ہزارہ برادری پر آفت،ہمارا رویہ
بلوچستان کی ہزارہ برادری کے مردو خواتین، بچے اور بزرگ اس خون جما دینے والی سردی میں اس امید پر دھرنا دئیے بیٹھے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان انہیں پرسا دینے آئیں اور وہ مچھ میں ہفتہ اور اتوار کی رات داعش کے ہاتھوں ذبح کئے گئے اپنے 11 پیاروں کی میتیں دفنا دیں۔ دہشتگردی کی اس دل د ہلا دینے والی واردات کے بعد جب ہزارہ برادری نے وزیر اعظم سے ملاقات کا مطالبہ کیا تو ہر طرف سے آ واز ا ٹھی کہ وزیرا عظم عمران خان ہزارہ برادری کے زخموں پر پھاہا رکھنے کے لیے کوئٹہ جائیں۔ اصولی اور اخلاقی طور پر یہ مطالبہ جائز تھا حتیٰ کہ ان کے اپنے وزر ا بھی میڈیا پر کہہ رہے تھے کہ وزیر اعظم کے کوئٹہ جانے کی علامتی اہمیت ضرور ہے۔ خود وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی مطالبہ کیاکہ وزیر اعظم جلد کوئٹہ آئیں لیکن وزیر اعظم نے ابتدائی طور پراپنے وزراء کو کوئٹہ روانہ کیا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید اس حوالے سے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے اور اپنے منصب کے لحاظ سے بھی انہیں وہاں جانا چاہیے تھا۔ فطری طور پر ہزارہ برادری کا غم وغصہ قابل فہم ہے کیونکہ2002 سے لیکر اب تک ان پر دہشتگردی کے80 حملے ہو چکے ہیں جن میں ان کے 1600 افرادجاں بحق ہو ئے ہیں لیکن ان سفاکانہ وارداتوں میں ملوث کوئی مجرم بھی پکڑا نہیں گیا۔ اسی بنا پر مظاہرین چاہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم خود وہاں آ کر کوئی ٹھوس یقین دہانی کرائیں۔ بعض حلقوں کاکہنا ہے کہ وزیر اعظم سکیورٹی خدشات کی بنا پر فوری طور پر وہاں پہنچنے سے قاصرہیں کیونکہ انہیں سکیورٹی کلیئرنس ملنا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے شیخ رشید ہزارہ برادری کے مطالبات تسلیم کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے بلکہ انہیں صاف بتا دیا گیا کہ ہم وزیر اعظم سے ہی بات کریں گے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کو مشو رہ دیا گیا کہ کسی اہل تشیع رہنما کو وزیرا عظم کے ایلچی کے طور پر وہاں بھیجا جائے اور قرعہ فال وفاقی وزیر بحری امورعلی زیدی اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی اوورسیز پاکستانیز زلفی بخاری کے نام نکلا۔
زلفی بخاری جن کا واحد طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ خان صاحب کے بیلی اور لندن میں پراپرٹی کاکامیاب کاروبار کرتے ہیں۔ جب مظاہرین نے زلفی بخاری سے وزیر اعظم کے آنے کا مطالبہ کیا تو جو بات بھی کی خدا کی قسم" لاجواب" کی۔ موصوف نے کوئٹہ جا کر یہ بیان دیا کہ وزیر اعظم ایسے واقعا ت والی ہر جگہ نہیں پہنچ سکتے، مظاہرین سے گفتگو میں کہا اگر وزیر اعظم آتے ہیں تو آپ ان کو کیا فائدہ دیں گے جس پرناقدین نے کہا شہید ہونے والے افراد کے اہلِخانہ یا شرکا سے فائدے کی امید کرنا ان کی بے حسی ظاہر کرتی ہے۔ خان صاحب کم از کم زلفی بخاری جیسے وزرا کو جن کو سیاست اور حکومت کا تجربہ نہیں کوئی ریفریشر کورس کرائیں کہ کہاں کیا بات کرنی ہے۔ ان کی بات اصولی طور پر شاید درست ہو لیکن بعض جگہ جانا ضروری بھی ہوتا ہے اورشاید اس حوالے سے خان صاحب کا کوئٹہ جانا ضروری ہے۔
جہاں تک سکیورٹی کا تعلق ہے، حکمران جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو ا سے کچھ خطرات کاسامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ویسے یہ دلیل بودھی لگتی ہے کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت اور اس کی دنیا کی چھٹی بڑی چاق وچوبند فوج ہے وہ کیا اپنے وزیر اعظم کی حفاظت کا تسلی بخش انتظام نہیں کر سکتی۔ بعض تجزیہ کاروں کا انداز ہ ہے کہ عمران خان اپنی ضدی طبیعت کی بنا پر کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ اپنے ایجنڈ ے کے مطابق کوئٹہ جانا چا ہتے ہیں۔ زیر اعظم عمران خان نے اسلام آباد میں سپیشل اکنامک زونز اتھارٹی کی لانچنگ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہم نے ہزارہ برادری کے تمام مطالبات مان لئے ہیں لیکن کسی بھی وزیراعظم کو اس طرح بلیک میل نہیں کیا جاتا کہ آپ آئیں گے تو ہم تدفین کریں گے، اگر آپ آج تدفین کرتے ہیں تو میں آج کوئٹہ جاتا ہوں اور لواحقین سے ملتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا سب سے پہلے ڈاکوؤں کا ٹولہ کہے گا کہ ہمارے سارے کرپشن کے کیسز معاف کرو نہیں تو ہم حکومت گرادیں گے، یہ بھی ڈھائی سال سے بلیک میلنگ چل رہی ہے۔
دوسری طرف اپوزیشن نے درست فیصلہ کیا اور مسلم لیگ (ن) کی نا ئب صدر مریم نواز، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، جے یو آئی (ف) کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفور حیدری، یوسف رضا گیلانی، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر رہنما کو ئٹہ پہنچ گئے اور انہوں نے غمزدہ لوگوں کی ڈھارس بندھائی اور ان کے آنسو پونچھے۔ اس موقع پر خطاب میں مریم نواز نے کہا "ایک بچی کسی بے حس کو کہہ رہی تھی جب تک آپ نہیں آئیں گے میں اپنے والد کو نہیں دفناؤں گی، ہزارہ برادری کا ہر شخص دکھ کی داستان ہے، افسوس ہے کہ ایک بے حس شخص کو پکار رہے ہیں اور اس کے پاس یہاں آنے کا وقت نہیں ہے۔ بلاول بھٹو نے کہا " پاکستان ایسی دھرتی ہے جہاں شہیدوں کو بھی احتجاج کرنا پڑتا ہے، ایسے پاکستان میں رہ رہے ہیں جہاں ہر چیز مہنگی ہوگئی ہے لیکن عوام کا خون سستا ہے، 1999 سے 2 ہزار لوگ شہید ہو چکے ہیں لیکن ایک شہید کو بھی انصاف نہیں ملا"۔ اس موقع پر مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی دھرنے کے شرکا کے مطالبات کی تائید کی۔
بد قسمتی کی با ت ہے کہ کو ئٹہ جانے یا نہ جانے کے حوالے سے حکومت کی اپنی مس ہینڈلنگ کی وجہ سے معاملہ سیاست کی نذر ہوا۔ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشتگردی انتہائی سنجیدہ اور فوری توجہ کی متقاضی ہے اگر یہ مسئلہ محض سکیورٹی اداروں کی کاوشو ں سے حل ہونا ہوتا تو کب کا ہو چکا ہوتا۔
پی ڈی ایم کی تحریک کے حوالے سے آج کل حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی باز گشت سنی جارہی ہے، یقینا اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بات چیت جمہوریت کی روح ہے اور حکومت پر کڑی تنقید ہوتی ہے کہ وہ اپوزیشن کو منہ نہیں لگاتی بلکہ گالی گلوچ سے ہی نوازتی ہے لیکن دہشت گردی اور بلوچستان کی صورتحال کے حوالے سے وزیرا عظم کو اپوزیشن بالخصوص بلوچ اپوزیشن کو آن بورڈ لینا چاہیے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعظم اپوزیشن رہنماؤں کو دعوت دیتے کہ وہ ان کے ساتھ کوئٹہ چلیں اور ہزارہ برادری سے بات چیت کریں۔ علاوہ ازیں بلوچستان کے وہ سیاستدان جو وہاں کے عوام کی آوازہیں سے مذاکرات کریں کہ صوبے کے مسائل کا کیا حل ہے جیسا کہ بی این پی کے رہنما اختر مینگل تحریک انصاف کی حکومت میں اس وعد ے پر شامل ہوئے تھے کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کرایا جائے گا لیکن وعدہ ایفا نہ ہونے پرحکومت چھوڑ گئے۔ اب بھی اس لیڈر شپ سے با ت چیت کر کے معاملات کا کوئی سیاسی حل نکالنا چاہیے۔ بھارت کی بلوچستان میں ریشہ دوانیوں کے بارے میں بھی اپوزیشن کو بریف کیا جائے لیکن یہ باتیں موجود ہ ماحول میں افسانوی لگتی ہیں۔
نوٹ:اس کالم کے تحریر ہونے تک وزیر اعظم عمران خان ہزارہ برادی کے مطالبے پر ان سے ملاقات کیلئے کوئٹہ نہیں پہنچے تھے۔