نالائقی نہیں تواور کیا؟
حالات کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کے عزم مصمم اورحکومتی ترجمانوں کے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود اقتصادی صورتحال رجعت قہقری کا شکار ہے، اسے اتفاق ہی کہنا چاہیے کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑے۔ آئی ایم ایف کا زوردار پیکیج، جس کے تحت ہمیں اس عالمی مالیاتی سرکار نے پچاس کروڑ ڈالر کی مدد دینے کی منظوری دی لیکن ساتھ ہی ساتھ اس رقم کے حصول کے لیے جونئی شرائط عائد کیں وہ ہمارے لیے مہنگائی کی ایک نئی لہر کی "نوید" ثابت ہوئی ہیں۔ رمضان المبارک کی بھی آمد آمد ہے اور اس حوالے سے آئی ایم ایف کی شرائط کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کے علاوہ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کا لالچ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ غالباً وزیراعظم عمران خان کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہو گیا ہے۔ وہ اپنی روز مرہ کی تقریروں میں اب بجائے یہ کہنے کے کہ تبدیلی آچکی ہے، یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ نظام بدلنا انتہائی مشکل کام ہے اور اس میں وقت لگتا ہے۔ اب وزیراعظم کو "سٹیٹس کو" کا فائدہ اٹھانے والے مختلف مافیاز پر ہاتھ ڈالنے کا خیال آگیا ہے۔ ان کا رونا ہے کہ رشوت کے بغیرکوئی کام نہیں ہوتا اور یہ غریب اور امیر کی جنگ ہو رہی ہے۔ خان صاحب کا وعظ اپنی جگہ، اس قسم کے خیالات پر مبنی مضامین سے اخبارات اور جرائد بھی بھرے ہوتے ہیں لیکن عوام حکمرانوں سے جنہیں انہوں نے ووٹ دیا ہوتا ہے اپنے دکھوں کا مداوا چاہتے ہیں۔ بعدازخرابی بسیار وزیراعظم کو بھی یہ احساس ہوگیا ہے کہ جس انداز سے گورننس اور اکانومی کو مینج کیا جا رہا ہے اس سے ان کے امپورٹڈ وزیروں اور مشیروں کے علاوہ انواع واقسام کے نورتنوں کی ان یقین دہانیوں کہ متذکرہ پالیسیوں سے مہنگائی قابو میں رہے گی یہ تصور نقش برآب ثابت ہوا ہے، اس کا سارانزلہ وزیرخزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ پر گرا اور وہ شخص جسے اسلام آباد کی نشست سے سینیٹرمنتخب کرانے کے لیے سب کچھ دائو پر لگا دیا گیا اسے انتہائی بھونڈے طریقے سے نکال باہر کیا گیا۔
تحریک انصاف جب سے رسراقتدارآئی ہے یہ ادراک نہیں کر پائی کہ اکانومی کو کس طرح چلانا ہے بلکہ برسراقتدار آنے سے پہلے ہی کارپوریٹ دنیا کے ایک بجھے ہوئے چراغ اسد عمر کو وزیرخزانہ نامزد کردیا گیا۔ اسد عمر کی یہ رائے وزیراعظم کو پسند نہ آئی کہ حکومت کو فوری طور پر مدد کے لیے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہیے، ان کی اس رائے کو رد کرتے ہوئے انہیں وزارت خزانہ کے منصب سے ہی فارغ کر دیا گیا اور نیا دور پاکستانی نژادغیر ملکی مشیروں کا ہو گیا۔ اس ضمن میں دبئی میں قائم بین الاقوامی انویسٹمنٹ فرم ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی جو وزیراعظم عمران خان کے قریبی دوست ہیں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنے دوست حفیظ شیخ کو بطور وزیزخزانہ فٹ کرا دیا اور اس ضمن میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی بھی آشیرباد حاصل کرلی۔
واضح رہے کہ حضرت شیخ ورلڈ بینک کے عہدیدار اور آصف زرداری کے دور میں بھی پاکستان کے وزیرخزانہ رہ چکے ہیں۔ اسی طرح گورنرسٹیٹ بینک کے لیے بھی مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے رضاباقر کی تقرری کر دی گئی۔ گویا کہ پوری اکانومی کا کنٹرول بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے حوالے کر دیا گیا جن کے آگے ہم ہاتھ پھیلانے اور ان کی سخت شرائط ماننے پر مجبور ہیں لیکن اب وزیراعظم نے اچانک پینترابدلا ہے اور درآمد شدہ وزیر خزانہ کو، جنہیں الیکشن ہارنے کے بعد بھی یقین دلایا تھا کہ آپ اطمینان سے کام کریں، آپ کو کوئی نہیں چھیڑ رہا، چند روز بعد کسی وجہ کے بغیر ہی برطرف کر دیا۔ باوثوق سرکاری ذرائع کے مطابق اب وزارت خزانہ کا قرعہ فال معروف بینکر اور آصف زرداری کے دور میں وزیرخزانہ رہنے والے شوکت ترین کے نام نکلا ہے۔ جو نیب کی اپنے خلاف اپیلیں خارج ہونے کے بعد جلد ہی یہ منصب سنبھالنے والے ہیں۔
شوکت ترین یہ عہدہ لے کر بہت بڑا چیلنج قبول کر رہے ہیں۔ پاکستان کی بگڑی ہوئی معیشت کو ٹھیک کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ پاکستان پہلے ہی ای ایف ایف لینے کی خاطر آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر صاد کر چکا ہے۔ ان میں قابل ذکر سٹیٹ بینک کو اتنی خود مختاری دیناہے جس کی ماضی میں کوئی مثال ہی نہیں ملتی۔ اسی طرح بجلی کے نرخوں میں اضافہ جسے پارلیمنٹ بھی منسوخ نہ کر سکے، مزید برآں آئندہ بجٹ میں کھربوں روپے کے ٹیکسز کانفاذ، انکم اور سیلز ٹیکس میں اضافہ شامل ہے۔ ظاہر ہے کہ بہت کم مدت میں اقتصادیات کا رخ درست سمت کی طرف موڑناآسان راستہ نہیں اور ترین صاحب جیسے گھاگ اور زیرک پروفیشنل کو اس بدلتی صورتحال کا مکمل ادراک ہوگا۔
وزیراعظم عمران خان کو پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد سے سیاسی طور پر بہت سے دھچکے لگے ہیں۔ انہیں غالباً یہ احساس بھی ہوا ہے کہ مبارک سلامت کی باتیں اپنی جگہ لیکن عوام کی بہت بڑی تعداد ان کی مخالف ہے اور ان کے حامی بھی پی ٹی آئی کی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور خراب گورننس سے تنگ ہیں اور ترجمانوں کے ذریعے سب اچھا ہے کی رٹ اور یہ کہ اپوزیشن چور ہے جیسے بیانئے زمینی حقائق کی ترجمانی نہیں کرتے۔ اسی لیے غالباً انہوں نے ترجمانوں کوتلقین کی ہے کہ اپوزیشن کا پیچھا چھوڑیں اور حکومت کی مثبت کارکردگی پر بات کریں لیکن کون سی مثبت کار کردگی؟ اس کے لیے بھی ریسرچ کرنا پڑے گی۔
حال ہی میں خان صاحب کے پرانے دست راست جہانگیر ترین جنہیں ان کی اے ٹی ایم بھی کہا جاتا تھا کو ایف آئی اے کے ذریعے کونے میں لگانے کا منفی ردعمل ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں 29 ارکان قومی اور پنجاب اسمبلی ان کے ساتھ کھل کر کھڑے ہوگئے ہیں۔ اگر یہ 29 ارکان حکومت کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیں تو پی ٹی آئی کی مرکز اور پنجاب میں حکومتیں گرجاتی ہیں، یہ حکومت کی نالائقی نہیں تواور کیاہے۔
ڈسکہ کے حالیہ ضمنی الیکشن کا نتیجہ ایک ریفرنڈم ہے، مسلم لیگ ن کی امیدوار نوشین افتخار کی تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی سے ساڑھے 16 ہزار سے زائد ووٹوں کی جیت اس بات کی غماز ہے کہ اس بار ڈسکہ کے الیکشن پر دھند نہیں چھائی، مزید برآں تمام تر سرکاری مشینری اور ترقیاتی کاموں کے اعلانات کے باوجود حکمران جماعت کی شکست آئندہ الیکشن کا ٹریلر لگ رہی ہے۔ ایک طرف ناک اونچی کرنے کے لئے اپنے ہی لوگوں سے مخاصمت، دوسری طرف اپوزیشن کو چور ڈاکو قرار دینا، تیسری طرف عوام کو بھی کوئی ریلیف نہ دینا، یہ زمینی حقائق بتاتے ہیں اس طرح ملک چلتے ہیں اور نہ ہی پارٹیاں۔