Haram e Pak Se Aik Ajzana Tehreer
حرم پاک سے ایک عاجزانہ تحریر
آج سرِ راہے اس سے ملاقات ہوگئی۔ چہرے پر خوشی کے چراغ روشن تھے، جیسے کسی خواب کی تعبیر پا لی ہو۔ اس نے مسکراتے ہوئے چائے کی پیشکش کی اور میں نے بخوشی قبول کر لی۔ یوں محسوس ہوا کہ چائے کے گرما گرم پیالے کے ساتھ کوئی مقدس کہانی بھی میرے سامنے رکھ دی گئی ہو۔ وہ اپنی حجِ بیت اللہ کی مسحور کن داستان سنانے لگا، ایسی داستان جس میں تقدس، شوق اور عشق کا رنگ جھلکتا تھا۔
وقت جیسے اپنی رفتار بھول گیا ہو، منظر مسلسل بدلتے رہے، کہانی اپنے عروج پر رہی اور چائے کے پیالے ایک کے بعد ایک خالی ہوتے رہے۔ اس لیے کہ کہیں ہوٹل والے کے وقت ختم ہونے کا اعلان اس روح پرور کہانی کے سحر کو توڑ نہ دے، چائے کا آرڈر پہ آرڈر چلتا رہا۔ لیکن وہ لمحے، وہ کہانی اور اس کی پراثر آواز دل پر نقش کر گئے، جیسے کسی پرانے نسخے میں مقدس الفاظ محفوظ کر دیے گئے ہوں۔
یہ کہانی حج بیت اللہ کی مقدس سرزمین پر ان لمحوں میں رقم کی گئی، جب ہر سانس دعاؤں کی خوشبو سے معطر تھی اور ہر نظر کعبہ کی جانب محوِ شوقِ پرواز۔ یہ ان مبارک ساعتوں کا بیان ہے، جب وقت جیسے رک سا گیا ہو اور مقام نے اپنی تقدیس سے دلوں کو جکڑ لیا ہو۔ حرم کے گنبد تلے، جہاں انسان اپنے وجود کی حقیقت سے آشنا ہوتا ہے، یہ الفاظ گویا دل کی دھڑکنوں سے صفحے پر منتقل ہوئے۔ یہاں ہر حرف طواف کے دائرے کی طرح مسلسل اور ہر جملہ مقامِ ابراہیم کی طرح مضبوط ہے۔ یہ کہانی صرف تحریر نہیں، ایک روحانی تجربہ ہے، جو اس وقت اور مقام کی روشنی میں ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔
"اللہ کے خصوصی فضل و کرم اور آپ سب کی دعاؤں سے، آج میں حرم پاک کی مقدس سرزمین پر موجود ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس سال حج بیت اللہ کی سعادت عطا فرما کر مجھے اپنے ان گنت بندگانِ توحید کے قافلے میں شامل کر لیا ہے۔ یہ لمحہ کسی گناہگار کے لیے ایسا ہے جیسے صحرا میں بارش کی پہلی بوند۔ ابھی خانہ کعبہ کی پہلی منزل پر ایک گھنٹے کا طواف مکمل کیا ہے، جہاں دعا کرتے ہوئے آپ سب کو یاد رکھا۔ دل نے کہا کہ ان پاکیزہ ساعتوں کا ذکر کرتے ہوئے آپ تک ان لمحات کی خوشبو پہنچائی جائے۔
یقیناً کچھ لوگ سوچیں گے کہ ایسی مبارک گھڑیاں لکھنے میں ضائع نہیں کرنی چاہئیں، لیکن میرا ماننا ہے کہ ان لمحات کی روشنی بانٹنا اور ان کا ذکر کرنا بھی عبادت ہے۔ شاید میری یہ تحریر کسی کو حج کی تیاری کی ترغیب دے سکے اور اللہ اسے اپنے گھر کی زیارت کا موقع عطا فرمائے۔
یہاں ہر رنگ و نسل، ہر خطے اور ہر زبان کے لوگ موجود ہیں۔ مختلف چہرے، مزاج اور عادات کا ایک سمندر ہے، لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ سب ایک شاندار نظم و ضبط کے ساتھ حرکت میں ہیں۔ ہر شخص اللہ کے حضور جھکا ہوا، محبت اور صبر کا پیکر دکھائی دیتا ہے۔ بزرگ، جوان، معذور اور بچے سبھی ایک ان دیکھی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔
میں نے یہاں کئی ایسے حجاج کو دیکھا، جن کے بازو یا ٹانگیں نہیں تھیں، وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے بچے، محبت سے ان کی کرسیاں دھکیل رہے تھے۔ ایک اماں جی کو دیکھا، جو وہیل چیئر پر مزے سے بیٹھی اپنی کھونڈی کی ہلکی ضربوں سے لوگوں کو ہٹاتی راستہ بناتی جا رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک پیار بھری ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتے جارہی تھیں۔ ان کے اس عمل میں بھی محبت کا ایک منفرد انداز چھپا ہوا تھا، جیسے ہر نانی دادی کے پیار اور ڈانٹ میں ہوتا ہے۔
حرم شریف میں صفائی کا انتظام بے مثال ہے۔ ہر فلور پر آبِ زم زم کی سبیلیں موجود ہیں۔ جہاں لوگ بے دریغ پانی پیتے اور گراتے ہیں، وہیں صفائی کے عملے کا مستعد ہونا اس جگہ کی عظمت کا گواہ ہے۔ وضو خانے بھی ایسے صاف ہیں جیسے یہاں کسی نے قدم ہی نہ رکھا ہو یا بالکل ابھی ابھی دھوئے گئے ہوں۔ حالانکہ لوگوں کا ایک جمِ غفیر انہیں مسلسل استعمال کر رہا تھا۔ لیکن، افسوس کی بات یہ ہے کہ لوگوں میں ذمہ داری کا فقدان نظر آتا ہے۔
خانہ کعبہ کے اندر گیلی چپلوں کے ساتھ داخل ہو جانا، مطاف میں جوتے پہن کر طواف کرنا، یا پینے کے پانی سے وضو کرنا، یہ سب رویے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ہم تقدس کا کتنا کم احترام کرتے ہیں۔
یہی منظر منٰی کی تاریخی مسجد الخیف میں دیکھا کہ لوگ مسجد کے اندر پڑے کوڑے کے ڈرم میں پینے کے پانی سے وضو کر رہے تھے، جب کہ بالکل ساتھ ہی سینکڑوں صاف ستھرے وضو خانے موجود تھے۔ یہ رویہ صرف غیر ذمہ داری ہی نہیں بلکہ ناشکری کے زمرے میں آتا ہے۔
یہاں ایک منظر نے مجھے خاص طور پر افسردہ کیا۔ ایک باپ اپنے تیرہ چودہ سالہ بچے کو مسجد کے اندر پڑے کوڑے کے ڈرم میں پانی کی بوتل سے وضو کرواتا دکھائی دیا۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ جب والدین خود بچوں کو ایسے غیر ذمہ دارانہ رویئے سکھائیں گے تو یہ نسل کل کو کیا کرے گی؟
کچرا دان موجود ہونے کے باوجود، لوگ پانی کی خالی بوتلیں اور دیگر کچرا مسجد کے اندر پھینک دیتے ہیں۔ یہ وہ عمل ہے جو نہ صرف جگہ کے تقدس کو مجروح کرتا ہے بلکہ خود ہمارے کردار کی گواہی بھی دیتا ہے۔
ان مشاہدات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حرم پاک جیسی جگہ پر بھی ہم اپنی عادات بدلنے کو تیار نہیں۔ اللہ ہمیں یہاں ایک عظیم موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں، لیکن ہم بے دھیانی اور لاپرواہی میں اسے ضائع کر دیتے ہیں۔
آئیے، دعا کریں کہ اللہ ہمیں نہ صرف یہاں کے تقدس کو سمجھنے اور اس کا احترام کرنے کی توفیق دے، بلکہ اپنی زندگیوں میں وہ نظم و ضبط اور عاجزی پیدا کرنے کی ہمت بھی عطا فرمائے، جو یہاں کے ماحول سے ہم سیکھ سکتے ہیں۔
یہ چند تاثرات، اس امید کے ساتھ تحریر کیے ہیں کہ شاید ہم سب اپنے اندر ذمہ داریوں کا شعور پیدا کر سکیں اور اس مبارک جگہ سے ملنے والے سبق کو اپنی زندگی کا حصہ بنا سکیں۔ "
یہ مقدس، دل کو چھو لینے والی اور روح پرور داستان اپنے دلگداز اختتام کو پہنچی۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی جانب تشکر و ممنونیت کے جذبات سے دیکھا، دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا۔ آنکھوں میں تشکر کی جھلک اور لبوں پر خاموش دعائیں تھیں۔ پھر تقدیر کے اسرار میں گم ہوتے اپنے اپنے راستے کی طرف بڑھ گئے، جیسے زندگی کے بہتے ہوئے دریا میں دو لہریں ایک پل کو مل کر جدا ہو جائیں۔