لعل و گہر
کورونا وائرس سے بھری خوفناک خبریں بذریعہ اخبارات، ٹی وی نیوز، موبائل فون میسجز اپنے عروج پر ہیں جس کی وجہ سے ہر کوئی گھروں میں قید رہ کر وائرس کے حملے سے محفوظ رہنے میں عافیت کے روز و شب گزارنے پر مجبور ہے۔ سڑکیں بازار مارکیٹیں سنسان اور بے آباد ہیں۔
انسان جو سوشل Animal ہے تنہائی دور کرنے کے لیے ٹیلیویژن آن کرتا ہے تو مختلف شہروں اور ممالک میں اس وائرس کی گرفت میں آنے یا پھر راہی ملک عدم ہونے والوں کی خبریں سننے پر مجبور ہوتا ہے۔ وائرس کی زد میں آنے والے ممالک کی تعداد دو سو سے تجاوز کرچکی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔
میں نے کتابوں کی الماری کھولی تو کچھ عرصہ قبل مرتضیٰ برلاس کی بھیجی ہوئی کتاب پر جو ان کے آٹھ مجموعہ ہائے کلام میں سے شاعری کا انتخاب تھا میری نظر پڑی اس کتاب پر آل احمد سرور، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی اور قتیل شفائی نے اپنی آراء تحریر کی تھیں۔ اتفاق سے میری اور برلاس صاحب کی پہلی ملاقات بھی تب ہوئی تھی جب ہم دونوں گجرات کی ضلع کچہری میں تعینات تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ہاتھ آنے پر میں نے ارادہ کیا کہ دو ماہ سے کورونا وائرس کی قید سے کچھ دیر کے لیے خود کو اور اپنے قارئین کو آزاد کرنے کا اچھا موقع ہے۔ مرتضیٰ برلاس کی آخری تعیناتی کمشنر بہاولپور تھی۔
ابتدا ہوتی ہے حضورؐ کی شان میں کہے برلاس صاحب کے تین اشعار سے۔
اللہ اللہ! یہ فضیلت اور یہ عالی مقام
مقتدی سب انبیاء ہیں اور امامت آپؐ کی
باوضو اس واسطے ہوتا ہوں میں پڑھ کر درود
خواب ہی میں کاش ہوجائے زیارت آپؐ کی
اس گھڑی جب پیش میرا نامۂ اعمال ہو
میرے آقاؐ چاہیے مجھ کو شفاعت آپ کی
مرتضیٰ برلاس نو شعری مجموعوں کے مصنف ہیں۔ ان کی چند کتب میں سے اشعار اٹھا کر نذر قارئین کرتا ہوں۔
دوستوں کے حلقے میں ہم وہ کج مقدر ہیں
افسروں میں شاعر ہیں، شاعروں میں افسر ہیں
روداد غم کہتے ہوئے، جرأت سے کام نہیں لیتے
جو دشمن جاں ہے پہلو میں ہم اس کا نام نہیں لیتے
خود رہبران قوم ہیں عیاشیوں میں گم
ہم سے مگر مطالبہ قربانیوں کا ہے
میں نے کہا کہ بن ترے کیسے کٹے گی زندگی
جلتے ہوئے چراغ کو اس نے بجھا دیا کہ یوں
ہم تو چراغ اول شب ہیں، اول شب بجھ جائیں گے
تم ہی یارو آخر شب تک دیپ سے دیپ جلاتے رہنا
اس نے لوٹ لیا جس کو رہبری سونپی
پھر اعتماد بھی کس پر یہاں عوام کریں
وطن میں شرم آتی ہے جنھیں محنت مشقت سے
وہی پردیس میں آقائوں کے پتھر بھی ڈھوتے ہیں
اک لوٹ ہے مچی ہوئی جس سمت دیکھئے
جمہوریت کو کہتے ہیں چوروں کا راج کیا؟
تیرے گواہ، تیری عدالت تیرے وکیل
پھر کس میں حوصلہ تھا کہ ہوتا مری طرف
میں بجھتے بجھتے دھوئیں کی لکیر چھوڑوں گا
یہ باد تند ذرا سوچ کر بجھائے مجھے
ملتے ہی خود کو آپ سے وابستہ کہہ دیا
محسوس جو کیا وہی برجستہ کہہ دیا
جب کھڑے ہوں گے یہ سب مصنف بھی ملزم کی طرح
وہ عدالت جو لگے گی روز محشر دیکھنا
گر اپنے وصائل پر ہم رہ کے بسر کرتے
پھر کاسہ گدائی کا تھاما نہ ہوا ہوتا
خدا بھی میری خطائیں معاف کردے گا
میں جب کہوں گا کہ اس عہد پُر ستم میں ہوں
آج وفا کا واسطہ دیتا ہے وہ وفا شکن
جس نے غرور حسن میں خوف خدا نہیں کیا
گردن ہے کہ اب تن سے جدا ہونے لگی ہے
اور ہم ہیں کہ دستار بچانے میں لگے ہیں
ہر بار جو رکھ دیتی ہے بنیاد ہلاکر
آندھی کو نظر آتا ہے اک میرا ہی گھر کیا
میں تو سحر گزیدہ تھا تم تو سحر چشیدہ ہو
طول شب فراق کا تم کو بھی کچھ قلق نہیں
یہ وجدان شعری چھٹی حس ہے گویا
کہ جیسا کہا میں نے ویسا ہوا ہے
اب جلد فضا مہکے گی گلرنگ بھی ہوگی
بس چند ہی دن اور یہ ایام خزاں کے