے چلتے ہی اونگھ یا باقاعدہ نیند آنے لگتی ہے۔
NARCISEXUALکا لفظ ان خواتین و حضرات کے لئے استعمال ہوتا ہے جو خود اپنے عشق میں مبتلا ہوتے ہیں اور زندگی بھر اپنے طواف میں ہی مصروف رہتے ہیں یعنی ....."جدھر دیکھتا ہوں ادھر میں ہی میں ہوں " یا جن کا منشور ہی یہ ہوتا ہے کہ "آئو سب مل جل کر میرے بارے میں باتیں کریں "۔
"CONVERSATION"کا جڑواں بھائی "NONVERSATION" بھی میدان میں ہے۔ مطلب اک ایسی گفتگو جو بالکل ہی بے معنی ہو۔
قارئین!منجمد ہونے اور رواں دواں رہنے میں یہی فرق ہے کہ "سوچنے" کے مریض تو اپنی زبان کو بھی منجمد نہیں ہونے دیتے بلکہ بدلتے ہوئے زمانوں اور حالات کے ساتھ ساتھ اسے تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
نئے لکھنے والوں کو چاہیے کہ نئے حالات اور نت نئے ٹولز اور آلات کے مطابق نئی لغت متعارف کروائیں کہ ہم تو گلیشیئرز ہیں۔ گرداب نہیں۔ حالت ہماری یہ کہ سرعام اس بے تکی، بے بنیاد بات سے باز نہیں آتے کہ "پاکستانی جمہوریت میچور ہو چکی ہے" حالانکہ جمہور کہتے ہیں عوام کو اور اگر جمہورہی جہالت کے سمندر میں ڈبکیاں کھا رہا ہے تو جمہوریت کہاں سے عاقل و بالغ ہوگئی۔
ہماری نام نہاد اشرافیہ کی تو سب سے بڑی سازش ہی یہ رہی ہے کہ جمہور کو جاہل رکھا جائے۔ سسٹم کو چلانے کے لئے جتنے کلرکوں، بابوئوں، صاحبوں کی ضرورت ہے تقریباً اتنے ہی لوگوں کی رسائی خواندگی تک ہو اور وہ بھی اس طرح کہ "آرٹ آف تھنکنگ" کی انہیں بھی ہوا نہ لگے کیونکہ "آئوٹ آف بوکس تھنکنگ" بغاوت کو بھی جنم دے سکتی ہے۔
اکثریت کو جاہل رکھ کر اقلیت کو سوچی سمجھی تعلیم دو تاکہ "فرماں بردار" ....."تابعدار" ....."العرضے" اور "فدوی" پیدا ہونے بند نہ ہو جائیں۔
اس جمہوریت کی بلوغت کا تصور ہی پاگل پن ہے جس میں "عام ووٹر" کو نیک و بد، سیاہ و سفید کی سرے سے کوئی سینس ہی نہ ہو۔"ووٹر کے غیر بالغ" ہوتے ہوئے جمہوریت کی بلوغت فکری بانجھ پن کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ........ میچور جمہوریت نہیں صرف اس کے مینوفیکچررز، سپلائرز اور ہول سیلرز یا ری ٹیلرز ہیں۔
ایوان سے آئین اور آئین سے ایوان تک "میچور مافیاز" کے مختلف کلب ہیں جن کے درمیان میچ جاری تھا، جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا۔ عوام صرف تماشائی۔ تازہ ترین اعلان اس ضرورت بلکہ ایمرجنسی کا ہے کہ ادارے اپنی حدود میں رہیں تو حضور! ملک کیا اور ادارے کیا کہ یہاں تو کائنات بلکہ کائناتیں چل ہی صرف اس لئے رہی ہیں کہ اپنی اپنی حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں۔
جس دن انہیں حدود سے تجاوز کا حکم ملا، وہی تو روز محشر ہوگا جب پہاڑ روئی کے گالے بن جائیں گے اور زمین ادھیڑ دی جائے گی۔