معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری
انتخابات ہو گئے، اب ہمیں معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور معاشی استحکام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہ آ جائے۔ اشرافیہ کا معاملہ الگ ہے، وہ وسائل کے چشموں پر خیمہ زن ہے اور مزے میں ہے۔ عام آدم کا برا حال ہے، اسے ہر پہر پیاس بجھانے کے لیے کنواں کھودنا پڑنا ہے اور حالات نے اسے گھائل کر دیا ہے۔ اشرافیہ سیاست برائے سیاست کی متحمل ہو سکتی ہے لیکن عام آدمی نہیں۔ عام آدمی اب چاہتا ہے کہ معیشت کچھ بہتر ہو اور وہ اپنے حصے کی کچھ خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکے۔
سوال یہ ہے ہماری جمہوریت محض ایک تماشے کا نام ہے یا یہ زندگی کے سلگتے مسائل کا کوئی حل بھی تلاش کر سکتی ہے۔ ہماری سیاست ہر دم ہنگامہ خیزی پر مائل ہے۔ کچھ نیا ہو جائے۔ کوئی تماشا لگ جائے۔ بریکنگ نیوز بن جائے، واہ واہ ہو جائے۔ نیم خواندہ معاشرے میں سیاست ایک مکمل اداکاری ہوتی ہے۔ (جی ہاں معاشرہ ڈگریوں کے بوجھ تلے بھی نیم خواندہ ہو سکتا ہے۔
سیاسی اور سماجی شعور سے بے بہرہ اور کمر پر فیسوں کی ادائیگی کے ثبوت کے طور پر لدی رسیدیں، جنہیں آج کل ڈگریاں بھی کہا جاتا ہے)۔ یہاں بسا اوقات کارکردگی پیچھے رہ جاتی ہے اور اداکاری جیت جاتی ہے۔ سرخرو ہونے کے لیے یہاں لازم نہیں کہ کام کس نے اچھا کیا ہو، سرخرو ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ ڈاائیلاگ کس نے اچھے بولے۔ جسے ان نتائج فکر سے اختلاف ہو وہ دائیں بائیں دیکھ لے کہ معاشرے میں کارکردگی کے نمبر کتنے ہیں اور پروپیگنڈے ا ور ڈائیلاگ کے کتنے ہیں۔
ایسے معاشروں میں تعمیر سے زیادہ ہیجان بکتا ہے۔ تعمیر ٹھہرائو مانگتی ہے۔ تعمیر کے لیے خاموشی، یکسوئی اور تسلسل کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ معاشرے کا عمومی سیاسی مزاج اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسے روز ایک نیا تماشا چاہیے۔ روز نیا ڈائیلاگ، نئی اداکاری۔ چنانچہ سیاست تسلسل اور ٹھہرائو کی بجائے ہیجان کا شکار ہو جاتی ہے۔ ہیجان کی سیاست سب سے آسان ہوتی ہے۔ کوئی سوال نہیں ہوتا۔ کہیں کارکردگی زیر بحث نہیں آتی۔ بس نفرت اور عقیدت کا الائو دہک رہا ہوتاہے اور اس میں چند ڈائیلاگ، دو چار بڑھکیں اور سچا جھوٹا پروپیگنڈا کافی رہتا ہے۔
انتخابات کے بعد اس عمومی رویے میں بدلائو آ جانا چاہے۔ ہیجان کو انتخابی مہم میں کسی حد تک گوارا کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے بعد نہیں۔ انتخابات کے بعد چیزوں کو تھم جانا چاہیے۔ چیزیں اگر انتخابات کے بعد بھی نہ تھم رہی ہوں تو پھر سب کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے کہ اصلاح احوال کیسے ممکن ہے۔ قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کا احوال ہمارے سامنے ہے۔
حکومت تو بن گئی لیکن ایوان میدان کارزار کا منظر پیش کرتا رہا۔ یہ غریب قوم ایک دن کے اجلاس پر اوسطا آٹھ کروڑ خرچ کرتی ہے۔ اس کا یہ حق ہے کہ اس کا منتخب ایوان قومی مسائل کے حل کے لیے سنجیدگی دکھائے۔ اب بھی اگر نعرے بازی، اداکاری، ڈائیلاگ ہی ہمارا زاد راہ ہیں تو یہ پریشان کن چیز ہے۔ پاکستان کی انتخابی سیاست میں چند باتیں اب طے شدہ ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ دور دور تک ایسا کوئی امکان نہیں کہ انتخابات کے نتائج پر سب کا اتفاق ہو سکے۔ جنہیں 2018ء کے انتخابات صاف اور شفاف لگ رہے تھے انہیں ا ب دھاندلی کی شکایت ہے۔ جنہیں تب دھاندلی کی شکایت تھی ان کی اکثریت اب مطمئن ہے۔
یہاں چیزوں کی ترتیب بدل جاتی ہے تو فریقین کا موقف اور مقام بدل جاتا ہے۔ یہاں کسی بھی جماعت کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پارلیمان میں مل بیٹھ کر ایسی با معنی انتخابی اصلاحات کر لی جائیں کہ انتخابی عمل کی شفافیت یقینی بنائی جا سکے۔ قانون سازی کا بھاری پتھر نہیں اٹھایا جاتا۔ شور مچا لیا جاتا ہے۔ اور اصول صرف ایک ہے: ہمارا مفاد پورا ہو رہا ہے تو سب ٹھیک ہے اور ہمارا مفاد پورا نہیں ہو رہا تو کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ہمہ وقت ہیجان کارکنان کا لہو بھلے گرما دیتا ہو اور بھلے یہ کارکردگی اور محنت کا سستا اور آسان متبادل ہو لیکن سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ معیشت اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ معیشت ڈگمگا رہی ہے اسے حکمت، بصیرت اور بالغ نظری سے سنبھالا جا سکتا ہے، ہیجان اور تلخی سے نہیں۔
سیاسی استحکام اور معیشت کی خاطر پارلیمان کو کچھ چیزیں طے کرنا ہوں گی۔ سیاست سب کا حق ہے لیکن معیشت کی قیمت پر نہیں۔ معاشرہ ہمہ وقت اضطراب اور احتجاج کی کیفیت سے دوچار نہیں رہ سکتا۔ ایک دائرہ کار وضع کرنا ہوگا۔ ایک ریڈ لائن بنانا ہوگی۔ سیاست کیجیئے، حکومت کیجیئے، اپوزیشن کیجیئے، یو ٹیوب چینل چلایئے جو جی میں آئے کیجیئے لیکن معیشت کی قیمت پر نہیں۔ جہاں "بمقابلہ معیشت" کا ماحول بنے وہاں سب کو روک دیا جائے۔ کوئی بھی ہو اسے روک دیا جائے۔ سختی سے روک دیا جائے۔ اس میں زیادہ ذمہ داری حکومت کی ہے۔ اسے تحریک انصاف کی شکل میں ایک موثر اپوزیشن کا سامنا ہے۔ اس کا امتحان یہ ہے کہ اس اپوزیشن کو انگیج کرے۔ انگیج کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اپوزیشن، اپوزیشن ہی نہ رہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلاف اور اس کے اظہار کے باوجود چند معاملات پر بات چیت کے ساتھ ممکن حد تک ایسا تعلق کار استوار ہو سکے کہ ملک کا ماحول میدان جنگ کا منظر پیش نہ کرے۔ اتنا ٹھہرائو کم از کم ضرور پیدا ہو جائے کہ ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔
جب سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے تو سب سے پہلے معیشت متاثر ہوتی ہے۔ جس ملک میں سیاسی غیر یقینی ہو، انتشار ہو، افراتفری ہو، روز جلوس نکل رہے ہوں اور سڑکیں بند ہو رہی ہوں وہاں سرمایہ کاری نہیں ہوتی۔ سرمائے کی اپنی نفسیات ہے۔ خطرہ اور غیر یقینی دیکھتے ہی سب سے پہلے کسی ملک سے جو چیز بھاگتی ہے وہ سرمایہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ معلوم نہیں ہوتا کیا ہو جائے۔ ہماری تاریخ رہی ہے کہ جمہوری حکومت بنتی بعد میں ہے اس کے جانے کی تاریخیں پہلے دینا شرع کر دی جاتی ہیں۔ جب عمومی ماحول یہ بنا دیا جائے کہ حکومت اب گئی کہ اب، وہاں کون احمق ہوگا جو سرمایہ کاری کرے گا۔
معیشت کے لیے سیاسی استحکام شرط اول ہے۔ یہ استحکام جن جن ملکوں میں ہے، ان کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، بھارت اور بنگلہ دیش کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ جو عوامل سیاسی استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہیں وہی عوامل معاشی استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ سیاسی استحکام کی منزل کا حصول مگر حکمت سے ہوگا۔ سیاسی استحکام قبرستان جیسی فدویانہ خاموشی کا نام نہیں، یہ اختلافات کے ساتھ باوقارتسلسل کا نام ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اسوقت کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں ہیں۔ یہ اگر ایک دوسرے کے وجود کو کھلے دل سے تسلیم کرلیں تو اشتراک عمل کی راہیں اختلافات کے باوجود نکل سکتی ہیں۔