ماحول اور حالات بنائے جاتے ہیں
2021 کا ادب نوبیل انعام تنزانیہ کے ادیب عبدالرزاق گورناہ کو دیا گیا ہے، انھوں نے 1987 میں ایک ناول Memory of Departure کے نام سے لکھا، یہ ناول ایک پندرہ برس کے نوجوان کی کہانی ہے جو مشرقی افریقہ کے ایک غریب ساحلی علاقے میں پیدا ہوا، اس کے اطراف محض غربت، مایوسی، کرپشن اور ہر قسم کی بے راہ روی مروج ہے۔
یہ ایسے گھرانے کی کہانی ہے جس کا ہر فرد اس ماحول کا شکار ہوا ہے لیکن ہر ایک اپنے انفرادی انداز میں اس کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس کا باپ اپنی ناکامیاں شراب میں ڈبوکر اور اپنی اولاد پر تشدد کرکے وہ اپنے گھرانے کا ایک جابر، ناکام، غصہ ور حکمران نظر آتا ہے۔ اس کی بہن غیر مردوں کی بانہوں میں فرارکی راہ تلاش کرتی ہے۔ اس کی ماں ایک روایتی، شکست خوردہ مظلوم عورت اپنے گھرکا بنیادی ڈھانچہ قائم رکھنے کی کوشش میں خاموشی سے سب سہے جا رہی ہے۔
شوہر کے ہاتھوں جسمانی تشدد اور بے عزتی کے ساتھ وہ اپنی اولادوں کے سامنے اپنا وقار برقرار رکھنے کی کوشش میں ہراساں نظر آتی ہے۔ اس خاندان کے تمام افراد ایک دوسرے سے شرمندہ ہیں لیکن کسی نہ کسی سطح پر ان کی امیدیں نوجوان حسن کی امنگوں سے وابستہ ہیں، جن کے خیالات بلند اور مقصد واضح ہیں لیکن وہ اکیلا اس منزل تک نہیں پہنچنا چاہتا ہے بلکہ اپنے اطراف اور اپنے ماحول کو بھی مایوسی اور مفلسی کی دلدل سے نکالنا چاہتا ہے۔
یہ ماحول پوسٹ کالونیل معاشروں کا نارمل ماحول ہے۔ یہ ماحول مشرقی افریقہ کے غریب ساحلی علاقے کا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ماحول آج پاکستان کا بھی ہے۔ یہ کہانی آج تقریباً ہر پاکستانی نوجوان کی کہانی ہے۔ بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ کرداروں کے نام مختلف ہیں لیکن ماحول اور حالات ایک جیسے ہیں سوچ اور فکر ایک جیسی ہے شرمندگی ایک جیسی ہے امیدیں ایک جیسی ہیں سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ماحول اور حالات خود بخود بنتے ہیں یا پھر بڑی ہی خاموشی سے چپ چاپ بنائے جاتے ہیں اور ان ماحول اور حالات میں رہنے والوں کو یہ محسوس کروایا جاتا ہے کہ ان کے نصیب اور مقدر میں اس ماحول اور حالات کے علاوہ کوئی اور ماحول اور حالات نہیں آسکتے۔
اس سارے کھیل کو پہلے پہل برازیل کے تعلیم دان پائو لو فریرے نے سمجھا تھا۔ پائولو فریر ے نے براہ راست غربت کا تجربہ کیا تھا، ان حالات کا اس کی زندگی پر بہت گہرا اثر پڑا کیونکہ اس نے بھوک کی شدت سے اٹھنے والے درد کی ٹیسوں کا براہ راست ادراک کیا۔ ان ہی مصائب کی وجہ سے وہ پڑھائی میں بہت پیچھے رہ گیا۔ اس بحران نے اسے گیارہ سال کی عمر میں ہی یہ عہد کرنے کی طرف رہنمائی کی کہ وہ بھوک کے خلاف جد وجہد میں اپنی زندگی بسر کرے گا تاکہ دوسرے بچوں کو اس جسمانی و روحانی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے جس کا وہ خود تجربہ کر رہا تھا۔
غریبوں کے ساتھ ابتدائی عمر گزارنے سے اس کو محروم لوگوں کے " خاموشی کے کلچر " کو دریافت کرنے کا موقع ملا وہ کہتا ہے کہ غیر ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک کے لوگوں کا موازنہ انتہائی ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں سے اگر کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے سماج میں غالب اور قابض اشرافیہ عام لوگوں کی آواز نہیں سنتی اور وہ اسکولوں اور دوسرے اداروں کے ذریعے اپنے الفاظ مقرر کرتے ہیں جن کو عام لوگوں اور مظلوموں نے بولنا ہوتا ہے جو موثر طور پر لوگوں کو خاموش کرانے کا ایک طریقہ ہے۔ یہ ٹھونسی ہوئی خاموشی جوابی رد عمل کی غیر موجودگی کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ ایسے جوابی عمل کا باعث بنتی ہے جو تنقیدی معیار سے محروم ہو۔
مظلوم لوگ اپنی ہی منفی شبیہہ ذہنوں میں بٹھا لیتے ہیں یہ ایسی شبیہہ ہوتی ہے جو ان کے بارے میں اشرافیہ مقرر کرتی ہے ایسے حالات میں اپنی زندگی کا مختیار کل بننا ناممکن ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب ایک انسان اپنی ذات سے نئی آگہی کا سامنا کرتا ہے، عظمت کا احساس پاتا ہے اور نئی امید سے جنبش پاتا ہے تو وہ بول اٹھتا ہے۔ اب میں محسوس کرتا ہوں کہ میں انسان ہوں ایک پڑھا لکھا انسان، پہلے ہم اندھے تھے، اب ہماری آنکھیں کھل گئی ہیں۔
اس سے پہلے ہمارے لیے الفاظ کچھ بھی نہیں تھے اب وہ ہم سے بولتے ہیں اور ہم ان کو بلواتے ہیں۔ اب ہم سماج پر مردہ بوجھ نہیں ہوں گے، وہ طاقت، اقتدار، اختیار اور روپوں پیسوں کے خواہش مندوں، بھوکوں اور لالچیوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ان کا مقصد اپنے گرد ہر چیز کو تبدیل کرکے انھیں شے میں تبدیل کر دینا ہوتا ہے۔ زمین، جائیداد، پیداوار، لوگوں کی تخلیق، بذات خود لوگ، وقت سمیت غرض ہر شے وقت خرید کے ذریعے شے بنانے کا نقطہ نظر اپنایا جاتا ہے۔
ان کا سب سے بڑا منشا اور مقصد زیادہ سے زیادہ چیزیں اکٹھی کرنا ہو تا ہے۔ وہ انسان کو غیر انسانی بناتے چلے جاتے ہیں۔ جب ہم اپنے آپ پر نظریں دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب اب انسان نہیں بلکہ شے میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ آج پاکستان میں بائیس کروڑ انسان اب انسان نہیں بلکہ شے ہیں اور ان بائیس کروڑ اشیا کو اپنے پاس جمع کرنے کا چند بھوکوں، لالچیوں کا آپس میں مقابلہ لگا ہوا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بائیس کروڑ انسانوں کو غیر انسانی بناتے بناتے بنانے والے خود بھی غیر انسانی بن چکے ہیں۔ اب ان کے نزدیک کسی رشتے کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں رہی ہے۔ وہ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ وہ پیٹ سے سوچنے والی غیر انسانی مخلوق بن چکے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھ سکتے ہیں کہ ان کا سانس اپنی جمع کردہ چیزوں کے بوجھ تلے دبا جا رہا ہے۔ اب آپ کو پورے ملک میں طاری خاموشی کی وجہ بھی سمجھ میں آچکی ہوگی۔ ظاہر ہے انسان بولتے ہیں، سوچتے ہیں، احساس کرتے ہیں، شور مچاتے ہیں جب کہ اشیا نہ بولتی ہیں، نہ سوچتی ہیں، نہ احساس کرتی ہیں اور نہ ہی شور مچاتی ہیں بس چپ چاپ ایک جگہ پڑی رہتی ہیں۔
عظیم مصنف فیودر دستوئیفسکی اپنے ناول کراما زوف برادران میں لکھتا ہے " عام لوگوں میں ایک قسم کا رنج و غم ہوتا ہے جسے وہ حرف شکایت زبان پر لائے بغیر مدتوں سے سہے چلے آ رہے ہوتے ہیں۔ اس کا رخ باطن کی طرف ہوتا ہے اور یہ سکوت کی مانند بہتا ہے مگر ایک غم و اندوہ اور بھی ہوتا ہے یہ سارے جسم کو جھنجھنا کر رکھ دیتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب یہ ساری رکاوٹیں توڑ کر آنسوئوں کی شکل میں بہہ نکلتا ہے اور نوحے کا روپ دھا ر لیتا ہے۔"
دوسری طرف برٹرینڈرسل اپنی آپ بیتی میں لکھتا ہے "میں اس دکھ اور مایوسی سے ضرور آگاہ ہوں جو میر ی روح میں ہے۔ دکھ دینے والی گمبھیر تنہائی سے میں واقف ہوں۔ بھوت کی طرح میں دنیا میں بھٹکتا ہوں ایسی آوازوں میں بولتا ہوں جو سنی نہیں جاتیں۔ لگتا ہے میں کسی اور ہی سیارے سے یہاں آ گرا ہوں۔" ہم سب بھی بھوتوں کی طرح پاکستان میں بھٹکتے پھرتے ہیں وہ بھوت جو رنج و غم کا بار اٹھا ئے اٹھائے حرف شکایت زبان پر لائے بغیر اسے مدتوں سے سہے چلے آ رہے ہیں۔