Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat
خواجہ سراؤں پر تشدد کے بڑھتے واقعات
لیہ ضلع بھر میں خواجہ سراء اور خواتین غیر محفوظ، خاتون وزیر اعلی کے دور میں صنف نازک پر تشدد کے واقعات بڑھنے لگے۔ گزشتہ روز لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کے بعد فتح پور میں بھی خواجہ سرا پر بہیمانہ تشدد کا واقعہ سامنے آ گیا۔
گلاب نامی خواجہ سرا کا دو نوجوانوں پر تشدد کرنے اور سگریٹ سے جسم جلانے کا مبینہ الزام۔۔ خواجہ سرا گلاب کے ویڈیو بیان کے مطابق آصف اور سکندر نے سر کے بال کاٹے، برش سے مارا پیٹا پچاس ہزار روپے نقدی بھی چھین لی۔ ضلع لیہ میں روزانہ کی بنیاد پر خواجہ سراؤں پر ظلم اور زیادتی کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔
گلاب نے اپنے ویڈیو بیان میں مزید کہا کہ کیا ہم انسان نہیں ہیں جو ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا جاتا ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ متاثرہ خواجہ سرا کا وزیر اعلی پنجاب اور آئی جی پنجاب سے نوٹس لیکر انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔۔
سوشل میڈیا پر خواجہ سرا کے ویڈیو بیان وائرل ہونے کے بعد اور خواجہ سرا کی درخواست پر تھانہ فتح پور پولیس نے تشدد کے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا۔ بعدازاں تشدد میں ملوث دو ملزمان میں سے مرکزی ملزم سکندر کو گرفتار کر لیا۔
ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ بہت جلد دوسرے ملزم کو بھی گرفتار کرکے پابند سلاسل کیا جائے گا اور قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ ابھی چند دن پہلے ہی لیہ کی تحصیل کروڑ لعل عیسن کے سالانہ میلے پر خواجہ سرا کو مبینہ طور پر اغوا کے بعد تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعے پر 3 نامزد اور 2 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا تھا۔ خواجہ سرا نے الزام لگایا تھا کہ میلے سے واپسی پر 5 افراد نے اسلحے کے زور پر اسے اغوا کیا اور تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ اس سے نقدی اور زیورات چھین کر جنگل میں پھینک دیے گئے تھے۔
پاکستان میں"ٹرانس بیشنگ" سے مراد وہ تشدد اور واقعات ہیں جو ملک میں خواجہ سرا افراد کے خلاف رونما ہوئے تھے۔ خواجہ سرا افراد کے حقوق کو قانونی طور پر پاکستان کے قانون کے ذریعہ تحفظ فراہم کیا جاتا ہے اور اس سے ملک میں غیر جنس پسند لوگوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد پر پابندی لگاتا ہے۔ پاکستان میں 2015 سے اب تک 150 ٹرانسجینڈر افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور متعدد واقعات میں 1,502 افراد کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی تھی۔ 2018 میں، اطلاعات کے مطابق، خواجہ سرا افراد نے خیبر پختونخوا میں 479 تشدد کے واقعات کا سامنا کیا۔
ستمبر 2020 میں، ایک نامور خواجہ سرا کارکن گل پانڑا کو، ٹرانس ایکشن پاکستان، ٹرانسجینڈر حقوق کے تحفظ کے لیے وقف تنظیم کے مطابق، 6 بار گولی ماری گئی۔
نایاب علی کو مبینہ طور پر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ایک خواجہ سرا ہونے کے جرم میں تیزاب سے حملہ کا نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان میں، دونوں طرف سے ہونے والے تشدد کی وجہ سے خواجہ سراؤں پہ تشدد اکثر ہوتا ہے۔ خواجہ سرا افراد کا استدلال
کیا جاتا ہے کہ غیر ٹرانسجینڈر لوگوں کے خلاف تشدد میں حصہ لیتے ہیں۔ 2017 میں، کراچی میں خواجہ سرا افراد کے ایک گروپ نے ایک شخص کو ہلاک کر دیا۔
سن 2019 میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شمع کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کے شہر پشاور میں نو افراد نے ایک خواجہ سرا صحافی کے ساتھ عصمت دری کی۔ باعزت روزگار اور خاندان کی مدد نہ ملنے کی وجہ سے خواجہ سراؤں کی اکثریت سڑکوں پر بھیک مانگتی یا شادی بیاہ میں ڈانس کرتی دکھائی دیتی ہے۔
سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی نے بھی ملک میں موجود تیسری صنف یعنی خوجہ سراؤں کے وجود کو تسلیم کرنے اور انھیں بنیادی
انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے بل پاس کیا ہے۔ دا ٹرانسجینڈر پرسن پروٹیکشن آف رائٹس بل 2018 جو اب ملکی قانون کا حصہ بن چکا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قانون پر باقاعدہ عمل درامد کروایا جائے۔