Tehreek e Azadi e Kashmir Par Likhi Gayi Mustanad Tareekhi Kitaben
تحریکِ آزادی کشمیر پر لکھی گئی مستند تاریخی کتابیں
فلسطین، کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم وستم کے جو پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ اقوام عالم کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ کوئی بھی انسانیت کا درد رکھنے والا ذی شعور اس سے انکار نہیں کرسکتا کہ اقوام عالم کا دوہرا معیار اُمتِ مسلمہ پر ظلم وبربریت میں برابرکا شریک ہے۔ فلسطین کے معصوم بچوں کی آہ و بکانے دِل دہلا کر رکھ دئیے ہیں، مگر انسانیت کے علمبردار خاموش تماشائی ہیں۔ ایسے میں میڈیا، ہر ذی شعور پر دوہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دلائل کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو انٹرنیشنل فورمز پر اجاگر کریں۔
ریاست جموں و کشمیر اپنی تحریک آزادی، تاریخ علم و اَدب تہذیب و ثقافت، جانبازی اورعلم وفنون میں یکتا وبے مثال ہے۔ اسے خطہ جنت نظیر فطری حسن کا شوکیس اور ایشیاء کا سوٹزر لینڈ قرار دیا ہے۔ یہاں کے باسیوں نے اَدب و فن، تحقیق و تخلیق، شاعری، مصوری، خطاطی، فنون لطیفہ اور ہر شعبہ زندگی میں بے پناہ شہرت پائی ہے۔ وادیِ کشمیر تاریخ ساز لوگوں کا مسکن ہے جنہوں نے زرب و حرب، تاریخ و سیاست، عدم و تحقیق اور تحقیق و تخلیق کے ساتھ ساتھ آزادی کشمیر اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد میں ناموری پائی۔
طالب علمی سے لیکر بطورِ ایک پروفیسر، جو تحریک آزادی کشمیر کی معلومات کشمیری مصنفین کی کتب، کشمیری میڈیا سے ملی ہیں وہ کہیں اور سے کم ہی ملی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ وہ آزادکشمیر کے مکین ہیں اور وہ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے مستند تاریخی حوالہ جات رکھتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں کئی خاندان ایسے ہیں جن کے مقبوضہ کشمیر میں رشتہ دارآج بھی ان سے ملنے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔
اس دوران مجھے تحریکِ آزادی کشمیر کے روح رواں ایک عظیم کشمیری لیڈر، سردار عبدالقیوم خان، سابق وزیر اعظم و صدر آزادکشمیر، پروفیسر ڈاکٹرسرور عباسی، سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف آزاد کشمیر، سابق چیف جسٹس، جسٹس (ر) منظور حسین گیلانی، اکرم سہیل، سابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری آزاد کشمیر کی کشمیر کے حوالہ سے شاندار و مدلل کتب پڑھنے کا موقع ملا جنہوں نے تحریک آزادی کشمیر کو حقیقی معنوں میں اجاگر کیا ہے۔ یہ صرف کتب ہی نہیں بلکہ ایک مستند تاریخی دستاویز ہیں۔ یہ شخصیت ایک سسٹم کا حصہ ہیں انہوں نے کشمیری حقائق کوبہت قریب سے دیکھا ہے۔ ان کے الفاظ تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔
مجھے کشمیری مصنفین کی کتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔ جس کی بنیادی وجہ تنازعہ کشمیر کی حقیقت کو جاننا ہے۔ حال ہی میں نمل یونیورسٹی، اسلام میں ASIپبلیکیشز کی طرف سے لگائے گئے بُک سٹال پر کتاب مقصدِ حیات، مصنف عابد ضمیر ہاشمی پڑھنے کا موقع ملا۔ میں کسی لگی لپٹی تحریر کا قائل نہیں یہ قلمی بد دیانتی اور پیشہِ معلمی کے مغائر ہے کہ ہم وہ لکھیں جو حقیقت نہ ہو۔ میں وہ حقیقت لکھنا چاہ رہا جو محسوس کی ہے۔ کتاب پر لگی تصویر سے یوں محسوس ہوا کہ یہ مصنف ابھی نوعمر ہیں۔ مقصدِ حیات میں تحریک آزادی کشمیر کے حوالہ سے جو مضامین حوالہ جات اور اعداد شمار کے ساتھ لکھے گئے ہیں وہ یقینا قابل ذکر کاؤش ہے۔ کشمیر کے حوالہ سے اس کتاب میں مستند تاریخی حوالہ جات سے لکھا گیا ہے۔ ان کا ایک مضمون جس میں اُنہوں نے تحریک آزادی کشمیر پر مفصل لکھا اور یہ بھی امثال سے واضح کیا کہ تحریک آزاد ی کشمیر کو بھارت کبھی بھی اپنے ظلم و بر بریت سے دبا نہیں سکے گا۔ انہوں نے اپنے موقف میں تاریخی حوالہ جات کے ساتھ ان ظالمانہ تحاریک جو بری طرح ناکام ہوئیں کا ذکر کیا ہے۔
اس نوعمر مصنف کی اس قدر بہترین کاؤش نے مجھے یہ باور کروایا ہے کہ کشمیر کے لوگ علم میں پاکستان کے باقی صوبوں سے بہت آگے ہونے کے ساتھ ذہین بھی ہیں۔ اس کتاب پرپاکستان کے مین سٹریم میڈیا، نامور شخصیات نے خوبصورت اور زور دار تبصرے کیے۔ ان کا جاندار انداز تحریر شگفتگی مزاح اور فکر و عمل سے آراستہ و پیراستہ ہے جس میں فطری جوہر، علم و اَدب اور افکار کی آمیزش اور حسن مزاح کا بھر پور تڑکا بھی ہے۔ جو اس میں ایسا تنوع اور امتزاج کہ پڑھنے والا اس کے چسکے سے لطف و اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ہاشمی کے ہر رنگ تحریر میں رنگ اور مسحور خوشبو بسی ہوئی ہے۔ جن میں احساسات و جذبات اور خیالات کی گہرائی و گیرائی اور مشاہدے کے جوہر توانائی کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے دیکھنے اور لکھنے کا انداز بڑا کشادہ اور پر لطف ہے کہ اس سے داخلی و خارجی مناظر کا پوری طرح اظہار دکھائی دیتا ہے۔ شگفتہ تحریروں میں اپنی سر زمین سے ان مٹ وابستگی کا اظہار نمایاں ہوتا ہے۔ جس میں کشمیر اور اہلِ کشمیر کے ساتھ ان کی وارفتگی اور والہانہ انس، تحریکی تخلیق کی گونج سنائی دیتی ہے۔ جس سے دل و جان معطر اور قلب و ایقان پر عزم ہوتے ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کی عروج و زوال کی مکمل تاریخ لکھی گئی بلکہ اس کے اسباب بھی اس کتاب کی زینت بنائے گئےہیں۔
فلسطین، کشمیر میں تاریخ کا بدترین تشددجاری ہے، ایسے وقت میں ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ جس کا جو مقام و مرتبہ ہے، سوشل میڈیا کے مثبت استعمال سے ہم مسئلہ کشمیر، فلسطین پر ظلم و بربریت کو بے نقاب کریں۔ میں بلامبالغہ وادیِ کشمیر کے میڈیاہاوسز، وہاں کے باسیوں، وہاں کے صحافی حضرات کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ یہ امر خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے کہ آزاد کشمیر کے میڈیا نے جس جاندار انداز سے مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ اجاگر کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ہمارے پاکستانی میڈیا کوجوآزادی کشمیر کے حوالہ سے کردار ادا کرنا چاہیے وہ اس طرح سے نہیں ہو رہا۔ آزاد کشمیر کی قیادت ہو، میڈیا ہو یا تو لکھاری ہوں ان کی پہلی ترجیح مسئلہ کشمیر ہوتا ہے جو قابلِ تحسین ہے۔
آزاد کشمیر کے اربابِ اختیارکو چاہیے کہ ایسی تاریخی کتب کے مصنفین، لکھاریوں، میڈیا سے وابستہ افرادکی حوصلہ افزائی کریں تاکہ مسئلہ کشمیر کو تاریخی حوالہ جات سے اقوام عالم کے سامنے پیش کیا جاتا رہے، اور یہ تحریک آزادی کشمیرکی شمع کو تقویت ملتی رہے۔