Pakistani Muashray Ke Nikamme Mard
پاکستانی معاشرے کے نکمے مرد
مرد جو بھائی، بیٹا اور شوہر کے روپ میں عورت کے لئے تحفظ، اعتماد اور سہارے کا باعث ہے وہیں کچھ ایسے مرد بھی ہیں جو نکمے کاہل اور سست الوجود ہیں۔۔ آج یہ تحریر لکھنے کا باعث ہماری ماسی کے منہ سے ادا ہونے والا فقرہ بنا جب اس نے نہایت آزردہ لہجے میں کہا۔
"باجی یہ مرد عورت کو کھا جاتے ہیں، یہ مرد نہیں ہوتے مرض ہوتے ہیں"۔
نہایت یاس سے کہا گیا جملہ دل میں پیوست ہوگیا۔
جب مرد گھر کا خرچہ دینے کے بجائے عورت سے ہی پچاس سو مانگے، نہ دینے پر مغلضات بکے، گھر میں پڑا موبائل دیکھتا رہے ایسے میں عورت جب بلکتے بچوں کو دیکھتی ہے تو اپنی قسمت کو کستی نکمے مردوں پر دو حروف بھیجتی وہ جھاڑو پوچھا کرتی ہے تو کہیں برتن دھوتی ہے۔ جان رگڑ کر پیسہ کماتی ہے، وہ بھی شوہر لینے کے لئے سر پر کھڑا ہو جاتا ہے۔۔
یہ تو خیر ہمارے غربت کی چکی میں پسے طبقے کی کہانی ہے لیکن ہمارے معاشرے کے کچھ گھروں میں ایسے ماؤں کے لاڈلے بھی پائے جاتے ہیں جو ہل کر پانی بھی نہیں پیتے، کام کاج کچھ پتہ نہیں ہوتا اور مائیں بڑے چاؤ سے ایسے سپوتوں کی دلہنیں لے آتی ہیں شروع کے کچھ سال باپ کی کمائی پر گزر جاتے ہیں، لیکن جب کوئی سہارا نہیں رہتا ان پر ذمے داری پڑتی ہے سو میں کتنے بیس ہیں جانچنے کا وقت آتا ہے یہ بے حوصلہ ہو جاتے ہیں ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے کہ کچھ کرنا آتا ہی نہیں زندگی کا سامنا کیسے کریں، یہ گھر کی عورت کو مایوس ہو کر بےچارہ بن بن کر دکھاتے ہیں، محنت کبھی کی نہیں ہوتی نہ اپنی جان کو محنت کا عادی بناتے ہیں نتیجتاً اونٹ نہ روئیں روئیں بورے کے مصداق الٹا عورت پر بوجھ بنتے ہیں۔۔ اب عورت ان بے حوصلہ نکمے مروں کا بوجھ ڈھوئے یا گھر بار دیکھے۔۔
آج کل جب مہنگائی کا سانپ سب کو ڈس رہا ہے اس سے صورت حال سے نمٹنے کے لئےعورت بھی مرد کا معاشی سہارا بننے کی کوشش کرتی ہے کئی پیشے اپناتی ہے۔۔ ساتھ ساتھ گھر بار بھی دیکھتی ہے یوں دونوں مل کر زندگی کی گاڑی کو چلاتے ہیں لیکن نکمے اور کاہل مرد سارا بوجھ عورت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ ہمارے معاشرے کے ان نکمے اور نکھٹو مردوں نے عورت کو بہت رلایا ہے اور ان ک زندگی کو عجیب سی گھٹن میں دھکیل دیا ہے۔۔
ایسی عورتیں جن کے مرد نکمے اور بے حوصلہ ہوں وہ بے چاری نہ معاشرے میں سر اٹھا کر جی پاتی ہیں نہ زندگی کی بہاروں سے لطف اندو ہو پاتی ہیں، حسرتیں آنسو پریشانیاں گھیرے رکھتی ہیں، زندگی گویا کانٹوں بھرا راستہ بن کر رہ جاتی ہے۔
کاش کہ مائیں جب اپنے بچوں کی تربیت کریں تو نہ صرف ان کے لاڈ اھائیں بلکہ معاشرے کا مضبوط مرد بھی بنانے کی کوشش کریں تاکہ وہ زندگی کے مسائل کا ڈٹ کر سامنا کر سکیں نا کہ مشکل کے وقت شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپا لیں۔۔