لاہور پولیس، بجلی کے صابرین اور گورے کی جگتیں
چڑیلوں، پچھل پیریوں اور بُھوتنیوں جیسی مکروہ اور ڈرائونی خبروں کے ہجوم میں دور کہیں اک ہنستی مسکراتی خبر دکھائی دی جسے پڑھ کر عرصہ بعد آسودگی کا احساس ہوا۔
آپ کے ساتھ شیئر کرنا اس لئے ضروری کہ آپ بھی ٹینشن کے اس ماحول میں کچھ ریلیکس کر سکیں۔ کیا یہ بہت ہی سکون بخش بلکہ قابل فخر بات نہیں کہ اک اہم عالمی ادارہ نے بھی اس حقیقت کی تصدیق کر دی ہے کہ میرا، آپ کا، ہم سب کا لاہور 90درجہ بہتری کے ساتھ کرائم ریٹ کے حوالہ سے بلکہ یوں کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ جرائم کی شرح میں کمی کے حوالہ سے ڈھاکہ (کرائم ریٹ 66.58)، کوالالمپور(66.21)، دہلی (58.57)، برمنگھم (58.22)، واشنگٹن (56.66)، لاس ویگاس (54.30)، مانچسٹر (54.29)، تہران (53.51)، روم (52.94)، سان فرانسسکو (52.90)، لندن (52.70)، استنبول (47.47)، ممبئی (42.15)، بیجنگ (40.67)، یروشلم (37.33) سے بھی زیادہ محفوظ شہر قرار دیا گیا ہے۔
"اچے برج لہور دے" سدا سلامت رہیں۔ تھینک یو لاہور پولیس، سی سی پی او، بی اے ناصر اور آئی جی کیپٹن عارف۔
میڈیا پولیس کی کمزوریاں ہی ہائی لائٹ نہیں کرتا، عمدہ کارکردگی پر اسے فراخدلی سے خراج تحسین بھی پیش کرتا ہے۔ سیف سٹی فیملی کو بھی مبارک ہو، اس تصور کو متشکل کرنے والوں کو بھی شاباش۔
شہری امید کرتے ہیں کہ "سیف سٹی" کا تصور خوشبو کی طرح بتدریج پورے صوبے میں پھیلتا جائے گا۔ بین الاقوامی کرائم واچ ڈاگ (NUMBEO) کے تازہ ترین کرائم انڈیکس میں وینزویلا کے شہر کراکس کو بدستور نمبرون شہر قرار دیا گیا جہاں جرائم کی شرح 84.83 ہے۔ عالمی ادارے کی رپورٹ کا دلچسپ ترین حصہ یہ ہے کہ ابوظہبی دنیا کا محفوظ ترین شہر ہے جہاں کرائم ریٹ صرف 11ہے۔ ورلڈ کرائم انڈیکس میں کرائم ریٹ کے لحاظ سے قطر 11.42، دبئی 17.13۔
اس بین الاقوامی سروے میں 2019 کے اوائل میں لاہور کے اندر کرائم کی شرح 42.06 اور 2018 میں 46.90 ظاہر کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ اس سروے میں مختلف انڈی کیٹرز کی بنیاد پر انتہائی سائنٹفک انداز میں کرائم ریٹ کا تعین کیا جاتا ہے اور اس کے اعداد و شمار کو دنیا کے مستند و مختلف قسم کے ادارے حوالے کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں اور اسی انڈیکس کی روشنی میں مختلف حکومتیں اپنے شہریوں کو مختلف شہروں میں جانے نہ جانے کے مشورے ہی نہیں دیتیں بلکہ ان اعداد و شمار کا غیرملکی سرمایہ کاری سے بھی گہرا تعلق ہوتا ہے کیونکہ کاروبار، سرمایہ کاری کی اولین ترجیح "تحفظ" ہوتی ہے۔
پچھلے دنوں نیلا گنبد انارکلی میں خاتون سکھ یاتری کے ساتھ رہزنی کی کوشش لاہور پولیس ڈولفن سکواڈ کے نوجوانوں نے موقع پر ناکام بنا کر ملزموں کو گرفتار کر لیا جس کا اعتراف کرتے ہوئے بھارتی میڈیا نے بھی پنجاب پولیس کی کارکردگی کو سراہا۔
شاباش ڈولفن!شاید میں پہلے بھی کسی اور حوالہ سے یہ لکھ چکا ہوں کہ جہاں انسان ہوں گے وہاں جرائم، کرپشن اور گناہ بھی ضرور ہوں گے۔
سو فیصد کرائم، کرپشن فری معاشرہ ناممکنات میں سے ہے اور کوئی احمق ہی اس کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ ان مکروہات کو کم سے کم سطح پر یعنی کینڈے میں رکھا جائے۔
میرے نزدیک لاہور پولیس کی یہ اچیومنٹ غیرمعمولی ہے کیونکہ یہ اس امید کو بھی تقویت دیتی ہے کہ اگر یہ ہدف لاہور میں حاصل کیا جا سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پنجاب اور باقی صوبوں میں بھی حاصل نہ کیا جا سکے۔ خصوصاً کراچی جو "کاروبار" میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت کا حامل ہے۔
باصلاحیت لیڈر شپ اور ٹیکنالوجی کا امتزاج اس بظاہر ناممکن کو ممکن بنا سکتا ہے۔ قارئین!ہمارے ہاں یہ تو ممکن ہی نہیں کہ دال بغیر کوکڑو کے، کباب بغیر ہڈی کے اور دودھ بغیر مینگنیوں کے نصیب ہو اس لئے اچھی خبر کے ساتھ ساتھ اک بری خبر بھی لازمی ہے تاکہ اس ملک، معاشرہ اور تبدیلی سرکار کو کسی کی "نظر" نہ لگے۔
ہم سب کی فیورٹ تبدیلی سرکار کی تازہ ترین تبدیلی یہ کہ بجلی 1.83 روپے فی یونٹ مہنگی کر دی گئی ہے۔ صارفین بلکہ صابرین پر زیادہ نہیں صرف 24ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اضافہ ستمبر کے فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا جس کی وصولی صابرین و صارفین سے ستمبر کے بلوں میں کی جائے گی۔
نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا جس کے ساتھ ساتھ "ریاست مدینہ" کی طرف سفر بھی جاری ہے اور یاد رہے "ریاست مدینہ" میں بجلی نہیں ہوتی تھی اس لئے خیر ہے۔ آخری خبر ففٹی ففٹی ہے یعنی نہ پہلی خبر کی طرح خوش کرنے والی نہ دوسری خبر کی طرح خراب کرنے والی۔ اس خبر پر جس کا دل چاہے بغلیں بجائے کہ اس کا عظیم قائد اور "پنجاب سپیڈ" کا چیمپئن شہباز شریف کتنا "سمارٹ" اور "واٹر پروف" ہے۔
جس کا جی چاہے مونہہ بنائے کہ اتنے گندے گھنائونے الزام کے جواب میں بھی شہباز شریف برطانوی عدالت سے رجوع کیوں نہیں کر رہے۔ آپ کو یاد ہو گا کچھ عرصہ پہلے برطانوی اخبار "ڈیلی میل" کے ایک صحافی ڈیوڈ روز نے شہباز شریف پر زلزلہ زدگان کی امداد میں قینچی مارنے کا الزام لگایا تھا جس پر شہباز شریف نے عدالت جانے کی دھمکی دی اور ایک ہوائی قسم کا خط بھی لکھا تاکہ ڈنگ ٹپایا جا سکے کیونکہ عوامی یادداشت کو مدتوں سے لقوہ ہے۔
شہباز شریف کی سٹرٹیجی سو فیصد درست تھی کہ چند ہفتوں میں "غیور باشعور" عوام یہ واردات بھول جائیں گے لیکن اس گندے گورے کو دیکھیں جو پاکستانیوں کو یہ شرمندگی بھولنے ہی نہیں دے رہا بلکہ سوشل میڈیا پر مسلسل جگتیں مارے جا رہا ہے۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ایک "دھیلے کی کرپشن" نہ کرنے والے "مسٹر پنجاب سپیڈ" کو انگلینڈ جانا پڑ گیا اور اس برطانوی صحافی ڈیوڈ روز کی تو جیسے لاٹری نکل آئی۔
ڈیوڈ کہتا ہے اور سر عام کہتا ہے کہ"سنا ہے میاں شہباز شریف لندن تشریف لا رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ عدالت میں جا کر میرے خلاف اپنی دھمکی کے مطابق کیس ضرور کریں گے" ٹویٹر پر پاکستانیوں کو پیغام دیتے ہوئے ڈیوڈ کہتا ہے "جہاں تک میرے خلاف ہرجانے کے کیس کا تعلق ہے شہباز عدالت میں ہی نہیں آئے جبکہ DFID کے فنڈز میں جس فراڈ کا میں نے حوالہ دیا، DFID نے بھی اس کی تردید نہیں کی۔ "
قارئین! ہم کیسے لوگ ہیں جو کیسے کیسوں کو کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ سادہ سی بات ہے چلو مان لیا پاکستان میں ان پر بننے والا ہر کیس بوگس اور جھوٹا ہے لیکن ان کے "سیکنڈ ہوم" انگلستان میں جو غلیظ الزام لگا، اس پر ری ایکٹ نہ کرنا چہ معنی دارد!