کرکٹ دیوانے
کرکٹ کے سابق کھلاڑی قمر احمد کو جب کرکٹ الیون میں نہ لیا گیا تو اس نے لندن ہجرت کر کے کرکٹ پر لکھنے اور براڈ کاسٹر بن کر نام پیدا کرنے کو ترجیح دی۔ طویل عرصہ برطانیہ میں رہنے کے بعد اب وہ کراچی میں کرکٹ رائٹنگ اور براڈکاسٹنگ ہی میں مصروف ہے۔
دنیا کا کوئی معروف کرکٹر ایسا نہ ہو گا جس سے اس کی دوستی نہ ہو یا اس نے اس کا انٹرویو نہ لیا ہو۔ سترہ فروری 2020 کو اس کی Autobiography کی لانچ تھی۔ میں اس میں شمولیت کے لیے کراچی نہ جا سکا لیکن اس کی کتاب Far More Than A Game جاوید اقبال کے توسط سے مجھے مل گئی ہے جس کا ذکر آیندہ کبھی ہو گا۔ قمر احمد سے میری پہلی ملاقات 17 سال قبل ان کے لندن والے اپارٹمنٹ میں ہوئی جہاں مجھے ریاض منصوری لے کر گئے تھے۔
ذہنی و جسمانی خوشی، تروتازگی اور صحت کو قائم و بحال رکھنے کے لیے کھیل بہت مفید اور ضروری ہے، اسی لیے گلی محلے کے کھیل سے لے کر ورلڈ اولمپکس تک اپنی جگہ اہم ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ہر کسی کو کھیلنے اور کھیل دیکھنے میں دلچسپی ہوتی ہے۔
کھیل اب Indoor بھی ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ خصوصاً بچے موبائل فون اور کمپیوٹر پربیٹھ کر کھیل کا شوق پورا کرتے ہیں لیکن جو مزہ Outdoor کھیلوں میں ہے وہ بند کمروں میں بیٹھ کر جسمانی ورزش کے بغیر بے مقصد اور بد مزہ ہے۔ ٹیلیویژن نے البتہ جہاں بیشمار علمی، دینی اور تفریحی پروگرام جو دور دراز علاقوں اور ملکوں میں منعقد ہوتے ہیں دنیا بھر میں شوقین حضرات تک Live دکھانے کا جو کام کیا وہ قابل تعریف و ستائش ہے۔ کھیلوں کے حوالے سے کبھی پاکستان اسکواش، کرکٹ اور ہاکی میں ایک اعلیٰ مقام رکھتا تھا۔
ہاشم خان برٹش آرمی میں اسکواش کوچ تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس نے پاکستان ایئر فورس کے اسکواش کوچ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور باوجودیکہ وہ پچاس سال کی عمر کو پہنچ رہا تھا، اس نے British Open کے مقابلوں میں 1951 میں اپنے ہنر سے اپنا مقام بنایا اور پھر مصر کے اسکواش چمپئن محمود کریم کو 9.5، 9.0، 9.0 سے شکست دے کر اعزاز حاصل کیا۔ ہاشم خان نے اس کے بعد اگلے 8 سال میں چھ بار برٹش اوپن کا Title اپنے نام کیا۔ اس کے بعد اعظم خاں، روشن خاں، قمر زماں، جہانگیر خاں اور جان شیر خاں یکے بعد دیگرے اسکواش میں ٹاپ پلیئر رہے۔
جاں شیر خان آٹھ بار اسکواش ورلڈ اوپن کا چیمپین، چار بار ورلڈسپر سیریرز کا چمپین اور Guinness ورلڈ ریکارڈ ہولڈر رہا۔ جان شیر خان سے اسکواش کے کھیل میں طویل ترین عرصہ کے لیے نمبرون رہنے کا اعزاز آج تک کوئی نہیں چھین سکا لیکن جیسا کہ قانون ِ قدرت ہے ہر عروج ِرا زوال سن 1998 میں اسے برٹش اوپن کے فائنل میں ٹائٹل سے دستبردار ہونا پڑا۔
ایئر مارشل نورُ خاں 1965 کی جنگ کے ہیرو تو تھے ہی لیکن جب انھوں نے 1959 سے 1965تک اور پھر 1973 میں دوبارہ PIA کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تو ایئر لائن منافع بخش پروجیکٹ تھا۔ انھوں نے 1976 میں ہاکی فیڈریشن کے صدر کے طور پر بھی کام شروع کیا تو ہاکی ٹیم نے دو اولمپک گولڈمیڈل اور دو ہاکی ورلڈ کپ جیتے۔ پھر دو ہاکی چیمپین ٹرافیاں حاسل کیں۔ ورلڈ کپ اور چیمپین ٹرافی کھیل کی معراج ہیں۔ پھر انھی کے دو ر میں ہاکی ٹیم نے میکسیکو اولمپکس اور لاس اینجلس اولمپکس میں فتح حاصل کی۔ سن1960 میں نصیر بُندا نے گول کر کے روم میں ورلڈ کپ جیتا جب کہ ٹیم میں انوار خاں، عبدل وحید، برگیڈئیر حمیدی فلائنگ ہارس سمیع اللہ، اختر رسول، منظور جونیئر، حسن سردار، اصلاح الدین، خواجہ ذکااُللہ، شہناز شیخ، قاسم ضیاء جیسے ماہر اور نامور کھلاڑی تھے۔
انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان ٹھیک جا رہا تھا۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم لاہورمیں 2009میں میچ کھیلنے اسٹیڈیم کی طرف جا رہی تھی کہ رستے میں ان پر حملہ ہو گیا۔ کھلاڑیوں کی جانیں تو محفوظ رہیں لیکن دس سال تک کوئی کرکٹ ٹیم پاکستان نہ آئی۔ یہ طویل بائیکاٹ اب ختم ہوا ہے۔ پہلے دبئی میں Pakistan super League (PSL) کے نام سے پاکستان کرکٹرز کی ٹیمیں بنا کر ان کے آپس میں میچ کروا کر کرکٹ کے دیوانوں کی تفریح اور دلچسپی کا اہتمام کیا جاتا رہا پھر PSL کے کرکٹ میچ پاکستان کے چاروں صوبوں میں ہو رہے ہیں بلکہ اب تو غیر ملکی بھی ہیں جن میں سری لنکن اور بنگلہ دیشی کھلاڑیوں کی ٹیمیں شامل ہیں، پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔
پاکستان کے کھلاڑی فضل محمود، امتیاز احمد، ظہیر عباس، ماجد خاں، جاوید میاں داد، سرفراز نواز، وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، مشتاق محمد، حنیف محمد، نسیم الغنی، حفیظ کاردار، اور پھر عمران خان جسکی کپتانی میں 1992 میں پاکستان نے کرکٹ ورلڈ کپ جیتا، وہ کھلاڑی ہیں جنھیں کوئی چاہے بھی تو بھلا نہیں سکتا۔ گزشتہ دنوں PSL سری لنکا اور بنگلہ دیش کے کرکٹ میچز کے دنوں اسٹیڈیم تماشائیوں سے بھرے ملتے تھے۔
یہاں مجھے انڈیا سے ون ڈے میچ کھیلنے 1979 میں ساہیوال آئی کرکٹ ٹیم یاد آئی ہے جسکے کپتان بشن سنگھ بیدی تھے۔ ساہیوال میں پاکستان اور انڈین ٹیموں کو ٹھہرانے کے لیے کوئی اچھا ہوٹل نہ ہونے کی وجہ سے مجھے کچھ پرائیویٹ مکانوں اور ریسٹ ہائوس کا انتظام کرنا پڑا۔ صفدر جاوید سیدجو مرکزی سیکریٹری رہے، میچ کے وقت اسسٹنٹ کمشنر تھے، ان کی خواہش پر ان کا اسٹیڈیم گیٹ پر استقبال کیا۔ ایک بار لاہور جمخانہ کلب نے گولف ٹورنامنٹ پر دوست ملکوں اور انڈین گولف ٹیموں کو دعوت دی جس میں پندرہ بیس انڈین گولفر آئے۔ آج وہ دن یاد آتے ہیں جب معروف انڈین فلمساز اپنی فلموں کے گیت لکھوانے کے لیے قتیل شفائی کو دو تین ماہ کے لیے بمبئی بلا لیتے تھے اور پھر آج کا انڈین وزیر ِ اعظم نریندر مودی، کیا عروج تھا اور کیا زوال ہے۔