بلاول اور مریم کا مستقبل
چشم تصور سے دیکھیں، ایک آدمی تُوڑی یعنی بھوسے کی بھری بہت بڑی گٹھڑی اٹھائے جا رہا ہے کہ اچانک گٹھڑی کھل جاتی ہے اور بھوسہ بکھرتے ہی تیز آندھی چلنا شروع ہو جاتی ہے تو کیا دنیا کی کوئی طاقت، کوئی ٹیکنالوجی وہ بکھرا ہوا بھوسہ پھر سے اکٹھا کر سکتی ہے؟ میں موجودہ حالات اور اس منظر میں مماثلت دیکھتا ہوں تو پریشان ہو جاتا ہوں۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ مستقبل بلاول بھٹو اور مریم کا ہے جس پر میرا سوچنا یہ ہے کہ اگر ان کا مستقبل ہے تو پھر اس ملک کے کروڑوں بچوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اس ملک کے مقروضوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، خط ِ غربت پر رینگتے ہوئے انسان نما حشرات الارض کا بھی کوئی مستقبل نہیں ہے کیونکہ ان کے بڑے تو ناتجربہ کار ہوتے ہوئے تباہی مچا گئے، ان کے پاس تو "تجربہ" ہی بہت ہے، ان کے بزرگوں کا تجربہ جو غیرملکی دوروں پر اس بری طرح مقروض ملک کے 3ارب 80 کروڑ بے رحمی سے خرچ کر گئے۔ نواز شریف 4 سالہ دور حکومت میں ساڑھے نوماہ بیرون ملک رہے۔ 24 بار لندن، بارہ مرتبہ سعودی عرب گئے۔ کل 92غیرملکی دورے جبکہ زرداری صاحب نے 134 غیرملکی دورے کئے۔ 51 بار دبئی گئے، 55 کروڑ ہوٹل بازی پر خرچ کئے اور کروڑوں روپے ٹپس کی مد میں خرچ کئے۔ شاہی سیاحت کی یہ صرف چند جھلکیاں ہیں تو ذرا تصور کریں کل کلاں اقتدار کا بٹیرا ان کے بچوں کے پائوں تلے آ گیا تو وہ اس ملک کے وسائل کا کیا حشر کریں گے۔ اسی لئے عرض کیا کہ اگر بلاول اور مریم کا مستقبل ہے تو یہاں اور کسی کا کوئی مستقبل نہیں سو جنہیں اپنی اولادوں سے کوئی ہمدردی ہے، وہ اس پر غور کریں۔ جاتی امرا میں سرکاری زمینوں پر قبضہ اور بنکرز تھے، حفاظتی دیوار پر کروڑوں روپے محروم عوام کے خرچ کئے اور تازہ ترین خبر یہ ہے کہ ماڈل ٹائون میں شریف فیملی کے زیر قبضہ دو پبلک پارکس واگزار کرا لئے گئے ہیں جو جلد عوام کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ عوامو! کچھ تو سوچو۔ "خوش رہو دوسروں کے خرچے پر"سرکاری مرسیڈیز چند روز پہلے زبردستی واپس لی گئی۔ کبھی کہا "باہر کیا میری تو پاکستان میں کوئی جائیداد نہیں" پھر کیلبری فونٹ ہو گیا اور اب ایون فیلڈ کیس میں جعلی ٹرسٹ ڈیڈ کے الزام میں مطلوب، تو میں سوچتا ہوں بے ایمانی، بے حسی اور بے رحمی کا امتزاج کیا ہوتا ہو گا۔ دونوں بلکہ دو تین مزید خاندان "فائٹ" اور "فلائٹ" کے درمیان پنڈولم کی طرح جھول رہے ہیں۔ چیخیں بھی اور چیلنج بھی۔ ایک طرف اجڑا، ادھڑا ہوا مقروض ملک ہے تو دوسری طرف ملکوں ملکوں چند خاندانوں کے اثاثے۔ اس طرح تو دیمک لکڑی کو، زنگ لوہے کو، کینسر انسان کو نہیں کھاتا جیسے پاکستان کے وسائل کھائے گئے لیکن کیسے پیٹ ہیں جو بھرنے کا نام نہیں لیتے۔ 60، 70کی دہائی میں پنجابی فلموں کا ایک ولن تھا مظہر شاہ جس نے بڑھک فلموں میں متعارف کرائی۔ اس کے چند مکالمے ان دنوں زبان زدعام تھے مثلاً"ٹبر کھا جاواں تے ڈکار ناں ماراں""سمندر پی جاواں تے پیاس ناں مکے""اک تے میں آپ شینہہ اتوں چوہدری دا پتر، میری راتیں کون جمیا"ترتیب وار اردو ترجمہ کچھ یوں ہو گا...."پورا پورا خاندان بھی کھا جائوں تو ڈکار تک نہ لوں""سمندر بھی پی جائوں تو پیاس نہ بجھے"تب ہم یہ جملے سن کر ہنس دیتے۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی میں سچ مچ ایسے کرداروں کو دیکھیں اور بھگتیں گے جو لاکھوں خاندان کھا کر بھی بھوکے رہتے ہیں اور سمندر پی جانے پر بھی ان کی پیاس نہیں بجھتی۔ تیسرا مکالمہ تو بہت ہی حسب ِ حال ہےایک تو میں خود شیر اوپر سے چوہدری کا بیٹا، مجھ جیسا کوئی دوسرا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ "چوہدری" آصف زرداری شاید ٹھیک ہی کہتے ہوں کہ مستقبل صرف بلاول اور مریم کا ہے تو اپنی تاریخ کی قسم، غلط میں بھی نہیں کہہ رہا کہ اگر ان دونوں کا کوئی مستقبل ہے تو پھر اس ملک کی آئندہ نسلوں کا یقیناً کوئی مستقبل نہیں۔ حالات ہمیں گھیر گھار کر احتساب کی طرف لے گئے ہیں لیکن مجھے اس وقت تک یقین نہیں آئے گا جب تک یہ کارِ خیر منطقی انجام تک نہیں پہنچتا۔ احتساب بہرحال انسانوں نے ہی کرنا ہوتا ہے اور انسانوں کے پیمانوں میں فرق ہوتا ہے اور اسی فرق سے خوف آتا ہے کیونکہ، انسان کی چھلانگ، مینڈک کے پھدکنے، ہرن کی قلانچ اور چیتے کی جست میں بے تحاشا فرق ہوتا ہے۔ آلٹو اور رولز رائس دونوں ہی کاریں ہیں لیکن فرق صاف ظاہر ہے۔ احتساب آلٹو قسم کا ہو گا یا رولز رائس ٹائپ؟ یہی فرق فیصلہ کن ہو گا لیکن ایک بات طے ہے کہ رولز رائس ٹائپ ہوا تو اس ملک سے کرپشن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رول بیک ہو جائے گی اور اگر یہ معجزہ ہو گیا تو یہ ملک اس طرح ٹیک آف کرے گا کہ پھر پکڑا نہیں جائے گا جبکہ دوسری صورت میں؟ اس منحوس خیال کا تصور ہی رونگٹے کھڑے کر دیتاہے۔