Mera Gaun
میرا گاوں
انسان کو اپنے گھر سے محبت گویا ایسے ہے جیسے اس کے بغیر زندگی لاحاصل ہو۔ اپنا گھر اپنی چھت اور چاردیواری پوری دنیا سے بہتر پرسکون اور بہترین مقام کی حامل ہوتی ہے۔ آپ پوری دنیا میں سیاحت کریں بہترین اور خوبصورت نظاروں کے منظر عکس بند کریں مگر اپنے درو دیوار کا سایہ آپکے ذہن میں کھٹک رہا ہوتا ہے۔ اپنے گھر سے محبت فطری ہے۔
بچپن لڑکپن دوست رشتے دار سکول لائف اور سب سے بڑھ کر والدین بہن بھائیوں کا دیا گیا انس انسان کیلئے جیسے مکمل محور محبت بن جاتا ہے اور اس محبت کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی کہاسکتا ہے کہ زندگی کا دوسرانام ہی اپنے گھر اور مکان چاردیواری کو سمجھاجاسکتا ہے۔
ایشیائی ممالک کے علاوہ باقی ممالک میں بھی شہروں کے علاوہ دیہاتوں میں آبادیاں قائم ہیں۔ ایسے ہی کچھ میرے وطن عزیز میں شہروں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ٹاون گاوں چکوک اور بستیاں آباد ہیں۔ جس طرح انسان کو اپنے گھر سے محبت فطری ہے اس طرح اپنے گاوں اورمحلے سے محبت بھی فطری تقاضا ہے۔
آپ دنیا کی رونقیں دیکھیں۔ حسن دیکھیں۔ بہترین نظاروں کے باوجود بھی جو رونق، جو نظارہ، جو حسن، جو محبت، جو اپنائیت آپکو اپنے گاوں سے ہوگی وہ دنیا میں کہیں نہیں ملے گی۔ شہر کے برعکس دیہات کی زندگی میں کافی فرق ہوتا ہے اور یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ شہر کی زندگی میں جہاں بہترین سہولیات آپکو میسر ہوتی ہیں جیسے بجلی گیس سکول کالج دوکانیں۔
مگر وہاں محبت اپنائیت رشتے داری اور ایک دوسرے کا دکھ درد میں شریک ہونے کو بڑا محدود کردیا گیا۔ اگر آپ ایک محلے میں رہتے ہیں تو شاید نکر والی دوکان اور ایک دو پڑوسی سے تعلق وقتی ضرورت ہوتا ہے۔ جبکہ گاوں میں آپکو مختلف روایات مختلف طورو اطوار ملیں گے۔
ناچیز کا تعلق ایک گاوں سے ہے اور میں ذاتی طور پر گاوں کی زندگی کا ایک مکمل باضابطہ باوثوق شائق ہوں۔ میرے گاوں میں آج بھی اگر موسمی اعتبار سے کوئی سوغات گھر میں تیار کی جاتی ہے تو فیملی ممبران سے پہلے پڑوسیوں کو (چکھائی) دی جاتی ہے۔ تیماداری کو فرض عین سمجھا جاتا ہے۔
خالہ کے سسرال کے سسرالیوں کے تعلق داروں سے بھی برتاو اور محبت شفقت پیش پیش رہتی ہے۔ بارش کے فوراََ بعد ایک دوسرے کی خیر خیریت پوچھنے کیلئے باقاعدہ فون کالز کا استمال کیا جاتا ہے۔ اس نے ہمارے گھر فلاں چیز بھیجی ہے اب برتن خالی جاناتو جیسے توہین اور ذلت امیزی ہو۔
جس ڈیرے پر بیٹھک کی سہولت ہو اسکو تمام گاوں والے آباد رکھنا اپنا آئینی فرض سمجھتے ہیں اور تبادلہ خیالات کے ساتھ ساتھ لڈو اور چھلا چھپائی میں محو کب رات گزری خیال تک نہیں رہتا۔ آپ کی فصل کو فلاں بیماری ہے میری طرح آپ بھی فلاں دوائی کا استعمال کریں جو کافی حد تک بہتر ہے اور تجربہ شدہ ہے۔
شادی تو جیسے پورے گاوں کیلئے خوشیاں لاتی ہے، سرائیکی جھمر کے ساتھ ساتھ تالیوں کی گونج دوسرے گاوں سنانا لازمی ہوتا ہے۔ پرانے بابے آج بھی پرانے دور کے قصے انتہائی تزک و احتمام کے ساتھ سناتے ملتے ہیں۔
اب جس جگہ گنجان آبادی ہے وہاں پر تو جنگلی بوٹیاں ہم نے خود تلفیں جیسی انمول تاریخ اور جس جگہ مسجد ہے یہاں ہمارا سب سے پہلے ٹیوب لگایا گیا جیسی جدت امیز خبریں بھی ساتھ ساتھ سماعت کو رس بھری سنائی جاتی ہیں۔
گھر میں مہمان کی آمد کا تب اندازہ ہوتا ہے۔ جب مرغا جان کے دشمنوں سے جان چھڑانے کیلئے زور زور کی آوازیں نکال کر بھاگ رہا ہوتا ہے۔ یہاں انڈہ، شہد، باجرے کا حلوہ موٹی سویاں اور سردیوں میں ساگ کو لگژری حثیت حاصل ہوتی ہے۔
یہاں سکول دور ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے تمام پڑوسیوں کے بچوں سے مشورے کی بہترین مجلس کے بعد باقاعدہ مشورہ طے پایا جاتا ہے کہ آج سکول جانا ہے یا فلاں کا دادا فلاں کی نانی جو کافی مرتبہ چھٹیوں کا سبب بن چکے ہوتے ہیں کو پھر اساتذہ کرام کے آگے منہ لڑکا کر مرحوم بتایا جائے کا آرڈیننس پاس کیا جاتا ہے۔
خالص تازہ سبزیاں دیسی گھی مکھن اور چھاچھ ہر گھر میں موجود رکھنے کو اولین ترجیح سمجھا جاتا ہے۔ خالص اشیائے خوردو نوش کے ساتھ ساتھ رشتوں میں اپنائیت اور خالصیت پر زبردست قسم کی توجہ دی جاتی ہے۔ جب یہ بہاریں یہ ریت و رواج انسان کے اندر پیوست ہوجاتے ہیں تو پھر جنت نظیر میں بھی دل نہیں لگتا اور اپنا گھر اپنا گاوں جنت کا سامان لگتا ہے۔