امریکی جمہوریت سرخرو !
سخت محاذآرا ئی کے بعد جو بائیڈن امریکہ کے 46ویں صدر کے طو ر پر آج حلف اٹھا رہے ہیں، ان کی تقریب حلف برداری میں وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے والے صدر ٹرمپ شریک نہیں ہو رہے، وہ پہلے ہی اپنے آبائی علاقے فلوریڈا جا چکے ہیں۔ حلف برداری کی تقریب بیس ہزار مسلح نیشنل گارڈز اور امن وامان برقرار رکھنے والے اداروں کے سخت حصار میں ہو رہی ہے۔ دو ہفتے قبل جب ٹرمپ کے بھڑکانے پر ان کے حامیوں کی کثیر تعداد نے سینیٹ کی بلڈنگ پر دھا وا بول دیا تھا اُن پرتشدد ہنگاموں میں پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جس کے بعد مزید مسلح مظاہروں کے پیش نظر پورے امریکہ میں ریڈالرٹ جاری کر دیا گیا، واشنگٹن میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ کیپٹل ہل سے کئی میل دور سڑکیں بند کر دی گئیں۔ ور جینیا، مشی گن، وسکونسن اور پینسلوینیا سمیت امریکہ کی متعدد ریاستوں میں آج کے لئے سخت حفاظتی اقدامات کئے گئے ہیں۔ ٹرمپ کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ وہ واحد امریکی صدر ہیں جن کو دومرتبہ مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسر ی بار مواخذہ کیپٹل ہل پر حملے کے حوالے سے ہو رہا ہے جو زیرالتوا ہے کیونکہ ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ ری پبلکن پارٹی کے بھی بعض ارکان (بقول ان کے) ٹرمپ جیسے زہریلے شخص کو نہ صرف سزا دینا چاہتے ہیں بلکہ اسے ایک مثال بنانا چا ہتے ہیں کہ وہ امریکی سیاست سے باہر نکل جائیں۔ واضح رہے کہ ٹرمپ مواخذے کے بعد کبھی صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ ایک لحاظ سے سابق امریکی صدر سارے فساد کی جڑ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے امریکہ کی کثیر آبادی کے انتہا پسندانہ نظریات کی ترجمانی کرتے ہوئے اسے اپنا حامی بنا لیا ہے۔ اس منفی سوچ کا بنیادی مقصد امریکہ کی سیاہ فام آبادی سے نفرت اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی لبرل پالیسیوں کو مطعون کرنا تھا۔
ٹرمپ کے پیشرو باراک اوباما کے بھی یہ لوگ سخت مخالف تھے، اس پس منظر میں ٹرمپ نے حالیہ انتخابات میں ہارنے کے باوجود قریبا ً 47 فیصد پاپولر ووٹ حاصل کئے۔ ٹرمپ شدید قسم کی نرگسیت کا شکا ررہتے ہیں۔ صرف ایک ٹرم کے بعد صدارت سے ہاتھ دھو بیٹھنا ان کے لیے ناقابل برداشت تھا، اسی بناپر جو بائیڈن کی راہ میں قانونی رکاوٹیں پیداکرنے کے باوجود جب وہ راستہ نہ روک سکے تو اپنے حامیوں کو کھلم کھلا تشددکی طرف مائل کیا جس سے امریکہ جیسے ملک کو ناخوشگوار صورتحال کاسامنا کرنا پڑا۔ بہرحال ٹرمپ کے تمام تر پاپڑ بیلنے کے باوجود جو بائیڈن آج حلف اٹھائیں گے اور ٹرمپ قصہ پارینہ ہوجائیں گے۔ دنیا بھر میں امریکہ میں ہونے والے ہنگاموں کاشدید نوٹس لیا گیا۔ تیسری دنیا کے با سی حیران تھے کہ امر یکہ جو ساری دنیا کو جمہوری اقدار کی آبیاری اور اداروں کے احترام کا درس دیتا ہے، اس کے اپنے گھر میں کیا ہو رہاہے لیکن اس پر داد دینا پڑے گی کہ تمام تر قباحتوں کے باوجود ٹرمپ امریکہ کے جمہوری اداروں کو تباہ کرنے میں ناکام ہوئے اور بالآخر امریکی جمہوریت سرخرو ہوئی۔ مثال کے طور پر جتنے بھی سابق وزرائے دفاع زندہ ہیں سب نے ٹرمپ کو فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹنے کا مشورہ دیا حتیٰ کہ ان کی ری پبلکن پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں نے بھی ٹرمپ کو کہہ دیا کہ وہ اپنی ضد چھوڑ کر شکست تسلیم کر لیں، اس کے باوجود ری پبلکن پارٹی کی کثیر تعداد نے ٹرمپ کی حمایت جاری رکھی۔
صدر بائیڈن باراک اوباما کے ساتھ آٹھ برس تک نائب صدر رہے ہیں، انہیں حکومت کاوسیع تجربہ ہے، وہ اپنے پیشرو کی طرح لاابالی طبیعت کے مالک بھی نہیں، وہ سوچ سمجھ کر فیصلے کریں گے۔ اس وقت امریکہ کے لیے سب سے بڑ اچیلنج کووڈ 19کی مہلک وبا ہے جس میں قریبا ً اوسطا ً روزانہ ایک ہزار سے زائد اموات ہو رہی ہیں اور اس پر اب تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ ٹرمپ کی چین سے شدید محاذآرائی کے باوجود چین دنیا کی واحد بڑی اکانومی ہے جو کورونا کی بنا پر سکڑنے کے بجائے 2.3فیصد بڑھی ہے۔ ظا ہر ہے کہ بائیڈن کے لیے امریکہ کی اقتصادیات کو بحال کرنا ایک بڑا چیلنج ہے، اسی طرح خارجہ پالیسی کے محاذ پر نئی امریکی انتظامیہ کو بعض بنیادی فیصلے کرنا پڑیں گے۔ ٹرمپ نے اپنے حلیفوں کی مخا لفت کے باوجود ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدہ ختم کر دیا تھا، اس ضمن میں ایران سے دوبارہ ڈائیلاگ شروع کرناپڑے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ٹرمپ جس شدید قسم کی اسرائیل نواز پالیسیوں پر گامزن تھے بائیڈن ان میں کو ئی تبدیلی لاتے ہیں یا ٹرمپ کی ڈگر پر ہی چلتے رہتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی کے امکانات معدوم ہیں کیونکہ امریکہ بہت پہلے بھارت کو اپنا سٹرٹیجک سا تھی چن چکا ہے کیونکہ چین کے ساتھ بھا رت اور امریکہ دونوں کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کو چین کے ساتھ پاکستان کا سی پیک، معاہدہ بہت کھٹکتا ہے اور کئی بار پاکستان کو مشورہ دیا گیا کہ سی پیک، سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اس پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، بہرحال پاکستان کو امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی مقدور بھر کوشش کرنا ہو گی۔ وزیر خارجہ شاہ محمو دقریشی چونکہ ملکی سیاست میں بھی گہری دلچسپی لیتے ہیں جس وجہ سے وہ اپنی وزارتی ذمہ داریوں سے پورا انصاف نہیں کررہے۔ پاکستان کو محض بیان بازی سے نہیں بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے امریکہ کی نئی انتظامیہ کے ساتھ راستے کھولنے چاہئیں۔ جو بائیڈن کا دور صدارت اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام بھارتی نژاد خاتون کمالہ ہیرس (Kamala Harris)نائب صدر بنی ہیں۔ کمالہ ہیرس کے بھارتی پس منظر سے کچھ پاکستانی حلقوں میں تشویش بھی پائی جاتی ہے کہ 78سالہ جو بائیڈن جو شاید اپنی دوسری ٹرم نہ لے سکیں اس صورت میں کمالہ ہیرس امریکہ کی آئندہ صدر بھی ہو سکتی ہیں۔ ہماری خا رجہ پالیسیوں کے کار پردازان کو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کام کرنا ہو گا۔