وزیراعظم اور حسن طلب
وزیراعظم نے عوام کو خوشخبری دی ہے، بالکل مفت اور ساتھ ہی مشورہ بھی دیا ہے، وہ بھی بلاقیمت۔ فرمایا ہے:کہ حالات جلد اچھے ہونے والے ہیں، عوام بڑھتی ہوئی مہنگائی پر صبر کریں۔ خوشخبری پر اعتبار کرنا چاہیے اور مشورے پر عمل۔ خوشخبری پر اعتبار اس لیے کرنا چاہیے کہ وزیراعظم نے اب تک جتنی بھی خوشخبریاں دی ہیں، ساری کی ساری پوری ہوئی ہیں۔ یقین نہ ہو تو شبلی فراز، فردوس عاشق اعوان وغیرہ سے ہی پوچھا جا سکتا ہے اور مشورے پر عمل اس لیے ضروری ہے کہ اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ دونوں باتوں یعنی خوشخبری اور مشورے کا تعلق مدت سے ہے۔ یعنی حالات کب تک اچھے ہوں گے اور صبر کب تک کرنا ہوگا، تو جواب ہے کہ کم از کم بیس سال۔ اس لیے کہ وزیراعظم نے کل پھر یہ بات دہرائی ہے کہ ڈلیور کرنے کے لیے پانچ سال کی مدت کم ہے۔ ایک سابقہ خطاب میں بیس سال کی مدت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔ شاید یہ بھی کم پڑے۔ بہرحال بیس سال کی مدت کو کم از کم تو ماننا ہی پڑے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ حالات بیس سال کے بعد بہتر ہونے شروع ہو جائیں گے اور صبر کی ابتدائی مدت بھی بیس سال ہے، بعدازاں اس میں توسیع یعنی ایکسٹینشن کی گنجائش تو رہے گی۔ نیز یہ انتباہ بھی ضروری نوٹ فرمائیں کہ حالات اچھے ہونے اور صبر کی مدت کے یہ بیس سال مشروط ہیں اس بات پر کہ حکومت اگلے چار دورانیوں تک خان ہی کی رہے، بیچ میں کسی اور کی حکومت آ گئی تو ان کا ذمہ دوش پوش۔ تبدیلی کا بیس سالہ سفر بعدازاں پھر سے یعنی نئے سرے سے شروع کرنا ہوگا۔
٭ہمیں پتہ ہے کہ ناہنجار قسم کے اور پٹواری ذہنیت رکھنے والے بعض کورونا وائرس لوگ اعتراضی سوال اٹھائیں گے کہ نوازشریف کو کون سی بیس سالہ مدت ملی تھی۔ انہیں تو کل چار سال ملے۔ اس میں سے بھی سال بھر سے زیادہ پانامہ اور اقامہ کی آپا دھاپہ جاری رہی۔ پھر کیسے ان کے دور میں ملک ترقی کر کے لگ بھگ چھ فیصد کے گروتھ ریٹ پر آ گیا۔ کیسے انہوں نے موٹر ویز کا جال بچھا دیا اور کیسے اتنے درجنوں کے حساب سے بجلی گھر، ضلع، ضلع ہسپتال اور جگہ جگہ یونیورسٹیاں بن گئیں۔ مہنگائی پر انہوں نے کیسے قابو پائے رکھا وغیرہ وغیرہ۔ لوگ سچ کہتے ہیں سب منصوبے سی پیک کے ہیں۔ ان ناہنجاروں کی تسلی کے لیے ایک ہی جواب شافی و کافی رہے گا کہ نادانو، وہ ساری مصنوعی ترقی تھی اور مصنوعی خوشحالی تھی۔ خان صاحب حقیقی ترقی اور حقیقی خوشحالی کی بات کر رہے ہیں۔ حقیقی اور مصنوعی کا فرق قبلہ پرویز مشرف دس سال اس قوم کو سمجھاتے رہے اور حقیقی جمہوریت نافذ کر کے عملی مظاہرہ بھی کیا لیکن کیا کیجئے، ان نادانوں کو بات سمجھنے کا دماغ ہے نہ بات کرنے کا سلیقہ۔
٭یہ نادان، کوڑھ مغز اور کور چشم لوگ اپنے دیدہ نابینا کو کھول کر دیکھ سکیں تو انہیں معلوم ہو گا کہ حقیقی ترقی در حقیقی خوشحالی کے آثار بدستور نمودار ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک ہی مثال کافی رہے گی۔ ماہرین معاشیات نے خوشخبری سنائی ہے کہ اس سال بجٹ خسارہ بڑھ کر چار ہزار ارب روپے ہو جائے گا۔ اندازہ ہے کہ چار ہزار ارب کتنے ہوتے ہیں؟ جی، ان دو سو ارب سے بیس گنا زیادہ جو مراد سعید کے بقول عمران خان نے آتے ہی باہر سے لانے تھے اور باری باری کئی ایک کے منہ پر مارنے تھے۔ اس چار ہزار ارب کو اس ہولناک ترقی کا طرزہ خیز اشارہ سمجھئے جس کا سفر شروع ہو چکا ہے۔ اور ہاں، گردشی قرضہ جو اس وقت 2400 ارب روپے ہے، اگلے تین چار برس میں بڑھ کر 4936 ارب روپے ہو جائے گا۔ نواز دور کے مقابلے میں محض یہی ترقی اڑھائی سو فیصد زیادہ ہے۔ سپیڈ کی لائٹ سے بھی زیادہ تیزرفتار ترقی۔
٭ایک تجزیہ نگار نے بجلی کے نرخوں میں ہر آئے روز اضافے کو قسطوں میں موت قرار دیا ہے۔ یعنی کہ بالکل غلط بات کی۔ موصوف کو جاننا چاہیے کہ یہ قسطوں میں موت نہیں، قسطوں میں ترقی ہے اور ترقی کی حتمی منزل کے لیے خان صاحب کے اس حسن طلب کی تکمیل کرنا ہو گی کہ بیس سال مزید دیئے جائیں۔ یہاں یہ سوال اٹھے گا کہ اس حسن طلب کی تعمیل کون کرے گا۔ جواب یہ ہے کہ کوئی اور نہیں کرسکتا تو خان صاحب خود ہی کر ڈالیں گے، ایک عدد صدارتی آرڈیننس ہی تو جاری کرنا ہے۔ صدارتی آرڈیننس بعنوان بیس سال کی ایکس ٹینشن۔ کون ہے جو روکے۔ رہی اپوزیشن تو وہ اس چیلنج کو لے کر سوا اور کر ہی کیا سکتی ہے اور چیلنج تو اس نے کئی کر رکھے ہیں۔
٭خبر ہے کہ حکومت اگلے تین ماہ میں چار ہزار نو سو ارب روپے کے مزید قرضے لے گی۔ اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے رہیں، کم سے کم ہمیں کوئی اعتراض نہیں، ہمیں تو صرف ایک سوال سے غرض ہے اور سوال یہ ہے کہ خان صاحب آپ پہلے ہی برصغیر کی تاریخ کے ریکارڈ قرضے لے رہے ہیں اور اب مزید لینے والے ہیں، اڑھائی سال کے دوران آپ نے ترقیاتی یا تعمیراتی کام کے نام پر ایک اینٹ تو کجا ایک روڑہ بھی نہیں لگایا، پھر یہ رقم جا کہاں رہی ہے، کون سے کچے کھوہ میں ڈیپازٹ ہورہی ہے؟
٭شیخ صاحب نے انکشاف کیا ہے کہ سرکاری ملازموں کی تنخواہ میں اضافہ تو ہم نے کر ہی دینا تھا، آنسو گیس کے شیل تو محض تجربے کے لیے چلائے کہ کہیں پڑے پڑے ناکارہ تو نہیں ہو گئے۔ یہ شیل زائد المیعاد اور زہریلے تھے، لگتا ہے شیخ صاحب خاصے مایوس ہوئے۔ ملک کے ہتھیار خانے میں پتہ نہیں کون کون سا اسلحہ موجود ہے، اگلی بار شیخ صاحب نہ جانے کیا کچھ چلائیں۔ اللہ خیر کرے۔