Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Abdullah Tariq Sohail
  3. Ishariye Aur Ishara

Ishariye Aur Ishara

اشاریئے اور اشارہ

پراپیگنڈے کی طاقت میں کسی کو شبہ نہیں۔ حکایت نہیں، ایک سچا واقعہ ہے، کسی کی خودنوشت میں پڑھا تھا کہ کالج کے زمانے میں انہوں نے اور ان کے چند ساتھیوں نے ایک دن یہ احساس کر کے آج پروفیسر صاحب نے سوال جواب کرنے ہیں اور تیاری ہم نے کی نہیں، یہ فیصلہ کیا کہ آج پروفیسر موصوف کو کلاس میں آنے ہی نہیں دیا جائے گا۔ تشدد سے نہیں، عدم تشدد سے یعنی پروپیگنڈہ سے۔ چنانچہ پروفیسر کے کالج آنے سے ذرا پہلے تمام ساتھی کہ کل تعداد چھ یا سات تھی، راستے میں اپنے اپنے مورچے بنا کر کھڑے ہو گئے۔ ایک صاحب گیٹ پر تھے، جونہی پروفیسر صاحب کو دیکھا، لپک کر ان کا استقبال کیا اور ذرا سا توقف کر کے پوچھا، سر خیریت تو ہے، آپ کا چہرہ پیلا پڑ رہا ہے۔ پروفسر نے کہا، نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔ میں ٹھیک ٹھاک ہوں۔ آگے چلے تو دوسرا مجاہد ملا۔ گرم جوشی سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا اوئے سر، آپ کا تو ہاتھ ایک دم ٹھنڈا پڑ رہا ہے۔ آگے تیسرے مجاہد کھڑا تھا۔ کہنے لگا سر خیر ہے آپ کو پسینہ کیوں آ رہا ہے۔ قصہ مختصر ساتویں مجاہد کی باری ہی نہیں آئی۔ پروفیسر صاحب کویقین ہو گیا کہ ٹھنڈے پسینے آ رہے ہیں، دل کی حرکت بے ڈھب ہے، خدا ہی جانے کیا مسئلہ ہوگیا، وہ انہی قدموں سے ڈاکٹر صاحب کے پاس روانہ ہو گئے۔

جہاد کا ایک اور مورچہ یہ ہے کہ مسلسل تیسرے ہفتے مہنگائی میں کمی ہورہی ہے۔ لوگ یہ پوچھیں تو کس سے کہ کیا بجلی کے نرخ کم ہو گئے۔ کیا تیل سستا ہوگیا، کیا گیس کا بل کم آئے گا۔ کیا ویگنوں بسوں کے کرائے میں کٹوتی ہوگئی۔ کیا سکولوں کی بڑھی ہوئی فیسیں نیچے آ گئیں؟ کیا دوائیں نواز دور کے نرخوں پر ملنے لگیں وغیرہ وغیرہ نیز ودیگر وغیرہ۔ لیکن یہ سوال تو وہ پوچھ ہی کب سکتے ہیں۔ چنانچہ مہنگائی میں کمی کا بلیٹن پڑھنے لگتے ہیں۔ دس اشیا سستی ہو گئیں، چینی تیرہ پیسے فی کلو سستی، آٹا ساڑھے نو پیسے سستا، پیاز تیس پیسے سستا، گیارہ چیزیں مہنگی ہو گئیں، یعنی انڈا دس روپے اور گھی نو روپے کلو مہنگا، ادرک سو روپے مہنگی اور مرچ چھ روپے مہنگی، کل ملا کر صفر اعشاریہ 22 فیصد مہنگائی کم ہو گئی۔ شکر الحمدللہ، وزیراعظم کی جے ہو جو یہ بدھائی دے رہے ہیں کہ معیشت سیدھے راستے پر آ گئی۔

وزیراعظم نے یہ عظیم خوشخبری سنائی ہے کہ معیشت کے تمام اشاریئے مثبت ہو گئے ہیں۔ یعنی مثبت کی حد ہی ہو گئی، ایک، دو نہیں، چار نہیں، سارے کے سارے تمام کے تمام اشاریئے مثبت جا رہے ہیں۔ چنانچہ گھر گھر میں مثبت مثبت کی دہائی مچی ہے یعنی آج تے ہو گئی مثبت مثبت کے ترانے بج رہے ہیں۔ تازہ متوقع مثبت یہ ہے کہ بجلی ساڑھے تین روپے یونٹ یکمشت مہنگئی کرنے کا اصولی فیصلہ ہو گیا ہے، آج یا کل عملی اعلان بھی آیا سمجھو۔ مثبت کی جمع کیا ہوگی؟ شاید مثبات تو گویا دیش داسی اب بحر مثبات میں تتیراکی کرنے کو کمر باندھ رکھیں۔

بہرحال، ایک تازہ مثبت اشاریئے کی تفصیل سٹیٹ بینک نے دی ہے، اس نے بتایا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں 81 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یوں سمجھئے کہ 19 فیصد کی کسر رہ گئی ورنہ یہ اشاریہ بھی پورے سو فیصد مثبت ہوتا۔ خیر، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ اس 19 فیصد کو بھی دیکھ لیں گے۔ بینک نے مزید بتایا کہ سرمایہ کاری میں اضافہ تو کیا ہوتا، الٹا غیر ملکی سرمایہ کار کروڑوں ڈالر نکلوا کر لے گئے۔ سرکاری کی رپورٹ یہ بھی ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے چار ماہ میں دیسی ساختہ کاروں، ٹرکوں، جیپوں اور دیگر گاڑیوں کی پیداوار پچھلے سال کے مقابلے میں 23 فیصد کم ہو گئی اور مجموعاً دو سال کے دوران یہ پیداوار 62 فیصد تک کم ہوئی۔ رپورٹ حوصلہ افزا حد تک مثبت ہے۔ البتہ مزید مثبت بنانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وزیراعظم ہائوس، وزراء اعلیٰ اور گورنر ہائوسز کے لیے لگژری گاڑیوں کی امپورٹ میں کتنا اضافہ ہوا۔ سنا ہے ایک ایک وزیر کے پاس چھ چھ گاڑیاں ہیں۔ سات کا ہندستہ مبارک ہے یعنی ایک کی کمی ہے۔ ایک اور مثبت اشاریئے کا اشارہ وزیر ریلوے اعظم سواتی نے دیا ہے، ریلوے بند کرنے کا اشارہ۔

احسن اقبال نے پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ پچھلے دو برس سے سی پیک کا کام رکا ہوا ہے، اس عرصے میں ایک روپے کا کام بھی نہیں ہوا۔ احسن اقبال ہر دوسرے دن سی پیک کا ذکر پریس کانفرنس میں گھسیٹ لاتے ہیں، اس گڑھے مردے کو گڑا ہی کیوں نہیں رہنے دیتے۔ وہ گیت سنا نہیں، سمجھنا کہ تھا ایک سپنا سہانا، مجھے بھول جانا، مجھے بھول جانا۔ سرکار چھوڑیئے ان بیتے دنوں کی باتیں، کوئی مثبت بات کریں۔ آپ سنائیں، تمام اشاریئے مثبت جا رہے ہیں؟

خبر ہے کہ بیرون ملک سے درآمد کردہ ناقص گندم کی وجہ سے فلور ملز کو سخت مشکل درپیش ہے۔ اس سے پہلے چینی بھی ناقص منگوائی گئی جو اب زبردستی بیچی جا رہی ہے۔ باقی باتیں چھوڑیئے، یہ پی ٹی آئی والوں کو کیسے پتہ چلتا ہے کہ فلاں چیز فلاں ملک میں ناقص ملتی ہے، وہیں سے منگوالو؟ لگتا ہے پی ٹی آئی کی خارجہ امور میں خاصی مہارت ہے۔

پنجاب میں جرائم بڑھ گئے۔ لکھا ہے، بہت زیادہ بڑھ گئے۔ لیکن اصل میں جتنے بڑھے ہیں، ان کے لیے بہت زیادہ کا لفظ بہت کم ہے۔ جرائم کی فصل بہار چل رہی ہے۔ ایسی فصل بہار مشرف کے دور میں آئی تھی لیکن بزدار صاحب کے دور میں تو بہاروں کے قافلے قطار اندر قطار اترے ہیں۔ بزدار کو وسیم اکرم پلس مت کہئے۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal