اسے کہتے ہیں وژن
رمضان المبارک گزر چلا۔ بس ایک عشرہ رہ گیا۔ حسب توقع اور حسب روایت پاکستان میں اس ماہ مبارک کے دوران جرائم اور مہنگائی سمیت ہر برائی بڑھی۔ باقی انچاس مسلم ممالک میں اس مہینے جرائم کم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ بھارت میں بھی جو غیر مسلم ملک ہے لیکن 22کروڑ مسلمانوں کی وجہ سے اس کا کچھ تشخص"مسلم" بھی بن جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ الٹی گنگا کیوں بہتی ہے۔ کمزور، بے بس عورتوں اور بچوں کو ہلاک کر کے اپنی "مردانگی" کا سکہ جمانے والے سورما بھی اسے مہینے اور زیادہ بے باک ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان میں صرف برائی بڑھتی ہے۔ اس مہینے نیک اعمال کی بھی کثرت ہوتی ہے، سب سے زیادہ نیک عمل خیر خیرات کرنا اور وہ بہرحال اس مہینے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ تلاوت کی کثرت ہوتی ہے، مسجدیں زیادہ پررونق ہوتی ہیں۔ دعائوں کا بھی زورہوتا ہے لیکن وہ الٹی گنگا جس کا ذکر اوپر ہوا، صرف پاکستان میں کیوں بہتی ہے۔ دین کے علمبردار غور فرمائیں۔ کہاں خرابی ہے۔ ہر رمضان میں کچھ ڈاکٹر حکیم اپنے مقالات لے کر میڈیا پر رونق افروز ہوتے ہیں کہ روزے سے فلاں اور فلاں بیماریاں ختم ہو جاتی ہے۔ روزہ جسمانی صحت کا ذریعہ ہے۔ لاحول والا۔ یہ دین کی خدمت ہے یا روزے کو رجوع الی الشباب کی مشق۔ ایسی ہی کوشش نماز کے بارے میں بھی کی جاتی ہے کہ رکوع کرنے سے فلاں اور سجدہ کرنے سے فلاں بیماری دور ہو جاتی ہے۔ قرآن پاک میں تو کچھ اور لکھا ہے کہ تم پر روزہ فرض کئے گئے پچھلی امتوں کی طرح تاکہ تم تقوے کی راہ پر چلو، ایسا تو کہیں نہیں آیا کہ تم پر روزے فرض کئے گئے تاکہ تمہاری صحت اچھی ہو سکے۔ نماز بھی کوئی یوگا نہیں ہے، مخلوق کا خالق کے سامنے باڈی اور مائنڈ لینگویج کے ساتھ یہ اقرار ہے کہ ہم بندے ہیں اور تو مالک اور آقا ہے۔ قرآن میں یہ آتا ہے کہ نماز برائیاں دور کرتی ہے یہ کہیں نہیں آیا کہ نماز دماغ کا دوران خون بڑھاتی ہے اور حافظہ تیز کرتی ہے روزہ رکھنے والے کی نیت میں یہ شامل ہو جائے کہ اس کا جسمانی علاج ہو گا، تو روزہ کے خالص اللہ کے لئے ہونے کی نیت میں کھوٹ نہیں آ جائے گا۔ یہی معاملہ نماز کا ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ نماز اور روزے کے طبی فائدوں پر مشتمل اشتہارات مساجد میں بھی لگے ہوتے ہیں۔ شیطان بھی کہاں کہاں سے وار کرتا ہے۔ علاج معالجے کے لئے اللہ نے جڑی بوٹیاں، ڈاکٹری اور طبابت کے علم پیدا کئے۔ نماز کو نماز اور روزے کو روزہ ہی رہنا چاہیے۔
٭وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ مہذب ممالک میں کسی پر ثبوت کے بغیر الزام لگایا جا سکتا ہے نہ اسے نشر کیا جا سکتا ہے۔ آپ ایف بی آر کے سابق ڈی جی بشیر میمن کے انٹرویو پر اظہار رنج و غصہ فرما رہے تھے، جنہوں نے وزیر اعظم پر سیاسی مخالفوں کے خلاف مقدمات درج کرنے کے احکامات دینے کے الزامات لگائے تھے۔ وزیر اعظم نے سچ فرمایا اور کیوں نہ سچ فرماتے۔ دنیا جانتی ہے کہ آپ نے زندگی بھر سچ ہی تو بولا ہے۔ مغربی ممالک (اردو میں مغربی کا ترجمہ مہذب کے لفظ سے کیا جاتا ہے) میں بنا ثبوت کے کوئی الزام لگاتا ہے نہ کوئی چھاپتا یا نشر کرتا ہے۔ کرتے تو کارروائی ہو جاتی ہے، جیسے شہباز شریف پر ایک اخبار کے الزامات پر ہوئی۔ وہاں ہتھک عزت کے قانون پر عمل ہوتا ہے یہاں نہیں ہوتا۔ یہاں پھر شہباز شریف کی مثال۔ تین سال پہلے ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے پانامہ سکینڈل سے دستبردار ہونے کے عوض 5ارب روپے رشوت کی پیشکش کی۔ شہباز نے کیس کر دیا کیس تین چار کے بعد بھی بدستور لاپتہ ہے۔ وزیر اعظم بہت مہان ہستی ہیں، نہایت مہذب(یہاں مہذب کا ترجمہ مغربی برائے خدمات کیجیے گا) چار پانچ سال پہلے انہوں نے نواز شریف پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے تین ہزار کروڑ ارب روپے چوری کر لئے۔ بالیقین یہ الزام انہوں نے ثبوت کے ساتھ ہی لگایا ہو گا کہ مہذب ہیں، صادق و امین بھی، بنا ثبوت کے اتنا بڑا الزام کیسے لگا سکتے ہیں۔ الزام سچا تھا اور ثبوت خاں صاحب کے پاس یقینا موجود۔ عوام کو توقع تھی کہ وزیر اعظم یہ ثبوت ان کے ساتھ شیئر کریں گے۔ پہلے تو یہ انتظار تھا کہ ابھی حکومت میں نہیں ہیں، ثبوت شیئرکرنے کے لئے جو وسائل چاہئیں دستیاب نہیں ہیں لیکن پونے تین سال پہلے وہ حکومت میں آ گئے اور حکومت بھی کون سی؟ ملکی تاریخ میں پہلی بار ایک پیج والی لیکن یہ انتظار بدستور انتظار ہی رہا۔ وزیر اعظم کو پورا پتہ ہے کہ نواز شریف نے یہ تین ہزار ارب کروڑ کہاں سے چوری کئے، کیسے چوری کئے کب کئے۔ بلکہ ان کے پاس تو چوری کرنے کی "فوٹیج" بھی موجود ہوگی۔ سارا ریکارڈ ہو گا۔ لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر وہ یہ ثبوت، دستاویزی، محکم اور ناقابل تردید ثبوت نہ تو عوام سے شیئر کر رہے ہیں نہ پریس سے۔ ملک کو مہذب اور میڈیا کو ذمہ دار بنانے کا خواب پھر کیسے پورا ہو گا؟
٭وزیر اعظم نے کہا ہے اکثر غلطیاں کرتا ہوں، پھر سوچتا رہتا ہوں۔ سوچنا یعنی وژن، اسے کہتے ہیں وژن، یہ ہوتا ہے لیڈر۔ سبحان اللہ اور کیا کہیے۔