کامن سینس کی باتیں، مفید ٹِپس
میرے والد محترم(اللہ ان کی مغفرت فرمائے)سینئر وکیل تھے، تمام زندگی ہائی کورٹ، ڈسٹرکٹ کورٹس میں گزری۔ ان لوگوں میں سے تھے جن کے لئے انگریزی اصطلاح ڈیڈ آنسٹ(انتہائی دیانت دار) استعمال کی جاتی ہے۔ انہیں مطالعہ سے خاصی دلچسپی تھی اوراس حوالے سے غیر متعصب آدمی تھے، مختلف مسالک کے علما دین کی کتابیں ان کی لائبریری میں موجود تھیں۔ تفسیر کے لئے البتہ ان کا اطمینا ن مولانا مودودی کی تفہیم القرآن پر تھا، وہ روزانہ کچھ وقت اس کا مطالعہ کرتے۔
میں نے ہفت روزہ چٹان او ر ہفت روزہ افریشیا کی فائلیں بھی ان کی لائبریری سے ڈھونڈ کر پڑھیں۔ چٹان کے ایک پرچے میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا اپنے تمام پچھلے علمی کام سے رجوع کا اعلان اور وہ خط بھی اپنی آنکھوں سے چٹان میں پڑھا تھا۔ آج پرویزی مسلک کے کئی لوگ یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوتے مگر یہ حقیقت ہے کہ ڈاکٹر برق نے اپنی مشہور متنازع کتب دو قرآن، دو اسلام وغیرہ سے رجوع کر لیا تھا۔ والد مرحوم کا ایک معمول تھا کہ فجر کی نماز کے بعد اشراق کے وقت تک مختلف تسبیحات، درود شریف پڑھتے رہتے یا قرآن پاک کی تلاوت کرتے۔
اشراق کے بعد ایک لمبی دعا ئے مغفرت کرتے جس میں انبیا کرام سے اہل بیت، اصحاب ؓ، تابعین، تبع تابعین اور پھر نام لے لے کر بے شمار اولیا، بزرگوں کے نام لیتے اور پھر اپنے خاندان کے فوت شدگان تک آتے، انہیں ایصال ثواب دیتے اور دعائے مغفرت کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اہل سنت کے عقیدے کے مطابق پڑھے گئے قرآن اور دیگر تسبیحات کا ثواب وفات پانے والوں تک پہنچتا ہے، لیکن اگراس رائے سے متفق نہ ہو تب بھی مرحومین کے لئے دعائے مغفرت کرنا تو سنت مبارکہ ﷺ ہے۔ اس لئے یہ ضرور کرنا چاہیے۔
والد صاحب ناشتہ کے بعد عدالت چلے جاتے اور پھر وہاں سے پانچ بجے کے لگ بھگ واپسی ہوتی۔ تب کورٹ ٹائم صبح آٹھ سے چار بجے تھا۔ ایک دن فرمانے لگے کہ مجھے میرے سینئر نے ابتدا ہی میں مشورہ دیا تھا کہ کورٹ ٹائم سے آدھا گھنٹا پہلے عدالت پہنچ جائو اور آدھا گھنٹہ بعد تک وہاں بیٹھو، اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ واپسی کے بعد زیادہ وقت گھر میں گزارتے، تھوڑا آرام پھر گپ شپ۔ رات کو اپنے کیسز کی تیاری کرتے اور پھر سونے سے پہلے کچھ دیر تک ہم بچوں سے باتیں کرتے۔
ان کی یاداشت اچھی تھی، بچپن کے پڑھے اشعار، اقوال، حکایتیں یاد تھیں۔ فارسی کے بہت سے اشعار یاد تھے جو وہ مختلف واقعات کے ساتھ مکس کرکے سناتے۔ ان کے سنائے مولانا روم اور شیخ سعدی کے بعض اشعار ابھی تک یاد ہیں۔ کبھی مختلف موضوعات پر "فورم" اوپن کرکے ہمیں دلائل دینے کا کہتے۔ مجھے بچپن ہی سے پڑھنے کا شوق تھا تو مختلف کتابیں پڑھنے کی وجہ سے بسا اوقات مختلف قسم کی آرا بھی بیان کرتا اور لڑکپن، نوجوانی کے جوش میں موقف پر اڑ جاتا۔ وہ کبھی حوصلہ شکنی نہ کرتے، بات سنتے اور پھر اس پر منطقی سوال اٹھاتے۔ بعد میں اندازہ ہوا کہ یہ سب تربیت کا طریقہ تھا۔ میں بی ایس سی کرکے لا کی تعلیم حاصل کر رہا تھا، تب ان کا انتقال ہوا۔
مجھے یاد ہے کہ گریجوایشن تک کی نصابی کتب اور تب تک میں انگریزی ناولوں کا مطالعہ شروع کر چکا تھا، ماریا پوزو کا گاڈ فادر، سڈنی شیلڈن اور کسی حد تک ڈکنز وغیرہ بھی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی انگریزی لفظ کا میں نے ان سے مطلب پوچھا ہو اور انہیں علم نہ ہو۔ ایک دن ہم دونوں بھائیوں کو کہنے لگے کہ میرے اتنے طویل قانونی کیرئر کا نچوڑ ان تین مشوروں میں ہے جو ہمیشہ یاد رکھو۔ "کبھی کسی سادہ کاغذ پر دستخط نہیں کرنے، بے شک میں بھی تمہارے آگے وہ کاغذ رکھوں، تم نے تحریر پڑھے بغیر کبھی دستخط نہیں کرنے۔
دوسرا یہ کہ ہمیشہ اپنی اہم دستاویزات کی کاپی ضرور رکھو۔ ایک سے زائد فوٹو کاپی کرا کر مختلف جگہوں پر محفوظ کر لو۔ ایک وقت آئے گا جب یہ بہت کام آئے گی۔ " تیسری اور سب سے زیادہ اہم تاکید انہوں نے کی کہ ہمیشہ اپنے معاملات تحریر میں لے آئو۔ کوئی بھی کام چاہے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر کرو، تمام چیزیں احتیاط اور وضاحت سے تحریر کرو۔ کوئی لین دین کا معاملہ ہو، باقاعدہ اسٹام پیپر پر تحریر ہو، موقعہ کے گواہان ہوں، انگوٹھے وغیرہ بھی لگوا لئے جائیں۔ ان احتیاطوں سے بعد کی بہت سی پیچیدگیوں سے بچت ہوجائے گی۔
انہیں دنیا سے رخصت ہوئے اس انتیس ستمبر کو بتیس سال ہوجائیں گے۔ اپنی بعد کی زندگی میں ان کی یہ عملی نصیحتیں بہت کام آئیں۔ اس حوالے سے کبھی ججھک یا ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔ صاف کہہ دیتے ہیں کہ کوئی بھی معاملہ ہو، اسے تحریر کریں۔ آج کے دور میں تو زیادہ آسان ہوگیا ہے کہ تحریر کے ساتھ گواہان کی موجودگی میں ویڈیو بھی بنائی جا سکتی ہے، یہ بھی کسی حد تک ثبوت ہوسکتا ہے، عدالتوں میں نہ سہی، گلی محلے، خاندان کی پنچائت میں تو یہ کام آتا ہی ہے۔ یہ سب باتیں مجھے معروف لکھاری، اینکر، موٹیویشنل سپیکر خواجہ مظہر صدیقی کی ایک تحریر دیکھ کر یاد آئیں۔ مظہر صدیقی صاحب نے مفید ٹِپس دی ہیں جن پر توجہ کرنے سے روزمرہ زندگی میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔
خواجہ مظہر صدیقی لکھتے ہیں: چاہے آپ کسی کو ملازمت پر رکھیں، کسی کے پاس ملازمت کریں، کسی کو رقم دیں یا اپنی پراپرٹی کرائے پر دیں، ہر صورت میں معاملات کو تحریری شکل میں لانا ضروری ہے۔ معاہدے کی مدت، تنخواہ، کرایہ وغیرہ جو کچھ بھی زبانی طے ہو، اسے لکھ لیں اور گواہ بھی شامل کریں۔ چاہے معاملہ کسی قریبی عزیز سے ہو یا کسی اجنبی سے۔ دستاویزات کو مکمل کریں۔
"اگر آپ کو کسی نامعلوم نمبر سے کال آتی ہے اور وہ آپ سے آپ کا نام بار بار پوچھتا ہے، تو ہرگز اپنا نام ظاہر نہ کریں جب تک کہ وہ خود اپنی شناخت نہ بتائے۔
"اگر آپ کا پورا خاندان کسی دوسرے شہر جا رہا ہے اور گھر خالی رہے گا، تو کسی کو بھی اس کی اطلاع نہ دیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو روزانہ آپ کے گھر آتے ہیں، جیسے مالی، دودھ والا یا صفائی کرنے والی ماسی، انہیں بھی نہ بتائیں۔ ان سب کو بس یہی کہہ دیں کہ آپ چند دن چھٹی پر ہیں۔
"آپ کو کسی بڑی رقم کی آمد متوقع ہے، تو کسی کے ساتھ اس کا ذکر نہ کریں، حتیٰ کہ قریبی رشتے داروں سے بھی نہیں۔ اگر کوئی شخص آپ کو رقم دینے کے لیے آ رہا ہے، تو اسے بینک میں ملنے کے لیے کہیں اور وہیں رقم وصول کرکے فوراً اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیں۔
"اگر کوئی آپ کو کسی ناقابلِ یقین فائدے کی لالچ دے کر رقم مانگے، تو ہرگز یقین نہ کریں۔ ایسے لوگوں سے بچ کر رہیں۔
"بائیک یا گاڑی پر سفر کرتے وقت ہوشیار رہیں۔ اگر آپ کو لگے کہ کوئی موٹر سائیکل سوار آپ کا پیچھا کر رہا ہے تو فوراً اپنا راستہ بدل لیں۔ اگر کوئی قریبی عزیز اپنے بچے کو شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آپ کے پاس بھیجتا ہے، تو اسے اپنے گھر میں رکھنے کے بجائے ہاسٹل میں رہائش کا بندوبست کریں، چاہے آپ کو اس کے اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے پڑیں۔
"روزانہ ایک ہی راستے سے آنا جانا ٹھیک نہیں۔ اپنی آمد و رفت کا راستہ بدلتے رہیں"۔