دورہ کی کامیابی نہیں ریکوری، ٹی ٹی نہیں ٹکٹکی
قدم قدم پر خیال آتا ہے کہ ن لیگ کے نٹ بولٹ بری طرح ڈھیلے ہوتے جا رہے ہیں اور اگر سلسلہ یونہی جاری رہا تو اتفاق فائونڈری میں تیار ہوا یہ مصنوعی سیاسی شہکار پھر سے سکریپ میں تبدیل ہو جائے گا۔ کچھ ن لیگیئے ایرینا اسٹیڈیم میں عمران خان کے خطاب کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کچھ بھانڈوں کی طرح جگتیں مار رہے ہیں اور کچھ اسے موچی دروازہ سے ملا کر اپنی جہالت کی وجہ سے لاہور کی سیاسی تاریخ کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ ساری نوٹنکی لیگ"سرکاری دورہ" پر واشنگٹن پہنچ جائے تو بھی یہ "ڈھیٹ" قسم کا اسٹیڈیم بھرنا ان کیلئے بہت مشکل ہو گا جبکہ پومپیو نے عمران خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن کے ایرینا اسٹیڈیم میں آپ کا استقبال اک راک سٹار کی طرح ہوا۔ ن لیگ کا اصل رونا اور ماتم بھی یہی ہے کہ اتنی مہنگائی اور نامساعد ترین حالات کے باوجود جس کا استقبال راک سٹار کی طرح ہو رہا ہے، کل حالات نارمل ہوجانے کے بعد کیا ہو گا؟یہ شاید عجائب گھروں میں رکھے جانے کے قابل بھی نہ رہیں گے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کے ایسے ایسے بھیانک کرتوت سامنے آئیں گے کہ الامان الحفیظ۔ آگے آگے دیکھئے۔ بڑی جھک یہ کہہ کر ماری کہ ایرینا اسٹیڈیم کو حقارت سے موچی دروازہ قرار دیدیا جو لاہور اور لاہوریوں کی بدترین توہین اور ان کے بزرگوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ پہلی بات یہ کہ موچی دروازہ دراصل موتی دروازہ ہے جو عوام کی لاعلمی کے سبب موچی دروازہ مشہور ہوا حالانکہ اپنے دلیر محافظ اعلیٰ موتی کی وجہ سے اوریجنلی یہ موتی دروازہ ہے جس کے محافظ نے اس کی حفاظت کیلئے سردھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ عوام اس طرح کی بات کریں تو قابل فہم ہے لیکن جب ان کی "رہنمائی" فرمانے والے بھی ایسی جھک ماریں تو افسوس ہوتا ہے۔ یہاں ضمناً یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یکی دروازہ کا اصل نام بھی ذکی دروازہ ہے جس کے بارے مشہور ہے کہ اس کے محافظ ذکی نے اس کی حفاظت کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی زندگی یوں قربان کی کہ سرکٹنے کے کچھ دیر بعد تک اس کا دھڑ شمشیر زنی کے جوہر دکھاتا رہا۔ موتی دروازہ کو موچی دروازہ بھی مان لیں تو اس کی تاریخ ایسی ہے کہ کوئی سیاسی ورکر اس کا احترام کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ وہ مقام ہے جسے تحریک پاکستان میں بھی اک خاص مقام حاصل ہے۔ گزشتہ نصف پون صدی میں شاید ہی کوئی قابل ذکر شخصیت ہو جس نے اسے رونق نہ بخشی ہو لیکن جہالت اور اندھی نفرت اس طرح اکٹھی ہو جائے جیسے ن لیگ میں اکٹھی ہو گئی ہے تو یونہی ہوتا ہے۔ چلتے چلتےیہ بھی سن لیں کہ آصف علی پوتا مرحوم میرے چھوٹے بھائیوں کی طرح تھا۔ اس زمانہ میں جب اس نے کالم نگاری کا فیصلہ کیا تو مجھ سے بھی بات کی۔ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ اگر واقعی کالم نگاری میں کچھ کرنا ہے تو قصوں کہانیوں سے کام نہیں چلے گا، آوارہ گردی کم اور پڑھائی زیادہ کرنا ہو گی کیونکہ "لکھنے" کیلئے "پڑھنا" اشد ضروری ہے ورنہ ہم میں نہ کوئی غالب نہ منٹو، اتفاق رائے کے بعد آصف علی پوتا سے میرا اگلا سوال یہ تھا کہ کالم کا عنوان کیا ہو گا کیونکہ کالم کا عنوان کالم نگار کی شخصیت کا عکس ہوتا ہے۔ پوتا نے جواب دیا "موچی دروازہ " مجھے بہت اچھا لگا لیکن میں یہ کہنا ہرگز نہیں بھولا کہ عنوان بہت بھاری ہے، اس سے انصاف کرنا آسان نہ ہو گا۔ مختصراً یہ کہ عمران خان کے دورہ امریکہ کی کامیابی کے حاسدوں کو حدودوقیود بھولتی جا رہی ہیں۔ بہتر ہو گا آنے والے دنوں کی تیاری کریں جو شاید آج کے دنوں سے بھی زیادہ لمبے اور دھوپ دار ہوں گے۔ ان کے تو لیڈر سے بھی ایئرکنڈیشنز اور ٹی وی جیسی عیاشیاں چھننے والی ہیں کہ گرفتاریاں مکمل ہوتے ہی ریکوریاں حکومتی ہوش وحواس پر غلبہ پاتی چلی جائیں گی اور یہ عوامی احتجاج بھی شدید تر ہوتا چلا جائے گا کہ "سارا زور عوام سے وصولیوں پر ہے۔ یہ "نالائق نااہل" حکومت ان قیدیوں سے وصولیاں کیوں نہیں کر رہی جو اربوں کھربوں ڈالر دبائے یوں بیٹھے ہیں جیسے دیسی مرغی انڈوں پر بیٹھتی ہے"۔ ایک بات پکی ہے کہ گھی ہے تو بالکل اصلی لیکن یہ سیدھی انگلیوں سے کبھی نہ نکلے گا کہ مال مسروقہ کی برآمدگی پر صرف بے پناہ دولت ہی نہیں بچی کھچی عزت بھی ساتھ جاتی ہے۔ یہی شریفوں، زرداریوں کا اصل مسئلہ ہے۔ عمران کا اصل امتحان امریکن دورہ کی کامیابی نہیں کہ وہ خاص حد تک طے تھی، عمران حکومت کا اصل امتحان ریکوری ہے باقی اللہ خیر کرے ان کیلئے تو ٹی ٹیاں ہی ٹکٹکیاں بننے والی ہیں جنہیں کوئی چیلنج ہی نہیں کر سکتا۔