Richard Grenell Aur Pakistan
رچرڈ گرینل اور پاکستان
کل سے ہمارا سوشل میڈیا، سٹریم میڈیا ایک ہی بوٹی چبا چبا کر مزے لے رہا ہے۔ ہر ایک کی زبان پہ ایک ہی شخص کا الارم بج رہا ہے۔ ہر پلیٹ فارم پہ اسی کے چرچے، قولے مقولے شئیر ہو رہے ہیں۔ اتنا پاکستانی قوم خدا کو یاد نہیں کرتی جتنا اس کا تذکرہ زبانِ حال میں ہے۔ 25 دسمبر قائدِاعظم کا یومِ ولادت ہے مگر قوم کا حافظہ اس ایک شخص نے چاٹ لیا ہے۔ بھری محفل میں ذکرِ قائد ناپید ہے مگر ذکرِ رچرڈ وافر مقدار میں موجود ہے۔ آخر کون ہے یہ رچرڈ گرینل؟ اس کا ہم سے، ہمارے ملک سے کیا تعلق ہے؟ پی ٹی آئی کو اس سے کیا خوش فہمیاں ہیں؟ حکومت کو اس سے کیا خدشات ہیں؟
رچرڈ گرینل کو ٹرمپ نے ستمبر 2017 میں جرمنی کا سفیر نامزد کیا۔ جہاں انھوں نے جرمنی کے حکومتی معاملات میں مداخلت کی تو جرمن کے سیاستدانوں نے اس کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا۔ جرمن کی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی نے کہا کہ یہ شخص جو کچھ کر رہا ہے وہ بین الاقوامی سفارت کاری میں کبھی نہیں سنا۔ پھر رچرڈ نے یکم جون 2020 کو استعفی دے دیا۔ اس کے بعد اکتوبر 2019 میں ہی ٹرمپ نے انھیں کوسوو اور سربیا کے درمیان امن مذاکرات کے لیے خصوصی مشن دیا۔ 20 جنوری 2020 کو انھوں نے باقاعدہ اپنی خدمات مہیا کیں۔ اس طرح کئی سالوں بعد دونوں ممالک کے درمیان پروازیں بحال ہوگئیں۔ 20 فروری 2020 کو ٹرمپ نے رچرڈ کو نیشل انٹیلی جنس کا عبوری صدر بنا دیا۔ رچرڈ پانچ سال تک سلامتی کونسل میں بھی کام کرتے رہےجہاں ان کی توجہ کا سارا مرکز شمالی کوریا تھا۔
رچرڈ کے حوالے لے سے پاکستانی عوام میں کافی مغالطہ پایا جاتا ہے۔ حکومت اسے اپنا مخالف سمجھے بیٹھی ہے اور مخالفین خاص طور پر پی ٹی آئی اسے اپنا پیر و مرشد مانے بیٹھے ہیں۔ وہ ان کی ایک ایک بات کو یوں نقل کر رہے ہیں کہ جیسے ان میں ہمدردی اور سچائی کا خزانہ ہو اور ٹویٹ کو یوں ری ٹویٹ کر رہے ہیں جیسے وہ مقدس صحیفہ ہو۔ پی ٹی آئی اس کے قصیدے گا رہی ہے اور حکومت اس کی ٹویٹوں پہ سینہ کوبی کر رہی ہے۔ حکومت کی بوکھلاہٹ قابلِ دید ہے۔ ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔ رچرڈ کے نام نے ہی ان کا سانس لینا تک مشکل کردیا ہے اور دوسرے طرف انصافیے عید کا جشن منا رہے ہیں۔
حکومت اس وقت شش و پنج کا شکار ہے کہ اگر امریکہ سے کال آگئی یا امریکہ کی طرف سے پریشر بڑھا تو اسے کیا کرنا چاہیے۔ خان صاحب کو چھوڑ دینا چاہیے یا پھر کہہ دیں ایبسولوٹلی ناٹ۔ اگر ایبسولوٹلی ناٹ کہہ دیا تو کیا آئی ایم ایف قرضے کی اگلی قسط دے گا۔ اگر اگلی قسط وقت پر نہ ملی تو معیشت کا بیڑا بیٹھ سکتا ہے۔ فیٹف کا کیا بنے گا؟ ہمارے ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے امریکہ پہلے ہی کئی خدشات کا اظہار کر چکا ہے۔ اگر ٹرمپ کی بات نہ مانی گئی تو کیا ان کے حوالے سے کوئی پابندی لگ سکتی ہےِ؟
میرا انصافیوں سے ایک سوال ہے؟ یہ رچرڈ صاحب جو خان صاحب کے حوالے سے بہت مضطرب ہیں اور ٹویٹ پہ ٹویٹ کیے جا رہی ہے کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہے۔ ان کا مینڈیٹ چرایا گیا ہے۔ ان کو غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر بے بنیاد الزامات ہیں۔ وہ اور ٹرمپ ایک جیسے ہیں۔ ان پر بھی ویسے ہی الزامات تھے جیسے ابا حضور ٹرمپ پر تھے۔ تو ٹرمپ صاحب بھی رہا ہو گئے۔ اس لیے خان صاحب کو بھی باعزت رہا کرو اور عوام کو ان کا اصلی آقا لوٹا دو۔ اس حوالے سے وہ ٹویٹ پہ ٹویٹ کیے جا رہے ہیں لیکن کیا انہوں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ ایک ٹویٹ بھی فلسطینیوں کے حق میں کیا؟ جہاں سکولوں پہ بم گرائے گئے۔ ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فلسطینی جو غذائی قلت کا شکار ہیں۔ جہاں بھوک سے لوگ مر رہے ہیں۔ جہاں انسانی بنیادی حقوق معطل ہیں۔ جہاں اسرائیل سب کو انگوٹھا دکھا رہا ہے حتی کہ اقوام متحدہ کو بھی۔ وہاں وہ کیوں ٹویٹ نہیں فرماتے۔ اگر وہ اتنے ہی انسان دوست انسان ہیں تو فلسطینوں کی آواز کیوں نہیں بنتے؟ کیوں اسرائیل کا ہاتھ نہیں روکتے؟ نہیں تو صرف مذمتی بیان ہی دے دیتے مگر اس کے پیٹ میں صرف ایک ہی ابال ہے کہ خان صاحب کو رہا کرو اس کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔ اس پر بے بنیاد الزامات ہیں۔ خان صاحب کے علاوہ اس سے کہیں بھی ظلم دکھائی نہیں دے رہا۔
اس وقت اس کے نزدیک حکومتِ پاکستان ایک غاصب جماعت ہے اور کشمیر اور فلسطین میں اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ وہاں کسی غاصبانہ جماعت کا قبضہ نہیں ہے۔ وہاں راوی سب چین لکھ رہا ہے اس لیے انصافیو! اس کی باتوں میں نہ آؤ، بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ رچرڈ گرنیل ہو یا زلمی خلیل زاد سب سازشی ذہنوں کے مالک ہیں۔ یہ سب اپنے اپنے ملک کے لیے کام کرتے ہیں خان صاحب اگر امریکی دباؤ سے کام لے کر باہر آتے ہیں تو لکھ کے رکھ لیں۔ کل کو وہ خان صاحب کو استعمال بھی کریں گے اور خوب استعمال کریں گے اور خان صاحب استعمال ہو کر پھر تالیاں بھی بجا رہے ہوں گے (جیسے خان صاحب کے دورہ امریکہ میں ٹرمپ نے خان صاحب کو کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی پیشکش کی۔ خان صاحب بہت خوش ہوئے کہ ٹرمپ کشمیر کا معاملہ حل کروائیں گے لیکن ٹرمپ نے تو سارا کشمیری انڈیا کے حوالے کر دیا) اور انصافیے گلی بازاروں میں ڈھول دھمکا کریں گے۔
خان صاحب کو امریکی پریشر کی بجائے خود حکومت سے مذاکرات کرکے اپنے معاملات حل کرنے چاہیے تاکہ کل کو وہ امریکہ کے سامنے آنکھ سے آنکھ ملا کر کھڑے ہو سکیں۔ اس لیے امریکہ کو ہرگز موقع نہ دیں کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت کرے۔ خان صاحب کو اپنے موقف ایبسولیوٹلی ناٹ کے ساتھ رہنا چاہیے۔ امریکہ سے واضح کہہ دینا چاہیے کہ یہ ہمارا ملک ہے ہم فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے؟ ہمارے معاملات میں ٹانگ مت اڑاؤ۔ حکومت جو پہلے ہی بہت زیادہ نروس ہے۔ خان صاحب کو ایک پیغام حکومت کو بھی بھجوانا چاہیے کہ امریکہ سے واضح کہہ دو ایبسولیوٹلی ناٹ۔ ان کی مداخلت کے حوالے سے میں آپ کے ساتھ ہوں۔ یہ ہمارا ملک ہے اور اب ہم اس ملک میں ایرے غیرے کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کو مل کر درمیانی راستہ نکالنا چاہیے مگر امریکی دباؤ میں آ کر کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ قومی سلامتی پہ سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے اگر خان صاحب امریکی پریشر کے بغیر خود مذاکرات کرکے باہر آتے ہیں تو عوامی اور علمی حلقوں میں ان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوگا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ پی ٹی آئی قیادت تو بھنگڑا ڈال رہی ہے نونیے اپنی جماعت کا ماتمی جلوس نکال رہے ہیں۔ سب اپنی اپنی جماعت اور اپنی اپنی لیڈر شپ کے بارے میں فکر مند ہیں مگر کسی کو احساسِ پاکستان نہیں ہے۔
پاکستان حاشیے پہ کھڑا ان جماعتوں کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ امریکی جماعتیں ملکی مفاد کی جنگ لڑتی ہیں جبکہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفاد کی جنگ لڑتی ہیں اور اس لڑائی میں پاکستان ہار جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں جیت جاتی ہیں۔