سوشل میڈیا کے چی گویرا
11 مئی 1953ء کو امیرِ جماعتِ اسلامی سید ابواعلیٰ مودودیؒ کو اپنی کتاب، "مسئلہ قادیانیت" لکھنے کی پاداش میں اُس وقت کی حکومت کی سرپرستی میں سزائے موت دے دی گئی۔ سید مودودیؒ سزائے موت ملنے کے بعد جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے تھے ایسے میں بہت سے نامور اور باحیثیت دوستوں اور چاہنے والوں نے سید مودودیؒ کو رائے دی کہ آپ قادیانیوں کے خلاف لکھی گئی اپنی اِس مدلل اور علمی تحریر سے لاتعلقی کا اعلان کر دیں یوں آپ کی جان بچ جائے گی۔ اُس وقت سید مودودیؒ نے وہ تاریخی فقرہ کہا تھا جو تا قیامت سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: "میری جو رات قبر میں لکھی ہے وہ میں باہر نہیں گزار سکتا اور جو میری زندگی اللہ پاک نے لکھی ہے وہ کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا"۔
یہ جواب دے کر سید مودودیؒ ختم نبوت کے پہرے دار کی حیثیت سے کرہ ارض پر ڈٹ کے کھڑے ہو گئے۔ اُس وقت سید مودودیؒ کے لاکھوں چاہنے والے اور ختمِ نبوت کے کروڑوں پروانے اور مستانے عشق رسالتﷺ سے سرشار ہو کر پاکستان کی سیاست اور معاشرت میں مکمل متحرک تھے۔ اُس موقع پر جب سید مودودیؒ کو سزائے موت کا اعلان ہوا اگر وہ اپنے چاہنے والوں اور تحریکِ ختمِ نبوت کے متوالوں کو حکم دیتے کہ گھروں سے نکل کر میری رہائی کے لیے جیل پر حملہ آور ہو جاؤ تو ربِ کعبہ کی قسم پاکستان کے اُس وقت کے حالات کا عالم یہ تھا کہ لاکھوں لوگوں نے جیل کی اینٹ سے اینٹ بجا کر سید مودودیؒ کو آزاد کرا لینا تھا۔
لیکن مجال ہے کہ سید مودودیؒ نے اپنے کسی کارکن، فالوور اور عقیدت مند کے مذہبی جذبات اور ملک میں لگی ہوئی مذہبی آگ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُنہیں اپنی رہائی اور سزائے موت ختم کرانے کے لیے استعمال کیا ہو! اِسے کہتے ہیں ایک حقیقی ملک اور قوم کی خیر خواہ لیڈر شپ! یہ ہوتی ہے عوام کے جذبات کو مثبت انداز سے استعمال کرنے والی محبِ وطن قیادت! یہ وہ قائدانہ رویہ ہے جو کسی لیڈر کو باقی عوام سے ممتاز کرتا ہے!
پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے نتیجے میں گرفتار ہوئے اور 4 اپریل 1979 کو پھانسی کے پھندے پر جھول گئے مجال ہے کہ عوامی طور پر مقبولیت کی بلندیوں پر فائز ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی یا پھر پاکستان کے عوام کو کال دی ہو کہ مجھے موت کے منہ سے نکالنے کے لیے پاکستان کے عوام اپنے بچوں اور آل اولاد کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئیں اور ریاست اور حکومت کو مفلوج کر دیں! ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پارٹی کے کارکنوں کو کبھی یہ کال نہیں دی کہ آپ اپنا روزگار، کاروبار اور گھر بار چھوڑ کر مجھے جیل کی کال کوٹھری سے نکالنے کے لیے ریاست اور ملکی معیشت کو مفلوج کر دیں!
دوسری طرف آج کے پاکستان میں ایک ایسا عوامی لیڈر ہے کہ جو جلسوں میں عوام کو پورے غرور تکبر انانیت اور ڈھٹائی کے ساتھ شوخیانہ انداز سے کہتا تھا کہ: "اللہ پاک نے مجھے اتنا دلیر جرأت مند اور سخت جان بنا دیا ہے کہ اب اگر وہ مجھے جہنم کی آگ میں بھی ڈال دے تو وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی"۔
جو کہتا تھا کہ "میں نہ جھکوں گا اور نہ ہی ڈر اور خوف کے مارے کوئی کمپرومائز کروں گا"۔
اکیسویں صدی کے اِس پاکستانی لیڈر کی حالت یہ ہے کہ دنیا کی تاریخ کی سب سے وی آئی پی اور شاہانہ جیل کاٹنے کا طرہ امتیاز اِسے حاصل ہے۔ دورِ حاضر کے اِس نیلسن منڈیلا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر دیسی مرغی، دیسی انڈے، دیسی گھی اور دیسی بکروں سے مستفید ہو رہا ہے۔ عالمی میڈیا پر ایک مظلوم بے بس لاچار آوازار اور بے حال جیل کے قیدی کا درجہ حاصل کرنے والے اِس صاحب بہادر کا حال یہ ہے کہ روزانہ بیسیوں صحافیوں، تیسیوں رشتے داروں اور پچاسیوں پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں سے ملاقاتیں کرنا اِس کا معمول ہے۔ اڈیالہ جیل حقیقی معنوں میں اُس کی پارٹی کا مرکزی دفتر بن چکی ہے۔
اِس سب کے باوجود اکیسویں صدی کے اِس پاکستانی چی گویرا نے اپنے سیاسی و معاشی جرائم کی سزا اور عدالت اور ریاست کے یومِ حساب سے بچنے کے لیے اپنی پارٹی کی لیڈر شب اور کارکنان کی مت مار کے رکھی ہوئی ہے۔ ہر تیسرے دن احتجاج کی کال، ہر آٹھویں دن جلسے کی کال، ہر مہینے لانگ مارچ اور دھرنے کی کال ہر ہفتے پاکستان میں مار دھاڑ اور سیاسی و معاشرتی چھینا چھپٹی کے نت نئے طریقے ہر مہینے پاکستان کی ریاست اور حکومت کو مفلوج کرنے کے نایاب و نادر انداز ہزاروں کارکنان اور قائدین کو نو مئی کی دہشت گردانہ کارروائیوں سے لے کر پچھلے پونے تین سال کے سینکڑوں اینٹی ریاست اور اینٹی آئین و قانون اعمال کے ذریعے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
وہ اپنے زبانِ عمل سے ثابت کر رہا ہے کہ وہ کل نہیں آج اور آج نہیں ابھی جیل سے باہر آنا چاہتا ہے۔ اُس کا ہر قول چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ "کوئی آئے تو لے جائے میری لاکھ دعائیں پائے" کے مترادف میری اس شاہانہ اور متکبرانہ قید و بند سے جان چھڑائی جائے۔ اُس کا ہر عمل ثابت کر رہا ہے کہ ریاست جائے بھاڑ میں، عوام جائے تیل لینے اور پارٹی قائدین و کارکنان اپنی جان رکھیں ہتھیلی پر اور اُسے ہر حال میں اڈیالہ جیل سے بنی گالہ یا زمان پارک کی رنگینیوں میں گُم کر دیا جائے۔
ثابت یہ ہوا کہ شاہانہ جیل ہو یا فقیرانہ جیل اُسے کاٹنے کے لیے کسی بھی لیڈر اور قائد کا نظریہ اور عمل سو فیصد مثبت اعلیٰ اور ارفع ہونا بہت ضروری ہے بصورتِ دیگر محض سوشل میڈیا کے ذریعے بننے والے چی گویرا اور نیلسن منڈیلا اپنی حرکات سکنات اور اعمال سے سیاست کے عین چوراہے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کی ہنڈیا تڑوا بیٹھتے ہیں۔