Muhib e Watan Bangali
محب وطن بنگالی
تمام تر عدالتی تحقیقات اور ٹھوس گواہیوں کے باوجود 53 برس بعد بھی اسکول کے نصاب میں بچہ یہی پڑھ رہا ہے کہ 16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ ہمارے عسکری و سیاسی گناہوں کے سبب وقوع پذیر نہیں ہوا بلکہ مشرقی پاکستان کے کروڑوں سادہ لوح محب وطن بنگالیوں کو مٹھی بھر شرپسند ہندو اساتذہ نے گمراہ کیا اور انڈیا نے حالات کا فائدہ اٹھا کر ہمیں دو لخت کر دیا۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
اگر سکول میں پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان کی کتاب پر یقین کر لیا جائے تو بس اتنا پتہ چلتا ہے کہ کبھی کوئی مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا جسے انڈیا نے ایک سازش کے تحت پاکستان سے علیحدہ کر دیا۔ یعنی آج کی سکول جانے والی نسل جتنا موہن جو دڑو کے بارے میں جانتی ہے، مشرقی بنگال کے بارے میں اتنا بھی نہیں جانتی۔ اس کے بعد آپ یہ توقع بھی کریں کہ وہ شیخ مجیب الرحمان کے بارے میں تھوڑا بہت تو جانتی ہوگی تو یہ اس نسل کے ساتھ زیادتی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ دیکھئیے اگر مشرقی پاکستان کی علیحدگی یا بنگلہ دیش بننے کے اسباب کے بارے میں درسی کتابوں میں تفصیلاً پڑھایا جائے گا تو پھر شیخ مجیب کے ساتھ ساتھ یحییٰ خان، ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کا بھی تذکرہ کرنا پڑے گا۔ پھر اس ایکشن کے بعد حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کا ذکر بھی آئے گا اور جب بات یہاں تک پہنچے گی تو کچھ کی ناموس کو خطرہ ہوگا اور کچھ کے وقار کو گزند پہنچے گا۔
تذکرہ ہوگا تو بچے سوالات بھی پوچھیں گے۔ چنانچہ اس سے کہیں بہتر یہ نہیں کہ فرض کر لیا جائے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کوئی مشرقی پاکستان بھی تھا اور پھر اس نے اپنا نام بنگلہ دیش رکھ لیا، قصہ ختم۔
جب میں نے شیخ مجیب کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تھا مجھے احساس ہوا کہ جناح اور مجیب کی سیاسی زندگی میں کئی مماثلتیں ہیں۔ جیسے جناح شروع میں کٹر کانگریسی تھے، وہ ہندوستانی قوم پرستی پر یقین رکھتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ہندو اور مسلمان "ہندوستانیت" کی چھتری تلے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ مگر پھر رفتہ رفتہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ دونوں الگ قومیں ہیں۔
شیخ مجیب کٹر مسلم لیگی، پارٹی کی طلبا تنظیم مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنگال کے پرجوش رہنما تھے۔ سہروردی کی سرپرستی میں تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا۔ وہ پاکستانی قوم پرستی پر یقین رکھتے تھے مگر پاکستان بننے کے ایک سال کے اندر ہی انہیں محسوس ہونے لگا کہ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی سوچ، سیاسی رجحانات، ثقافت اور سماجی ڈھانچے میں خاصا فرق ہے اور یہ ایک ساتھ دور تک نہیں چل پائیں گے۔ آبادی میں کم ہونے کے باوجود فوج اور بیورو کریسی اور پالیسی سازی میں مغربی پاکستان بالادست ہے لہٰذا نئے ملک کا وفاقی انتظام شاید بہت عرصے تک اس طرح سے نہ چل سکے یا تو یہ نظام تبدیل ہوگا یا پھر ٹوٹ جائے گا۔
پہلا دھچکہ بنگالی یا اردو کے قومی زبان بننے کے جھگڑے سے لگا۔ دوسرا دھکا ون یونٹ نے پہنچایا۔ بنگال نے 56 فیصد اکثریت کے باوجود وفاق کی بقا کے لیے ون یونٹ کا فارمولا قبول کر لیا۔ 1956 کا پارلیمانی آئین بھی متفقہ طور پر بن گیا۔ حتیٰ کہ باقی ملک کی طرح مشرقی بنگال نے بھی پہلے مارشل لا کو قبول کر لیا۔ مارشل لا کے تحت نئے آئین کو بھی قبول کر لیا۔ بنیادی جمہوریت کے نظام کو بھی قبول کر لیا اور اس کے تحت جنوری 1965 میں ہونے والے پہلے صدارتی انتخابات میں بھی بھرپور حصہ لیا۔
حزبِ اختلاف کی جس کمیٹی نے محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے پر بہت کوشش کرکے آمادہ کیا، اس کمیٹی میں شیخ مجیب الرحمان بھی شامل تھے۔ جن دو افراد نے فاطمہ جناح کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے ان میں سے ایک صاحب کا نام شیخ مجیب الرحمان تھا۔ وہی مشرقی پاکستان میں فاطمہ جناح کی صدارتی مہم کے منتظم بھی تھے۔ اگر آپ اس زمانے کی تصاویر دیکھیں تو ہر جلسے میں شیخ مجیب فاطمہ جناح کے آگے پیچھے نظر آئیں گے۔
بنگالیوں نے فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا اور یہ بات ایوب خان سے ہضم نہ ہو سکی اور ایوب خان کی جیت بنگال سے ہضم نہ ہو سکی۔ مگر گرتی ہوئی دیوار کا آخری دھکا ستمبر 1965 کی جنگ تھی جو اس نظریے سے لڑی گئی کہ مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان کے محاز پر کیا جائے گا۔ اس نظریے نے بطور ایک وفاقی یونٹ بنگال کے احساس تنہائی کو مکمل کر دیا اور پھر اس کے ردعمل میں اگلے برس چھ نکات کا جنم ہوا۔ مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کی حکمران قیادت نے ان نکات کو سنجیدگی سے لینے یا ان پر بات کرنے یا کوئی مصالحتی راہ نکالنے یا ٹھوس یقین دہانیاں کروانے کے بجائے اجنبیت کا راستہ اختیار کیا جس کے سبب خلیج بنگال بڑھتی چلی گئی۔
تو کیا شیخ مجیب الرحمان بنگلہ دیش بنانا چاہتے تھے؟ کیا وہ غدار اور بھارتی ایجنٹ تھے؟ عام پاکستانیوں کو 1971 کے بعد سے یہی گھٹی پلائی گئی۔ اس عرصے میں دونوں حصوں کے مابین اطلاعات کی ترسیل کا نظام یحیٰی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور سیکریٹری اطلاعات روئداد خان تھے۔
شیخ مجیب کا نام اگرتلہ سازش کیس میں ڈال کر یہ تاثر دیا گیا کہ چھ نکات دراصل انڈیا کے ساتھ مل کر ملک توڑنے کی سازش ہے۔ اس کیس کی سماعت کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل بھی تشکیل دیا گیا۔ مگر جب ایوب خان کے خلاف طلبا تحریک چلی اور اقتدار پر ایوب خان کی گرفت اتنی ڈھیلی ہوگئی کہ انہیں اعلان کرنا پڑا کہ وہ اگلے صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہوں گے، انہیں قومی سیاستدانوں کی گول میز کانفرنس طلب کرنا پڑی اور مشرقی پاکستان کی قیادت کو اس کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کرنے کی قیمت پر اگرتلہ کیس واپس لے کر ٹریبونل ختم کرنا پڑا۔ اس کے بعد شیخ مجیب کا سیاسی گراف مشرقی پاکستان میں چھت سے لگ گیا۔
شیخ مجیب کی 1971 تک جتنی بھی تقاریر ہیں، ان میں سے ہر تقریر میں یہ کہا جاتا تھا کہ ہم اپنی قسمت کے مالک خود بننا چاہتے ہیں۔ کسی بھی تقریر میں انتہائی دباؤ کے باوجود یہ جملہ نہیں ملتا کہ "میں آج سے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کرتا ہوں" یا "ہمیں ایک الگ ملک بنانا ہوگا" یا "ہمیں پاکستان سے آزادی چاہیئے"۔ یہ اعلان تو فوجی آپریشن شروع ہونے کے بعد بنگالی میجر ضیا الرحمان نے چٹاگانگ ریڈیو سٹیشن پر قبضے کے بعد کیا۔
شیخ مجیب کو آپریشن کے بعد ڈھاکہ سے گرفتار کرکے ساہیوال جیل اور پھر لائل پور منتقل کیا گیا جہاں انہیں لائل پور ٹیکسٹائیل مل کے ایک کوارٹر اور اس سے متصل تہہ خانے میں رکھا گیا۔ ان پر ملک دشمنی اور بغاوت کے جرم میں مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی ٹریبونل قائم کیا گیا۔ شیخ صاحب نے ٹریبونل کا بائیکاٹ کیا۔ مگر ان کی جانب سے اے کے بروہی کو سرکاری وکیل مقرر کیا گیا۔
یہ ٹریبونل کب ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا، اس میں کیا کارروائی ہوئی، اس کا ریکارڈ کہاں ہے؟ کسی کو کچھ نہیں معلوم۔ بس اتنا ہوا کہ بیس دسمبر کو بھٹو صاحب نے اقتدار سنبھالا اور دس جنوری 1972 کو ایک خصوصی پرواز سے شیخ مجیب الرحمان اور ڈاکٹر کمال حسین کو لندن روانہ کر دیا گیا جہاں سے وہ براستہ دلی ڈھاکہ پہنچ گئے۔
فروری 1974 میں شیخ مجیب الرحمان کو لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر اہل پاکستان نے آخری بار محب وطن یا غدار کے بجائے ایک آزاد ملک کے وزیراعظم کے روپ میں بھٹو صاحب کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دیکھا۔ اس کے بعد سے باقی ماندہ پاکستان کی تاریخ میں سے مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش کا تذکرہ بھی کہیں غروب ہوگیا۔
ارے ہاں، یاد آیا۔ حکومت پاکستان نے چیف جسٹس حمود الرحمان، جسٹس انوار الحق، جسٹس طفیل علی عبدالرحمان اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ الطاف قادر پر مشتمل حمود الرحمان کمیشن بنایا جس کا ٹاسک سقوط ڈھاکہ کے ذمہ داران کا تعین کرنا اور سزا تجویز کرنا تھا۔ کمیشن نے تین سو سے زائد گواہوں کے بیانات قلم بند کرنے کے بعد رپورٹ پیش کی۔ کمیشن نے درج ذیل افسروں کا کورٹ مارشل کرنے کی سفارش کی۔
جنرل یحییٰ خان: سقوط مشرقی پاکستان کے وقت وہ صدر، چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر، وزیر دفاع و خارجہ تھے۔ بھٹو حکومت نے انہیں گھر میں نظربند رکھا۔ جنرل ضیا الحق نے ان کی نظربندی ختم کر دی۔ دس اگست 1980 کو اپنے بھائی محمد علی کے گھر میں انتقال ہوا اور آرمی قبرستان میں فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین ہوئی۔
جنرل عبدالحمید خان: یحیٰی خان کے ڈپٹی کمانڈر انچیف اور ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر رہے۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
لیفٹننٹ جنرل ایم ایم پیرزادہ: صدر کے پرسنل سٹاف آفیسر اور ناک کا بال تھے۔ وہ بھٹو اور یحییٰ کے درمیان رابطے کا مبینہ پل سمجھے جاتے تھے۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
میجرجنرل گل حسن: سقوط ڈھاکہ کے وقت وہ چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ تاہم بھٹو حکومت نے انہیں برطرف کرنے کے بجائے لیفٹننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر فوج کا کمانڈر انچیف مقرر کردیا۔ اگرچہ کمیشن نے گل حسن پر بھی کھلی عدالت میں مقدمہ چلانے کی سفارش کی تھی تاہم بھٹو حکومت نے انہیں آسٹریا میں سفیر مقرر کر دیا!
گل حسن پاکستان کے آخری کمانڈر انچیف تھے۔ ان کے بعد اس عہدے کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا گیا۔ انہیں مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپردِ خاک کیا گیا۔
میجر جنرل غلام عمر: نیشنل سکیورٹی کونسل میں یحیٰی خان کے نائب تھے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے انتخابی نتائج پر اثرانداز ہونے کے لیے پاکستانی صنعت کاروں سے فنڈز جمع کیے۔ اس زمانے میں فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے سربراہ بریگیڈیر ریٹائرڈ اے آر صدیقی کے بقول لگ بھگ دو کروڑ روپے جمع ہوئے۔ ضیاء الحق کے دور میں وہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے چیرمین رہے۔ یہ اسد عمر و زبیر عمر کے والد صاحب ہیں۔
میجر جنرل اے او مٹھا: کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مشرقی پاکستان میں پچیس مارچ کے آپریشن سرچ لائٹ کی ٹکنیکل پلاننگ میں حصہ لیا۔ 1999 میں لندن میں انتقال ہوا۔ جنرل مٹھا نے ہی آرمی کے ایس ایس جی کمانڈو یونٹ کی بنیاد رکھی۔ انہیں آخری تعزیتی سلامی بھی ایس ایس جی کمانڈوز نے ہی دی۔۔
لیفٹننٹ جنرل ارشاد احمد خان: 71 کی جنگ میں یہ ون کور کے کمانڈر تھے۔ جس کے کمانڈ ایریا میں کنٹرول لائن سے سیالکوٹ تک کا دفاع شامل تھا۔ کمیشن کی سماعت کے دوران الزام لگا کہ انہوں نے شکر گڑھ کے پانچ سو دیہات بلا مزاحمت دشمن کے حوالے کر دیے۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
میجر جنرل عابد زاہد (کمانڈر 15 کور): ان کے پاس سیالکوٹ سیکٹر کے دفاع کی ذمہ داری تھی۔ الزام لگا کہ انہوں نے سیالکوٹ سیکٹر میں پھکلیا کے علاقے میں 98 گاؤں بغیر مزاحمت کے چھوڑ دیے اور جب جنگ بندی ہوئی تو بھارتی دستے مرالہ ہیڈورکس سے ڈیڑھ ہزار گز کے فاصلے پر تھے۔
میجر جنرل بی ایم مصطفی (کمانڈر 18 کور): ان کا ٹارگٹ ایریا راجھستان سیکٹر تھا۔ ان پر الزام لگا کہ رام گڑھ کی جانب بغیر منصوبہ بندی کے عجلت میں پیش قدمی کے فیصلے سے بھاری نقصان ہوا۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
لیفٹننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی: جنرل نیازی جب ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے اس وقت تک وہ فوج کے سب سے زیادہ ڈیکوریٹڈ سولجر مانے جاتے تھے۔ کمیشن کے سامنے پیش ہونے والے گواہوں نے جنرل نیازی پر اخلاقی بے راہروی اور پان کی سمگلنگ کے الزامات بھی عائد کیے۔ میجر جنرل راؤ فرمان علی نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے جنرل نیازی سے یہ فقرے بھی منسوب کیے کہ "یہ میں کیا سن رہا ہوں کہ راشن کم پڑ گیا۔ کیا سب گائے بکریاں ختم ہوگئیں۔ یہ دشمن علاقہ ہے۔ جو چاہتے ہو لے لو۔ ہم برما میں ایسے ہی کرتے تھے"۔
میجر جنرل محمد جمشید (کمانڈر 36 ڈویژن): ان کے ڈویژن کو ڈھاکہ کا دفاع کرنا تھا۔ ان پر حمود الرحمان کمیشن نے پانچ فرد جرم عائد کیں۔ جن میں غبن، لوٹ مار اور ماتحتوں کی جانب سے نیشنل بینک سراج گنج شاخ سے ایک کروڑ پینتیس لاکھ روپے لوٹنے جیسے الزامات بھی شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 16 دسمبر کے بعد ان کی اہلیہ کے قبضے سے خاصی کرنسی برآمد ہوئی۔ پاکستان واپسی کے بعد رئیٹائر ہو کر گوشہ نشین ہو گئے۔
میجر جنرل ایم رحیم خان (کمانڈر 39 ڈویژن): ان کا ڈویژن چاند پور میں متعین تھا۔ پسپائی اختیار کرتے ہوئے 13 دسمبر کو ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر برما کے علاقے اراکان میں اتر گئے۔ مگر قسمت مسلسل یاوری کرتی رہی۔ سیکرٹری جنرل وزارت دفاع اور چیرمین پی آئی اے رہے۔ الشفا آئی ٹرسٹ کے وائس پریذیڈنٹ رہے۔
بریگیڈیر باقر صدیقی (چیف آف سٹاف۔ ایسٹرن کمانڈ): وہ ڈھاکہ کے تحفظ کے ذمہ دار افسروں میں سے ایک اور جنرل نیازی کی ناک کا بال تھے۔ ان پر الزام ہے کہ دس دسمبر کو جب جی ایچ کیو نے یہ احکامات جاری کیے کہ پسپا ہونے والے دستے اپنے آلات اور رسد کو ناکارہ بناتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑیں تو باقر صدیقی نے اس ڈنائل پلان پر عمل نہیں کیا۔ بریگیڈیر باقر صدیقی کو بعد ازاں ملازمت سے برطرف کردیا گیا لیکن پھر مختصر عرصے کے لیے بحال کرکے باعزت ریٹائر کیا گیا۔ کچھ عرصے پی آئی اے شیور کے بھی سربراہ رہے۔
بریگیڈیر محمد حیات (کمانڈر 107 بریگیڈ۔ 39 ڈویژن): ان کا بریگیڈ جیسور سیکٹر کا ذمہ دار تھا۔ وہ 6 دسمبر کو ہی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور پوری سپلائی اور اسلحہ دشمن کے ہاتھ لگا۔ بعد ازاں ریٹائر کر دیا گیا۔
ریگیڈیر محمد اسلم نیازی (کمانڈر 53 بریگیڈ، 9 ڈویژن): ان کا بریگیڈ لکشم کے علاقے میں تعینات تھا۔ وہ 9 دسمبر کو ایک سو چوبیس بیمار اور زخمی جوانوں کو چھوڑ کر نکل لیے اور سارا راشن اور ایمونیشن دشمن کے ہاتھ لگ گیا۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
بریگیڈیر ایس اے انصاری (کمانڈر 23 بریگیڈ): ان کا نام ان ایک سو پچانوے افراد کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا جن پر حکومت بنگلہ دیش جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہے۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
بریگیڈیر عبدالقادر خان (کمانڈر 93 بریگیڈ۔ 36 ڈویژن): خان صاحب فوج میں مونچھوں کے سبب زیادہ مشہور تھے۔ ان کی ذمہ داریوں میں محب وطن اور غیر محب وطن بنگالیوں کی سکریننگ بھی شامل تھی۔ باعزت رئیٹائرڈ ہوئے۔
ڈھاکہ ڈوبا، اس نے ڈوبنا ہی تھا۔ پٹ سن اور چاول پیدا کرنے والی زمین آج معاشی طور پر ہم سے بہتر حالات میں ہے۔ کسی نے طاقت کے نشے میں شیخ مجیب کو کہا تھا " اوئے سن! تو دو ٹکے کا بھی نہیں" اور آج ہم ایک ٹکے کے ڈھائی ہیں (ایک بنگالی ٹکا= ڈھائی پاکستانی روپے)۔
کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کہنا کسے ہے۔ "ہم کہ ٹھہرے اجنبی۔۔ "