Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Khateeb Ahmad
  4. Aik Ustad Ki Mushkilat

Aik Ustad Ki Mushkilat

ایک استاد کی مشکلات

میرے کچھ دوست مجھ سے خفا ہیں کہ تمہیں سکول جاب نہیں چھوڑی چاہئیے تھی۔ تمہیں نام ملا پہچان ملی قابلیت بڑھی تو اسی ورک پلیس پر رہتے ہوئے اور اب تم بھی ٹیچنگ چھوڑ کر ہماری طرح پیسے کمانے کی دوڑ میں لگ گئے۔ اس راہ کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ امریکہ مقیم ایک قریبی دوست نے جب بہت لمبی تقریر سنا لی تو میں نے کہا بھائی چار ہزار ڈالر آپ کی تنخواہ ہے نا ماشا اللہ؟ بولے ہاں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے ایک ہزار ڈالر مجھے بھیج دیا کرو ہر ماہ میں کل ہی سکول جائن کر لیتا ہوں۔ بولے یہ کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا یہ وہی بات ہوئی جو تمہیں سجھ ہی نہیں آرہی۔ بولا کیوں تنخواہ میں گزارہ نہیں ہوتا؟ میں نے کہا آؤ پاکستان اور پانچ سو ڈالر میں گزارہ کرکے دکھاؤ زرا مجھے۔ اچھا کام ہے، نیکی ہے، بھلائی ہے سب کچھ ہے۔ مگر ان باتوں سے کچن نہیں چلتا، گاڑی میں نیکی ڈالنے سے وہ سفر نہیں کرتی پٹرول خریدنا پڑتا ہے، ایک مہینے کی گراسری تھوڑا سا ہاتھ کھلا کر خریدیں تو منہ دوسری طرف لگا دیتی ہے۔

میں سپیشل بچوں کا استاد ہوں۔ جب میری اپنی فنانشل پوزیشن ڈانواں ڈول ہے۔ جوڑ توڑ کرکے مہینہ گزارنا پڑتا ہے۔ تو میں ان بچوں کو انسپائر صرف باتوں سے کیسے کر سکتا ہوں؟ اور نجانے کس بیوقوف کے بچے نے ٹیچر کی سیلری کو دیگر ملازمین کی سیلری کے سکیل میں فکس کر دیا ہوا ہے۔ خیر جب میں کسی سپیشل پرسن کو فنانشل Independence کا درس دیتا تو میری بات میں کوئی خاص وزن نہیں ہوتا تھا کہ میں خود کہاں کھڑا ہوں اور ایک سپیشل بچے کی پرورش کرنے اسکے علاج اور تعلیم پر کتنی پیسے لگتے ہیں، وہ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے؟ اگر میرا اپنا کوئی سپیشل بچہ ہو تو اسے اس آمدن میں کیسے میں Raise کر سکتا ہوں؟ والدین کی مجبوریاں سن کر کئی بار ایسا ہوا اپنی تنخواہ سے انکی مدد کر دی اور بعد میں چھوٹے بھائی یا ابو جی سے پیسے لے کر اگلی تنخواہ آنے تک اپنا ٹائم پاس کیا۔

خیر ٹیچر کی جدید ڈیفی نیشن اب سبق پڑھانا اور ہوم ورک دینا اور کاپیاں چیک کرنا نہیں بلکہ انسپائر کرنا اور موٹی ویٹ کرنا اور لائف اسکلز سکھانا ہے۔ ایک انٹرویو میں سلیم صافی ملک ریاض کا انٹرویو کر رہا تھا۔ ملک ریاض پر وہ ایک اعتراض کرتا ہے کہ آپ درست راہ چھوڑ کر کیوں چور راستے اپناتے ہیں اور اپنے کام نکلواتے ہیں۔ ملک ریاض نے اسے کہا کہ آپ نے کبھی باتیں کرکے پیسے کمانے کے سوا کوئی چیز بیچ کر یا کوئی کام کرکے پیسے کمائے ہیں؟ وہ آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ ملک ریاض نے اسے کہا صاف جواب دو۔ یہ یہاں بیٹھ کر مداری لگائے رکھنے اور ہر کسی کی پگڑی اچھالنے کی بجائے تم کوئی کام کر رہے ہوتے تو تمہیں سمجھ آتی کہ چور راستے ہم کیوں اپناتے ہیں۔

بلکل اسی طرح ایک استاد کن مالی مشکلات سے دو چار ہوتا ہے اور اسکی پرسنیلٹی پر ان مسائل کا کیا اثر پڑتا ہے، اسکا مورال کتنا ڈاؤن ہوتا ہے۔ اس بات کو یہ سب سہنے والا ایک استاد ہی سمجھ سکتا ہے۔ مشورہ دینے والوں اور ہمیں دیکھنے والوں نے تو ایک استاد کو یہی سمجھ لیا ہوا ہے کہ ساری عمر بائیک پر بیٹھا خاک اڑاتا اور اپنے سر میں ڈالتا رہے۔ کوئی اچھا لباس اور جوتا اسکے استعمال میں نہیں آسکتا، گاڑی تو سوچیں ہی نہیں، جس نے لے بھی تو اسے عجیب نظروں سے دیکھا جاتا، سکول ٹیچر کی بات کر رہا ہوں، گرمی کا موسم ہو تو پنکھا لگا کر ویہڑے میں سوئیں اے سی چلا لیا تو بل کہاں سے دینا ہے اور اس سے پہلے اے سی لینا کہاں سے ہے؟ میرے ایک کولیگ نے اپنا بیٹا یونیورسٹی داخل کروایا اور سرکاری یونیورسٹی تھی۔ وہ مجھے پتا ہے پیسے ہم نے کیسے ارینج کیے۔

ایک استاد کا لائف اسٹائل اور اٹھن بیٹھک نہ صرف اس نے بلکہ معاشرے نے بھی طے کر دی ہوئی ہے اور اس کو ویسا ہی بن کر رہنا ہے اور ایک خاص قسم کی سفید پوش لوئر مڈل کلاس سے اوپر نہیں آنا۔

بہرحال یہ بات کہیں اور چلی گئی۔ جو باتیں میں کسی اور کہتا کہ اپنا کمفرٹ زون توڑو، لوکیشن بدلو، سفر کرو فلاں ڈھمکاں، وہ سب کچھ میں خود نہیں کر رہا تھا۔ صرف باتیں کرکے پیسے کمانے والے پاکستانی موٹی ویشنل اسپیکرز کی موجودہ حالت سے ہر کوئی واقف ہے۔ باتوں کے باغ لگانا بڑا آسان سے کمفرٹ زون کو توڑنا بہت مشکل ہے۔ ابھی توڑا ہے ناں سیلری بند ہوئی ہے تو لگ سمجھ گئی ہے۔

میرے ساتھ فیس بک پر اور ذاتی زندگی میں جڑے ہوئے چار لوگ مجھے بہت عزیز ہیں۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، دوسرے نمبر پر اساتذہ اکرام اور علمائے اکرام، تیسرے نمبر پر سپیشل بچوں کے والدین اور چوتھے نمبر پر سپیشل افراد خود۔

میں خود بھی انہی کا حصہ ہوں۔ پیسہ کمانا اور کروڑوں روپے اکٹھا کرنا میرا کبھی بھی مقصد نہیں رہا۔ نہ ہی میں اب اس سفر کا مسافر بنا ہوں۔ میں نے صرف کمفرٹ زون توڑا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ میری نیت اور میرے مقصد میں مجھے کامیاب کرے اور مجھے اس قابل کرے کہ اوپر بیان کردہ چاروں گروپس کے لیے کچھ بہتر کر سکوں۔

نوجوان ہیں تو گواچی گاں کی طرح گھوم رہے ہیں۔ اساتذہ اور علما کا حال سب کے سامنے ہے۔ اب میں کسی کو کمفرٹ زون سے نکلنے اور نئے سفر کا سبق پڑھاؤں گا تو مجھے خود اچھا لگے گا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ میں نے اپنی فیلڈ ہی بدل لی ہے۔ بلکہ میں نے تو اپنی فیلڈ سے وابستہ لوگوں اور ہمارے سارے جڑے ہوئے طبقے کو ہی بدلنے کا آغاز کیا ہے۔ میں دنیا بھر میں جہاں بھی رہوں، تھوڑی سی بریک کے بعد دوبارہ سکول جاؤں گا، وہ کسی بھی خطے کے بچے ہوں، ان کو پڑھاؤں گا اور ان کو بتاؤں گا کہ معذوری کو شکست صرف دو ہی چیزیں دے سکتی ہیں۔ ایک آپ کا عزم اور ہمت دوسرا آپکی مالی پوزیشن۔ میں اپنے آپ کو ایک کلاس ایک سکول، ایک شہر، ایک صوبے، ایک ملک، ایک ریجن، ایک زبان، ایک مذہب کے سپیشل بچوں تک محدود رکھنے کے لیے نہیں بنا ہوا۔

دو ماہ قبل سکول میں اپنے آخری ورکنگ ڈے کے اختتام پر ان دو جماعت ہشتم کے ڈیف بچوں کے ساتھ تصویر بنائی تھی جو دس سال پہلے جب میں سکول ٹیچر بھرتی ہوکر گیا تو وہ بھی پہلی بار کسی سکول داخل ہونے آئے تھے اور ماشااللہ میرے ہاتھوں میں جوان ہوگئے۔

ایک اچھا وقت گزار ایک خاص لوکیشن پر ایک خاص اور باعزت پوسٹ پر۔ شکر الحمدللہ وہ ایک اسٹیج تھی جو تمام ہوئی۔ زندگی باقی سفر باقی، نئی منزلوں کا تعاقب ہے اور نیا سفر درپیش ہے۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔

Check Also

Platon Ki Siasat Mein Ghira Press Club

By Syed Badar Saeed