بچوں کو کہانیاں پڑھنے کی طرف کیسے لائیں؟
میری زندگی کی چند بہترین اور سہانی یادوں میں اپنے والدین سے کہانیاں سننا شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہماری نانی، دادی ہماری پیدائش سے پہلے وفات پاچکے تھیں۔ گھر میں بزرگ نہیں تھے تو ہم نے کہانیاں اپنے والدین سے سنیں۔ میری امی پڑھی لکھی خاتون تھیں، ساٹھ کی دہائی میں ان کے چند ایک افسانے اس زمانے کے معروف جرائد زیب النسا اور حور وغیرہ میں شائع ہوئے تھے۔ شادی کے بعد وہ گھریلو مصروفیت کے باعث کہانیاں تو نہیں لکھ پائیں، مگر انہیں کہانی سنانے کا فن خوب آتا تھا۔ ادب کا مطالعہ بھی تھا اور لوک کہانیوں سے شناسائی بھی۔ سرائیکی لوک کہانیاں ہم نے ان سے سنیں۔
گنجو لیلہ (گنجا بکری کا بچہ)، ماما دیہہ دا قصہ (دیو ماموں کا قصہ)وغیرہ وغیرہ۔ ماما دیہہ روٹیوں کا تھب اور دال کا کنہ(دیگچہ)ہڑپ کر جاتا۔ اسی پر کسی نے پھبتی بھی کسی تھی کہ سرائیکیوں کا دیو بھی گوشت خور کے بجائے دال خور ہے۔ ویسے دال کا زیادہ استعمال میں نے خود دیکھا ہے۔ ہمارے گھر تو ایسانہیں تھا کہ والد مرحوم دال کی"فضیلت"کے ایسے قائل نہیں تھے، مگر ہمارے بعض رشتے دار گھرانوں میں ہر روز رات کو دال پکا کرتی۔ مونگ یا مسور کی دال پکتی اور اسے دیسی گھی کا تڑکا لگا کر کھایا جاتا۔ مزے کی ہوتی ہے، مگر تین سو پینسٹھ دن ایک ہی چیز کون کھاتا ہے یار؟ ایسا مگر ہمارے ہاں آج بھی ہوتا ہے۔
سرائیکی کلچر خاصا متنوع ہے، ریاست بہاولپور(بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یار خان کے اضلاع)کا کلچر قدرے مختلف رہا ہے۔ بہاولپور ہندوستان کی خوشحال ترین ریاستوں میں سے تھی، اس کے اثرات لوگوں پر بھی پڑے۔ مہمان نوازی یہاں کا خاصہ رہی۔ دوسری طرف چولستان جیسا عظیم اور قدیم تاریخی صحرا بھی اسی ریاست میں آتا ہے تو چولستان لوک قصے کہانیوں اور صحرائی روایات کا تڑکا بھی شامل ہوگیا۔ ملتان اور ڈیرہ غازی خان وغیرہ کا بھی اپنا مقامی کلچر، روایات ہیں۔ ڈیرہ کا سرائیکی لہجہ بہاولپور سے قدرے مختلف ہے اور چند الفاظ بھی الگ۔ ہم بہاولپوری سندھیوں کی طرح احترام سے لفظ سائیں بہت استعمال کرتے ہیں، سرائیکی لہجے میں اس کا تلفظ سائیں کی جگہ سئیں ہوجاتا ہے، خواتین کے لئے سینٹڑ کا لفظ برتا جاتا ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان والے سائیں نہیں بولتے، وہ اس کی جگہ صاحب کہتے ہیں۔ کیا حال ھن صاحب یا صیب وغیرہ۔ اسی طرح ہم بہاولپور، ملتان والی چیونٹی کو کویلی کہتے ہیں، جبکہ ڈیرہ اسماعیل خان والے اسے پپیلی کہتے۔ وہ مٹھڑی یا مٹھے کو گمبھیری کہتے، دودھ والے گوالا کو کھیری کہا جاتا جبکہ باہر آنے والے کسی بھی مرد کو جنڑا کہتے۔ ہم ریاست بہاولپور والے کسی بھی مرد کو جوان کہتے ہیں بے شک اس کی عمر پچاس پچپن سال ہی کیوں نہ ہو۔ ڈیرہ والے لفظ دستی کو فوراً کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں دودھ پھِٹ یعنی خراب ہوتا ہے جبکہ ڈیرے وال اس لفظ پھِٹ کو گم ہوجانے کے ضمن میں بھی برتا کرتے۔
کہنے کا مقصد یہ تھاکہ ہم نے ریاست بہاولپور کی سرائیکی لوک کہانیاں بھی سنیں اور ڈیرہ، کوہاٹ، بنوں، ٹانک، علاقہ غیر (تب کی وزیرستان ایجنسیاں وغیرہ)کے قصے، کہانیاں بھی۔ تو یوں مزا دوبالا ہوگیا۔ والد مرحوم ہائیکورٹ کے وکیل تھے، مگر وہ وکالت سے پہلے ٹیچنگ کرتے رہے اور بہاولنگر کے مضافاتی علاقوں میں سکول ٹیچر اور پھر ہیڈماسٹر رہے۔ بہاولنگر کی مشہور لالیکا فیملی کے عبدالستار لالیکا، عالم لالیکا ان کے شاگرد رہے تھے۔
والد بعض ایسے مضافاتی علاقوں میں بھی مقیم رہے جہاں ابھی جنگل تھے اور ڈاکوؤں کا گڑھ تھا۔ بہت سے مزے کے دلچسپ قصے ان سے سننے کو ملے۔ اس سب نے تخیل کو مہمیز لگائی اور ادب سے دلچسپی بھی پیدا کی۔ بعد میں موقعہ ملا تو حسب استطاعت اردو ادب کے ساتھ علاقائی زبانوں اور پھر عالمی ادب کو پڑھنے کا موقعہ ملا۔ تمہید طویل ہوگئی۔ سوال اصل میں یہ پوچھنا تھا کہ اپنی نئی نسل کو کیسے کہانیاں پڑھائی جائیں؟ یہ ملین ڈالر سوال ہے اور اس کا جواب کوئی آسان نہیں۔ میرے جیسے لوگ اپنے بچوں کوکہانیاں پڑھانے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہتے ہیں۔
چند سال قبل میں نے لاہور کے کتاب میلہ سے فیروز سنز کی شائع کردہ مشہور طلسم ہوشربا اور داستان امیر حمزہ سیریز خریدیں اور بچوں کو ایک طرح سے زبردستی پڑھائیں۔ یہ ترغیب دی کہ فی کہانی پڑھنے پر انعام ملے گا۔ انعام دینا پڑا مگر تب بھی بڑے تین بچوں میں سے صرف ایک نے ہمت کی، باقی دو چار کہانیوں کے بعد بھاگ گئے۔
دراصل کاغذ کی جگہ موبائل اور ٹیب، لیپ ٹاپ وغیرہ پر بہت پرکشش اور رنگین قسم کے کارٹون، ویڈیو گیمز وغیرہ دستیاب ہیں تو وہ کہانیوں کی کتابوں کی طرف کیسے راغب ہوں؟ پچھلے دنوں مجھے ایک ایپ دیکھنے کو ملی تو بہت اچھا لگا۔ ڈاکٹر محمد اویس شوکت پی ایچ ڈی سکالرہیں، علم وادب سے انہیں گہری دلچسپی ہے۔ "احیا ایجوکیشن سروسز" ان کا ادارہ ہے۔ انہیں اس کا احساس تھا کہ بچوں کے لئے اب صرف کہانیاں چھاپنے سے کام نہیں چلے گا، اب ایپ ہونی چاہیے جسے موبائل، ٹیبلٹ وغیرہ پر ڈاون لوڈ کرکے چلایا جا سکے۔ انہوں نے بعض احباب کے ساتھ مل کر الف لیلہ ایپ بنائی ہے۔ الف لیلہ ولیلہ آپ جانتے ہی ہوں گے کہ بہت مشہور کہانیوں، قصوں کی کتاب ہے۔ جس الف لیلہ ایپ کا ذکر کیا، اس کی اپنی کہانیاں ہیں، بہت سے متنوع موضوعات پر، مگر نام الف لیلہ اسی لئے لیا کہ اس مشہور کلاسیکل کتاب کی طرح اس ایپ میں بھی ہر قسم کی کہانیاں ہیں۔
یہ بہت ہی خوبصورت اور دلکش ڈیزائننگ کے ساتھ کہانیوں کی ایپ ہے۔۔ کہانیوں کی خاصی کیٹیگریز ہیں، سیرت پر بھی مواد ہے جبکہ مشہور مغربی کہانیوں کے تراجم بھی، انہوں نے بہت سی نئی طبع زاد کہانیاں بھی لکھوائی یا ترجمہ کرائی ہیں۔ مزید معلومات (https://aliflaila.app)سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مجھے تو اس کی کہانیاں اس قدر پسند آئیں کہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے عبداللہ کے لئے فوری ڈاؤن لوڈ کر لی۔ اس پر کچھ کہانیاں فری ہیں اور باقی کے لئے نہایت کم قیمت پر (بمشکل چند سو روپوں میں)پیکج لیا جا سکتا۔ مجھے یہ اچھا لگا کہ کسی کہانی کووالدین یا استاد بچوں کو اسائن کر سکتے ہیں، انہیں نظر آتا رہے گا کہ بچے نے وہ کہانی پڑھی یا نہیں اور کس قدر پڑھ لی۔ یوں چیک رکھا جانا ممکن ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ بچوں کو کم عمری سے کہانیاں پڑھنے، سننے میں دلچسپی پیدا کرانی چاہیے۔ مطالعہ کی ابتدا ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں ہی سے ہوتی ہے۔ ایسا ممکن نہیں کہ زندگی کے اٹھارہ بیس سال تک ایک صفحہ بھی نہ پڑھا جائے اور پھر اچانک کئی سو صفحات پر مشتمل سنجیدہ کتب پڑھ لی جائیں۔ ایسا سوچنا ایک لایعنی خواب ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بچوں کو مطالعہ کا شوق پیدا ہو تو بچپن ہی سے محنت کرانا پڑے گی۔ کہانیوں کی کتابیں بھی پڑھائیں اور موبائل، ٹیبلٹ پر کلرفل کہانیوں کی ایپ سے بھی فائدہ اٹھائیں۔ اصل مقصد یہ ہے کہ بچوں کو کتاب سے جوڑا جائے، چاہے وہ ہارڈ بک ہو یا پھر ای بکس۔