ناسٹلجیا
میرے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ میرا تعلق احمد پورشرقیہ سے ہے، یہ بہاولپور کی ایک قدیمی تحصیل ہے، اسے نوابوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اس لئے کہ ریاست بہاولپور کے عباسی نوابین کا تعلق احمد پورشرقیہ سے تھا۔ نواب کاخاندانی رہائشی محل جسے صادق گڑھ پیلس کہا جاتا ہے، یہ بھی احمد پورشرقیہ کے ایک علاقہ ڈیرہ نواب صاحب میں ہے۔ ہمارے شہر کا ریلوے سٹیشن بھی ڈیرہ نواب صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ لاہور سے کراچی جانے والی ٹرین بہاولپور کے بعد سمہ سٹہ اور پھر ڈیرہ نواب صاحب یعنی احمد پورشرقیہ سے گزر کر آگے لیاقت پور، خان پور، رحیم یار خان اور پھر پنجاب کی آخری تحصیل صادق آباد سے گزر کر سندھ میں داخل ہوتی ہے۔
احمد پورشرقیہ ایک چھوٹا شہر ہے، یعنی جو خوبیاں، خامیاں کسی گاؤں میں ہوتی ہیں، وہ ہم نے نہیں دیکھیں۔ یہ قصبہ بھی نہیں، یہ قصبے اور بڑے شہر کے درمیان میں کہیں آتا ہے۔ زندگی سادہ اور خاصی سست تھی۔ اپنے بچپن اور لڑکپن میں ہم نے پرانی دیسی چیزیں البتہ خوب کھائیں اور دیکھیں۔ وہ مخصوص ڈشز اور کھانے جو آج کل کی نئی نسل کو میسر نہیں۔ وہ کھیل جو ہم نے کھیلے، آج کے بچے ان سے نا واقف ہیں۔ دیسی گھی کی چوری، کَکو(گنے کے رس سے تیار شدہ میٹھی شہد نما چیز)، مکھن، ملائی وغیرہ عام تھی۔ بھنا کھویا، سوہن حلوہ، ربڑی، یہ سب چیزیں نہایت مناسب داموں مل جاتی تھیں، آج ان کی قیمتیں کہاں چلی گئیں اور مزا بھی پہلے جیسا نہیں۔
مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ہمارے گھر آئے ہر مہمان کے ناشتے میں محلہ کٹرہ احمد خان کے روایتی سرخ چھولوں کے ساتھ بھنی کلیجی کا سالن لازمی سمجھا جاتا تھا۔ عام طور سے کلیجی گردے اکھٹے پکتے۔ سرائیکی میں کلیجی کو زیرہ بکی کہتے، زیرہ کلیجی اور بکی شائد گردے کو۔ احمدپورشرقیہ میں چھوٹے مٹر بھی ملتے جسے ہم مٹری کہتے، سفید رنگ کی بھنڈی بھی ملتی وہ عام سبز بھنڈی سے مہنگی ہوتی اور اس کے شائق لوگوں کا کہنا تھا کہ ایسی بھنڈی پاکستان بھر میں نہیں۔ ویسے اس طرح کی سفید بھنڈی کہیں اور نہیں دیکھی۔ بھے بھی ایک مشہور سبزی ہے جو سرائیکی اور سندھی ہی پکاتے ہیں۔ یہ کنول کے پودے کی جڑ ہوتی ہے۔ بھے کی ایسی شاندار ڈشز ہیں جن کا لاہور اور سنٹرل پنجاب میں تصور ہی نہیں۔ بھے کا سادہ سالن، قیمہ بھے، بھے کے پکوڑے، بھے کا اچار اور ہمارے خاکوانی پٹھانوں میں بھے کے کباب بھی بنا کرتے۔ ابھی تصور کیا تو اس کا حیران کن ذائقہ منہ میں گھل ساگیا۔
میرے سسرال میں کھگا مچھلی کا شوربے والا سالن بنا کرتا، جسے چاول کے آٹے کی روٹی یعنی چلڑے کے ساتھ کھایا جاتا۔ ہمارے گھر میں چلڑا ہمیشہ میٹھا بنتا اور خاص کر بارش کے دنوں میں یہ روز بنایا جاتا۔ شادی کے بعد پتہ چلا کہ سسرالی گھر میں چلڑا ہمیشہ نمکین بنتا ہے اور وہ چاول کی اس روٹی کو ساگ وغیرہ کے ساتھ بھی کھایا کرتے ہیں۔ ہم سرائیکیوں میں صرف پائے نہیں بنا کرتے بلکہ سری پائے کا سالن بنتا۔ قصائی بکرے کی سری ایک خاص انداز میں کٹنگ کرکے دیتے اور پھر بہت سے لوگ صرف بھنی سری بھی پکواتے۔ اب تو یہ سب چیزیں خواب سی لگتی ہیں۔ میرا بڑا بیٹا خیر سے انیس سال کا ہوگیا اور چھوٹا عبداللہ گیارہ سال کا ہے، ان میں سے شائد ہی کسی نے یہ چیزیں کھائی ہوں، بلکہ اب شائد احمد پور ی نئی نسل بھی ان میں سے بہت سی چیزوں سے انجان ہے۔ وہاں بھی اب پیزا، شوارما، برگر، زنگر برگر کی دھوم مچی ہوتی ہے اور بچے دیسی گھی کی خوشبو سے دور بھاگتے ہیں۔ شائد یہ ہماری نسل کا المیہ ہے کہ بہت سی چیزیں ہمارے بعد یکایک دنیا ہی سے غائب ہوگئیں۔ کیسٹ سے وی سی آر اور ٹیلی گرام سے عید کارڈ، ڈائل گھمانے والے ٹیلی فون سے لے کر نجانے کیا کچھ گویا ہوا میں تحلیل ہوگیا۔
یہ سب چیزیں مجھے جناب اظہار الحق کی نئی کتاب "سمندر، جزیرے اور جدائیاں" پڑھ کر یاد آئیں۔ اظہار الحق صاحب بہت عمدہ شاعر اور صاحب طرز کالم نگار تو ہیں ہی، انہوں نے ناسٹلجیا کے حوالے سے بہت سی معرکتہ آلارا تحریریں بھی لکھی ہیں۔ اپنے پنڈ کے ساتھ ان کی جڑت قائم ہے اور ان کی روح انہی گلیوں، میدانوں میں گھومتی، دھڑکتی ہے۔ انہوں نے اپنے پوتے، پوتیوں، نواسے نواسیوں کے حوالے سے بھی بہت سے خوبصورت، سویٹ سے دل کو چھو لینے والے کئی کالم لکھے ہیں۔ بک کارنر جہلم نے اب یہ سب تحریریں اس خوبصورت کتاب میں اکھٹی کر دی ہیں۔ ایسی خوبصورت، تروتازہ تحریریں کم ہی پڑھنے کو ملی ہوں گی۔ میں نے اظہار صاحب کے تمام کالم پڑھ رکھے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ کتاب جب بھی اٹھائی، صفحے کے صفحے پڑھتا چلا گیا۔ میں نے تو اپنے ناسٹلجیا کا بھدے سے انداز میں اظہار کیا۔ دیکھیں اظہار الحق نے کیا خوبصورت اسلوب اختیار کیا۔ صفحہ دو سو چونتیس پر وہ آٹھ سالہ بچی کا ذکر کرتے ہیں جو کئی گھنٹے کمپیوٹر گیمز کھیل کر تھک گئی تھی، کندھے اور کمرمیں درد ہونے لگا۔ اس کے بعد اظہار الحق لکھتے ہیں:
"بڑے بڑے چمکتے ہوئے شہروں میں رہنے والے بچے تو ان تفریحات سے بھی محروم ہیں جو قصبے اور گاؤں کے بچے کو حاصل تھیں۔ یہ بھیڑ کے سفید بچے اور بکری کے خوبصورت میمنے سے نہیں کھیل سکتے، کھیت سے خربوزے نہیں توڑ سکتے نہ رہٹ سے پانی پی سکتے ہیں۔ یہ ریشمی بیر بہوٹیوں کا تعاقب نہیں کر سکتے، انہوں نے چرخے پر کاتی جانے والی پونیوں کے ڈھیر دیکھے نہ کھیلانوں پر گاہ کی رونقیں دیکھیں۔ انہوں نے گرمیوں کی راتوں میں لڈی اور بھنگڑے دیکھے نہ سرما کی دوپہروں میں سنہری دھوپ کے مزے لوٹے۔ ان کی "غربت"کا تو یہ عالم ہے کہ انہوں نے تاروں بھرآسمان اور چاند میں نہائی ہوئی رات تک نہیں دیکھی۔ انہیں تو وہ چھوٹی سی خوشی بھی میسر نہیں جو گیلی ریت سے پیر نکال کر ملتی تھی کہ گھر بن گیا ہے۔ انہوں نے باجرہ اور جوار دیکھے نہ گندم کا پودا، انہیں یہ معلوم نہیں کہ جَو کیا چیز ہے اور تربوز زمین سے اگتے ہیں یا آسمان سے ٹپکتے ہیں۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کیکر کیا ہوتا ہے، شیشم کسے کہتے ہیں اور شہتوت کہاں لگتے اور شہد کا چھتا کیسا ہوتا ہے۔
"انہوں نے مٹی کے کورے برتن میں پانی پیتے ہوئے سوندھی خوشبو چکھی نہ شام کو واپس آتے ہوئے ڈھور ڈنگروں کے گلوں میں لٹکے گھنگھرؤں کی آواز سنی۔ انہوں نے جھاڑیوں میں چھپتے ہوئے خرگوش دیکھے نہ تیر کی طرح نکلتے ہوئے کتے دیکھے اور نہ خاک پر لوٹتی ہوئی فاختہ نظر آئی، انہوں نے بٹیر کی نرم ہڈیاں بھی نہیں چبائیں۔ انہیں جھینگر کے گانے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ عید کے میلے انہوں نے ٹی وی پر دیکھے۔ بندر اور بھالو کے تماشے کے متعلق صرف کتابوں میں پڑھا۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ چارکانی کا کھیل کیا ہے، دوڑتے ہوئے گھوڑے سے کھونٹا کیسے نکالا جاتاہے، بارہ گیٹی کیا ہے، سٹاپو کس چڑیا کا نام ہے اور مٹی کے بنے گھگھو گھوڑے کیا ہوتے ہیں؟ مہنگے پاپ کارن کھانے والے ان بچوں کو کیا معلوم کہ بھٹیارن کے بھنے ہوئے گرم دانوں کا مزا کیا ہے؟ انہیں کیا معلوم کہ نگدی، بتاشے اور سفید مکھانے شیشوں والے ڈبوں میں پڑے ہوئے کتنے پراسرار لگتے ہیں اور انہیں کھانے میں کیا لطف آتا ہے"۔