مجبوریاں
عمران خان ہماری جمہوری تاریخ کے سب سے خوش قسمت وزیراعظم ہیں جنھیں اتنی کمزور اپوزیشن ملی ہے، یہ پہلی حکومت ہے جسے کہیں سے بھی کوئی خطرہ نہیں، نہ پارٹی کے اندر سے اورنہ پارٹی کے باہر سے۔ کمزور اپوزیشن کے علاوہ اُسے مقتدر قوتوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اُن کی حکومت ویسے تو چند نشستوں کی برتری کی وجہ سے قائم ہے لیکن یہ چند نشستیں سابقہ حکومت کی دو تہائی اکثریت سے بھی بھاری ہیں۔
انھیں وہ سازگار حالات ملے ہیں جو شاید آج سے پہلے کسی بھی آئینی اورجمہوری حکومت کو نہیں ملے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے وسیم اکرم پلس بھی بڑی آسانی سے حکومت کیے جارہے ہیں۔ خود پارٹی کے اندر بھی لوگ تمام کوششوں کے باوجود عثمان بزدار کے خلاف کچھ نہ کرسکے۔ وہ دل ہی دل میں کڑھتے رہے لیکن خان صاحب کو راضی نہ کرسکے کہ وہ کسی طرح وزیراعلیٰ کوسبکدوش کردیں۔ عثمان بزدار کے اِس تسلسل کی وجہ پارٹی کے اندر کوئی ایسا دوسراشخص کانہ ملنا ہے جو خان صاحب کا اتنا اعتماد حاصل کر پائے۔ اتنا بے ضرر اور وفادار شخص سیاست میں شاید ہی کوئی اور ہو۔
2018 میں جب حکومت سازی کے مراحل پر کام ہورہاتھااوروزیراعلیٰ پنجاب کے نام کاانتخاب ہورہاتھاتوکسی ایک کو بھی یہ اُمید نہ تھی کہ یہ قرعہ جناب بزدار کے نام نکلے گا۔ خان صاحب نے اپنے اِس انتخاب کا نام وسیم اکرم پلس بھی رکھ لیا۔ لوگوں کو توقع تھی کہ خان صاحب کااصل انتخاب جہانگیر ترین ہوگااوروہ اُن کے نااہلی ختم کرواکے چند مہینوں بعد انھیں اِس منصب سے فیضیاب کرینگے۔
مگر ایسا نہ ہو سکا۔ وزیراعظم صاحب کے لیے عثمان بزدار ہی شاید سب سے بہتر وزیراعلیٰ ثابت ہوئے جنھیں وہ اپنی مرضی اورمنشاء کے مطابق رہدایتیں دیتے رہے۔ دیکھا جائے توخان صاحب اِس وقت براہ راست دو حکومتیں ایک ساتھ چلارہے ہیں۔ ایک مرکز کی اوردوسری ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی اوریوں دونوں حکومتوں کی لگام بیک وقت اُن کے ہاتھوں میں ہے۔
اب آئیے مضمون کے عنوان کی طرف کہ اپوزیشن کی کیا مجبوریاں ہے کہ پارلیمنٹ میں عددی طور پر ایک کمزور حکومت کے خلاف وہ اب تک نہ کوئی منظم تحریک چلا سکی اورنہ کوئی بحران پیداکرپائی۔ اُس کی ایک بڑی وجہ حزب اختلاف کی دو بڑی پارٹیوں میں ایک دوسرے کے خلاف بد اعتمادی اوربے یقینی ہی ہے جو انھیں یکجا ہوکر دل جمعی کے ساتھ ملکر کام کرنے نہیں دیتی۔
دونوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں اوردونوں کے درمیان عرصہ دراز سے چلے آئے وہ اختلافات ہیں جو یوں منٹوں میں ختم نہیں کیے جاسکتے اوربھلائے بھی نہیں جاسکتے۔ ایک کو اپنی صوبائی حکومت عزیز ہے تودوسرے کو پنجاب میں اپنی اجارہ داری۔ پیپلزپارٹی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ پی ڈی ایم کے فیصلے کے مطابق اگر اس نے استعفے دیکراپنی سندھ حکومت کی قربانی دے دی تواس کاحال بھی مسلم لیگ نون کی طرح ہوجائے گااوروہ مکمل طور پر اسلام آباد کے رحم وکرم پر ہوجائے گی۔ پیپلزپارٹی کی شاطر اورہشیار قیادت اپنے مہرے بڑی سمجھداری سے چل رہی ہے۔
اُسے پتاہے کہ جب تک حکومت کو درپردہ طاقتور حلقوں کی حمایت حاصل ہے وہ اِس حکومت کاکچھ بگاڑ نہیں سکتی۔ پھر بلاوجہ اپنی بنی بنائی سندھ حکومت کی قربانی کیونکر دے۔ اجتماعی استعفے دیکر بھی شاید کچھ حاصل نہیں ہونے والا اُلٹاوہ زیرعتاب آجائے گی۔ آج جو اُس کے خلاف کارروائیاں نرم پڑ گئی ہیں وہ استعفیٰ دینے سے پھر تیز ہوجائیں گی۔ تمام کیسزجو حالات اوروقت کے دھندلکوں میں چھپ سے گئے ہیں، ایک بار پھر منظر عام پر آجائیں گے۔
دوسری جانب مسلم لیگ نون بھی کشمکش اور تذبذب کاشکار ہے، وہ کبھی کھل کربیان بازی پر اتر آتی ہے اورکبھی مکمل خاموش ہوجاتی ہے۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آرہاکہ وہ کس کے خلاف برسرپیکار ہو۔ حکومت کے خلاف یا اس کے لانے والوں کے خلاف۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق میاں شہباز شریف میاں نواز شریف کی مزاحمتی سیاست سے متاثر ہو رہے ہیں۔
میاں نواز شریف تو جیل سے نکل کر لندن پہنچ گئے مگرمیاں شہباز شریف اپنی مفاہمتی پالیسیوں کے وجہ سے آج بھی پس منظر میں ہیں، انھیں پورایقین ہے کہ مزاحمتی سیاست سے ہمارے جیسے ملک میں کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ یہ بات شیخ رشید کو بھی بڑی دیر بعد معلوم ہوئی، ورنہ 1998 تک وہ بھی مزاحمتی سیاست کے بہت بڑی داعی رہے ہیں، جس گیٹ نمبر چار کاحوالہ وہ اکثر اپنے بیانوں میں دیاکرتے ہیں اُس گیٹ کے خلاف وہ بھی کسی سے کبھی پیچھے نہیں رہے تھے۔ 1993کے الیکشن میں جب پیپلزپارٹی کو کامیاب کروایاگیا تو یہی وہ شیخ رشید تھے جنھوں نے اس الیکشن کے بارے میں اُس وقت کھل کر کہاتھاکہ اس الیکشن میں سات نمبر کاخاکی ریگ مال استعمال ہواہے۔
اِن دو بڑی جماعتوں کے علاوہ پی ڈی ایم کی باقی تمام جماعتوں میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ اکیلے ہی کچھ کرپائیں۔ اِس لیے اُن کا ہونا اور نہ ہونا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جو کچھ کرنا ہے اِن د وبڑی سیاسی پارٹیوں نے ہی کرنا ہے۔ بجٹ کے بارے میں بھی بلاول بھٹو گرچہ یہ کہہ چکے ہیں کہ ہم اِسے پاس ہونے نہیں دینگے لیکن ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ بھی سیاسی بیان بازی کاحصہ ہے۔ مسلم لیگ نون نے فی الحال ایسا دعویٰ کرنے سے خود کوبچایاہواہے، کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ملک کے تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بجٹ مکمل طور پر مسترد کردیا گیا ہواورپھرکوئی دوسرا بجٹ لاناپڑا ہو۔ خراب سے خراب حکومت بھی اپنابجٹ پاس کروالیتی ہے۔ پارلیمنٹ میں شور شرابااب کوئی انہونی بات نہیں رہی۔ ایسا کرنے کو ہم ٹف ٹائم نہیں کہہ سکتے، یہ تو ہرپارٹی کرسکتی ہے۔
عدم اعتماد کی تحریک کی باتیں کرنے والوں کے لیے بجٹ تجاویز کی منظوری ہی ایک ٹیسٹ کیس ہوگا، وہ اگر قومی اسمبلی میں ایسا نہیں کرسکتے تو کم ازکم پنجاب اسمبلی ہی میں تو کرکے دکھائیں۔ عثمان بزدار تو اتنے طاقتور وزیراعلیٰ نہیں اُن کے خلاف ہی کوئی تحریک لاکردکھائیں۔