کیا ادیب سماج کو تبدیل کر سکتا ہے؟
ہمارے ہاں یہ بات ایک بڑے المیے کی صورت اختیار کر چکی ہے کہ نئی اور قابل فکر بات سننے، پڑھنے کو نہیں ملتی۔ تازہ فکر، مختلف سوچ اور تجزیہ ناپید ہوچکا ہے۔ ہر جگہ چلی چلائی، گھسی ہوئی کلیشے نما باتیں ہوتی ہیں۔ وہی پرانی فارمولہ ٹائپ جو ہم پچھلے تیس برسوں سے سن، پڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر کہیں پر کچھ نیا دیکھنے کو ملے تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے۔ پچھلے سال ممتاز نقاد، دانشور اور ادیب ناصر عباس نیئر کی کتاب "نئے نقادوں کے نام خطوط" پڑھی تو بہت اچھا لگا۔ ناصر عباس نیئر صاحب نے بہت سے عمدہ نکات اٹھائے اور کئی مباحث چھیڑے، اگر ہمارا سماج زندہ ہوتا تو اس پر بحث آگے بڑھتی، بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔ ایک فیکٹر یہ بھی رہا کہ کتاب خوبصورت شائع ہوئی، مگر قدرے مہنگی تھی، پانچ ہزار کی کتاب کوئی طالب علم کیسے خرید سکتا ہے بلکہ مڈل کلاس کی خرید سے بھی باہر چلی جاتی ہے۔
گزشتہ روز سہہ ماہی سائبان کا تازہ پرچہ دیکھنے کو ملا، یہ سالنامہ 2024ہے۔ ممتاز ادیب، شاعر، نقاد جناب حسین مجروح اس کے مدیر ہیں۔ سائبان بہت عمدہ ادبی جریدہ ہے، اس میں اچھے مضامین کی ایسی خوبصورت سلیکشن شامل ہے کہ دل مسرور ہوجاتا ہے۔ مضامین میں ڈاکٹر خورشید رضوی، سرمد صہبائی، ڈاکٹر خالق تنویر، خالد فتح محمد، ناصر عباس نیئر، ڈاکٹر زاہد منیر عامر، سعدیہ قریشی، اقبال خورشید جیسے نام شامل ہیں۔ شاعری کا بھی عمدہ انتخاب ہے۔ عرفان جاوید، عاطف علیم، محمود احمد قاضی، فیصل عجمی اور نجم الدین احمد کے تازہ افسانے شامل ہیں۔ شاکر علی اور عبداللہ حسین کی یادیں ہیں۔ ایک گوشہ فلسطین پر ہے، مصنوع ذہانت پر ایک عمدہ مذاکرہ بھی شامل اشاعت ہے۔ پنجابی شاعری کا ایک گوشہ اور کئی دیگر تخلیقات بھی شامل ہیں۔ حسین مجروح ستائش کے مستحق ہیں کہ ایسے مشکل حالات میں اتنا عمدہ ادبی جریدہ نکال رہے ہیں۔ اللہ انہیں مزید ہمت دے اور وسائل میں بھی اضافہ فرمائے، آمین۔
سائبان کے سالنامہ میں ممتاز خاکہ نگار، ادیب اور محقق عرفان جاوید کا انٹرویو اہم اور قابل ذکر لگا۔ عرفان جاوید تعلیم کے اعتبار سے انجینئر ہیں، سی ایس ایس کرکے کسٹم میں چلے گئے۔ کتاب ان کا اوڑھنا بچھونااور تخلیقی عمل ان کی زندگی کا مرکزی حصہ۔ ان کا افسانوی مجموعہ کافی ہاوس دس بارہ سال قبل شائع ہوا۔ اس کے بعد شاندار خاکوں کی کتاب "دروازے" شائع ہوئی، جس کے بلامبالغہ درجن سے زائد ایڈیشن فروخت ہوچکے ہیں۔ دروازے کے بعد خاکوں کا دوسرا مجموعہ" سرخاب" آیا اور پھر نہایت عام فہم زبان میں تحقیقی اور عمدہ تخلیقی مضامین کا مجموعہ" عجائب خانہ" شائع ہوا۔ سرخاب کو بھی پزیرائی ملی، مگر عجائب خانہ پر بہت کچھ لکھا گیا، اسے ایوارڈ بھی ملا۔ عجائب خانہ کے بعد خاکوں کی تیسری کتاب"آدمی" شائع ہوئی، جس میں ڈاکٹر آصف فرخی پر لکھا خاکہ خاصے کی چیز ہے۔ عرفان جاوید کا سائبان جریدے کے لئے انٹرویومعروف ناول نگار، ادیب رفاقت حیات نے کیا ہے۔
عرفان جاوید نے مطالعے اور کتابوں کے حوالے سے خاصی باتیں کہی ہیں۔ انہیں یہ قلق ہے کہ ہمارے نوجوان اور آج کے ہم عصر ادیب اس طرح مطالعہ نہیں کرتے جیسا کہ انتظار حسین جیسے لوگ پیرانہ سالی کے باوجود کیا کرتے تھے۔ عرفان جاوید کے خیال میں غلام عباس اپنے کرافٹ کے اعتبار سے منٹو پر فوقیت رکھتے ہیں۔ اس بات نے رفاقت حیات کو بھی چونکایا، انہوں نے بے ساختہ کہا کہ منٹو کے تو آس پاس کوئی پھٹکتا ہی نہیں۔ عرفان جاوید کا جواب تھا، " فرض کریں منٹو نے چار سو افسانے لکھے ہیں تو اس میں بہت اچھے افسانے بیس تیس ہیں، جبکہ غلام عباس کے کل پنتالیس افسانوں میں سے بیس بہت اچھے ہیں۔ یہ تناسب اردو کے کسی اور افسانہ نگار میں دکھائیے؟ گو بیدی بھی اس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ منٹو کی بڑائی کا میں قائل ہوں، البتہ غلام عباس کا زیادہ معترف ہوں"۔
عرفان جاوید نے البتہ یہ تسلیم کیا کہ منٹو کے اندر سے افسانہ قدرتی طور پر پھوٹتا ہے، یوں لگتا ہے جب وہ قلم پکڑتے ہیں تو افسانہ اپنے آپ کو خود ان سے لکھواتا ہے۔ غلام عباس باقاعدہ تیاری کرکے لکھتے ہیں اور وہ نظر آتی ہے۔ منٹوکے ہاں بے ساختگی زیادہ ہے۔ عرفان جاوید ناول میں قرتہ العین حیدر، مستنصر حسین تارڑ، عبداللہ حسین، جمیلہ ہاشمی اور بانو قدسیہ کے مداح ہیں۔ عرفان جاوید کو گلہ ہے کہ ہمارے اچھے ناشرین کے پاس قابل ایڈیٹرز نہیں جو ایک بڑی کمی ہے۔ اچھا ایڈیٹر ایک اوسط تحریر کو اچھا، اچھی کو عمدہ اور عمدہ کو شاہکار بنانے میں معاون ہوسکتا ہے۔ عرفان کی رائے میں ہمارے اکثر ناول غیر ضروری طوالت کا شکار رہے ہیں۔ انہیں یہ شکوہ بھی ہے کہ گزشتہ پچیس چھبیس برسوں میں شائع ہونے والے تین اہم اردو ناولوں کو توجہ نہیں ملی۔ ان میں عاصم بٹ کا ناول "دائرہ"، اشرف شاد کا ایوارڈ یافتہ ناول "بے وطن" اور احمد بشیر کا سوانحی ناول "دل بھٹکے گا"شامل ہے۔ بے وطن پر عمدہ فلم بھی بن سکتی ہے اور یہ انگریزی میں ترجمہ ہو کر بیسٹ سیلر بھی بن سکتا ہے۔
ان کی رائے میں عبداللہ حسین کے مشہور ناول اداس نسلیں کا پہلا نصف دوسرے نصف سے زیادہ توانا ہے۔ شوکت صدیقی کے ناول خدا کی بستی کی اٹھان روسی ماسٹر ناولوں جیسی ہے، البتہ بعد میں پہلے کا سا رنگ نہیں رہتا۔ بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ انسانی نفسیات خاص کر نسائی نفسیات، انسانی باہمی تعلقات، لاہور کی شہری ثقافت کا عکاس عمدہ ناول ہے۔ قرتہ العین حیدر کا ناول" آخر شب کے مسافر "ایک سے زیادہ بار پڑھنے والا ہے۔
عرفان جاوید کی ایک بات دلچسپ لگی، کہتے ہیں: " ہمارے شہروں، قصبات میں دو ضروری چیزوں کی کمی ہے جو ادب کے تخلیقی جذبے کو مہمیز کرتی ہے۔ ضرورتاً یا تفریحاً پیدل چلنے والوں کے مناسب فٹ پاتھ نہیں۔ عالمی سطح کے اعلیٰ پائے کے ادیبوں کے حالات زندگی پڑھ لیجئے، زیادہ تر کو خیالات مطالعے، تنہا چہل قدمی یا ہم مرتبہ ادیبوں، دانشوروں سے مباحث وملاقاتوں میں آئے۔ کسی خیال پر ارتکاز کا بہترین طریقہ مکمل تنہائی اور تنہا چہل قدمی ہے۔ قدیم شہروں میں مناسب ڈائون ٹاون بھی نہیں ہیں۔ بھلے ہم شہروں کے پرانے حصوں کو ڈائون ٹائون کہتے رہیں، لیکن باقاعدہ ثقافتی، تہذیبی سرگرمی کے مراکز جو دنیا بھر میں ڈائون ٹائون میں ہوتے ہیں، وہ ہمارے ہاں قریباً ناپید ہیں"۔
عرفان جاویدکو اس پر بھی حیرت ہے کہ بہت سی معروف اور شاندار کتب کا آج کل ذکر ہی نہیں ہوتا۔ جیسے میرزا ادیب کی کتاب" صحرانورد کے خطوط "، احسان دانش کی خود نوشت "جہانِ دانش"، حمید نسیم کی سوانح حیات" ناممکن کی جستجو"، گیان سنگھ شاطر کی آپ بیتی، رحیم گل کی آدمی جی ایوارڈ یافتہ آپ بیتی آج کل ناپید ہے۔ ان کے مطابق اردو کے چار افسانہ نگاروں کے افسانے ہر بار پڑھنے پر نیا لطف دیتے ہیں، غلام عباس، سعادت حسن منٹو، سید رفیق حسین اور نیئر مسعود۔ اے حمید کی یاداشتوں میں بھی یہ بات ہے، یہی خوبی مشتاق یوسفی کی تحریروں میں ملتی ہے۔
عرفان جاوید کو اس پر افسوس ہے کہ کم خواندگی کے باعث اور جو خواندہ ہیں ان میں ادب کے مطالعے کا انتہائی کم رجحان کے باعث ہمارا ادیب موثر انداز میں سماج سے مکالمہ نہیں کر پاتا۔ وہ کہتے ہیں، " غربت اور پسماندگی تو بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور جنوبی امریکہ میں بھی ہے، لیکن وہاں ادب کی کتب کی وسیع اشاعت اور اثرپزیری ہے۔ ہمارے ہاں فکشن یعنی ناولوں، افسانوں پر فلمیں، ڈرامے اور سیریل بنانے کا رجحان بھی نہیں، سو یہ دروازہ بھی بند ہے۔
آج کے ادیب کا فلم، ریڈیو، ٹی وی جیسے برقیاتی ذرائع سے کم تعلق ہے۔ اس لئے جہاں ان ذرائع میں ادبی حسن کم ہوگیا، وہاں ادیب کا چہرہ بھی اندھیرے میں ڈوب گیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے ادیبوں نے قیام وطن کے بعد عوامی سطح پر قابل ذکر یا رجحان ساز اور موثر تحریک نہیں چلائی۔ چند احتجاجی نوعیت کی نظمیں لکھ کر، علامتی افسانہ تحریر کرکے انفرادی سطح پر تو مزاحمت دکھائی، مگر اجتماعی طور پر نہ خود آگے بڑھے اور نہ عوام کو مجموعی طو رپر متحرک کیا۔ لاطینی امریکہ میں ادیب، شاعر کہیں بڑی تحریکوں کا حصہ بنے تو کہیں راہنمائی کا پرچم تھاما۔ ہماری ادبی تاریخ میں یہ ایک خلاموجود ہے"۔
"ہم اپنے ہاں ادب سے روٹھے قاری کو واپس لا سکتے ہیں، جیسے ہندوستان میں لاکھوں قارئین کی پوری نسل پیدا ہوئی ہے۔ تازہ اور جدید ادب کو نصاب کا حصہ بنائیے کہ وہ حاضر سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ توقع نہیں کر سکتے کہ ایک دم قارئین پیدا ہوجائیں گے۔ ان کا بیج بونا پڑتا ہے، آب یاری کرنا پڑتی ہے، پرورش کرنا پڑتی ہے۔ جید اور ثقہ ادیبوں، دانشوروں اور اردو ادب آشنا ماہرین کی کمیٹی تیسری جماعت سے بارھویں جماعت کے نصاب میں معاصر ادب کے حاضر سے علاقہ رکھتے نمائندہ فن پارے شامل کریں۔ اس کے علاوہ انعامات اور اعزازات میں اردو کتب انعام کے طور پر دی جائیں۔ ایسے ذرائع روزگار پیدا کئے جائیں جہاں اردو کے لوگوں کی کھپت ہوسکے۔ جب اردو کے لوگوں کو روزگار ملے گا تو اس جانب توجہ ہوگی۔ جب اردو کی جانب توجہ ہوگی تو اردو ادب کی جانب بھی توجہ اور رغبت ہوگی"۔